یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے دادا نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران رنگون اور بغداد میں خدمات انجام دیں۔ کہیں سے اُن کے دو تمغے مل گئے۔ مجھے لگا کہ یہ بہت اہم یاد ہیں۔ ایک لوہے کہ کندہ مہر بھی ملی جو لاکھ پر لگائی جاتی تھی۔ وہ بھی سنبھال لی۔ اتنا سنبھالی کہ پتا نہیں کہاں سنبھالی۔
کوئی پرانی کرسی، قدیم ٹیلی وژن، کوئی سُوٹ، کوئی بائیسکل، بچوں کے سکول کی کاپیاں اور بیگ، سبھی بالآخر کباڑیے کے پاس جاتے ہیں۔ لیکن یہ جب تک تبرک بن کر آپ کی ملکیت میں رہتے ہیں، تب تک نہ صرف آپ کو بلکہ دوسروں کو بھی کچوکے دینے کے کام ہی آتے ہیں۔
یہ ’’میرا‘‘ یا ’’میری‘‘ ہے، خبردار کسی نے اِس کو ہاتھ لگایا، یہ میری ماں کی سلائی مشین ہے، اس کرسی پر میرا باپ بیٹھتا تھا۔ کسی ناپسندیدہ شخص نے اُسے چھوا تو چڑھ دوڑے۔
پڑوس کے ایک گھر میں ایک مستری کام کر رہا تھا۔ اچھا، ایمان دار اور محنت کش مستری تھا۔ میں کئی دن اُسے دیکھتا رہا۔ ایک دن کباڑیا آیا تو پڑوسی نے کہا، ’’یہ پرانی سائیکل بھی بتاؤ کتنے کی لو گے؟‘‘ کباڑیے نے کہا، اچھا پوچھ کر بتاؤں گا کوئی گاہک ملا تو۔ چودہ ہزار کی نئی آتی ہے، پانچ چھ سال پرانی چھ سات ہزار کی ہی ہونا تھی۔ مستری سن رہا تھا۔ کباڑیے کے جانے کے بعد بولا، ’’یہ سائیکل آپ کباڑیے کی بجائے مجھے بیچ دیں، میرا بیٹا پیدل سکول جاتا ہے، جتنے پیسے جائز ہیں لے لیں۔‘‘
کھڑکی میں سے پڑوسی کے بچے سن رہے تھے، فوراً بیوی نے بھی اندر طلب کر کے سرزنش کی کہ ’’بچوں کی یادیں ہیں اس کے ساتھ، آپ بھی کمال کرتے ہیں، بغیر پوچھے ان کی ’چیز‘ بیچ رہے ہیں۔‘‘
پھر کام کے آخری دن مستری نے جاتے ہوئے کہا، ’’چلیں جی، سائیکل دے دیں اور بتائیں کتنے پیسے دوں۔‘‘ پڑوسی نے شرمندگی کے ساتھ کہا کہ بچے نہیں مان رہے۔ مستری نے ہاتھ پیچھے باندھ کر خود داری کو ضرب لگنے سے بچانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ’’کوئی گل نہیں، میں نے تو اِس لیے کہا تھا کہ آپ نے بیچنا تھی۔‘‘ اور پھر فوراً بات کو بدلنے کے لیے مزدور کو ہدایات دے کر چلا گیا۔
سوچتا ہوں کہ وہ اپنے بیٹے سے کہہ کر آیا ہو گا کہ رات کو سائیکل ساتھ لے کر آؤں گا اور وہ اب سائیکل پر سکول جایا کرے گا۔ ’’یادوں‘‘ کے تبرکات کا ڈھونگ کتنا سفاک اور کتنا بہیمانہ ہو سکتا ہے! اور یہ بات کئی تبرکات پر صادق آتی ہے۔
میں اُس کے گھر میں ایک طرف رکھی تھوڑی زنگ زدہ یادوں کی ایک تصویر کھینچ لایا۔
بتایے، غلط کون ہے؟ یا سبھی درست ہیں؟؟؟
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر