نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ تاریخ داں ۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر زوار زیدی پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ تاریخ داں تھے۔ 1928 میں بدایوں میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے ایم اے ایل ایل بی کیا۔ ایف سی کالج اور پنجاب یونیورسٹی میں استاد رہے۔ برطانیہ سے ڈاکٹریٹ کیا اور وہیں برسوں پڑھاتے رہے۔ یونیسکو کی انترنیشنل کونسل آف آرکائیوز کے لیے دس سال کام کیا۔ 1991 میں پاکستان واپس آئے تو ایک بڑی ذمے داری ان کی منتظر تھی۔
بی بی سی کے مطابق دہلی میں مسلم لیگ کے آفس سیکریٹری شمس الحسن پارٹی سے متعلق ہزاروں دستاویزات پاکستان لائے لیکن وہ ایک عرصے تک سرکاری دفاتر میں گلتی سڑتیں رہیں۔ دارالحکومت کراچی سے منتقل ہوا تو یہ ذخیرہ کراچی یونیورسٹی کو سونپ دیا گیا۔ بعد میں نیشنل آرکائیوز اسلام آباد منتقل کیا گیا۔ قائداعظم اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹر شریف المجاہد یہ دستاویزات اتنی ہیں کہ ان سے چھ سو جلدیں بنائی جاسکتی ہیں۔
ڈاکٹر زوار زیدی کو نیشنل آرکائیوز میں موجود قائداعظم کی دستاویزات اور خطوط مرتب کرنے کا کام سونپا گیا۔ انھوں نے آخری سانس تک نہایت محنت سے یہ خدمت انجام دی اور "جناح پیپرز” کی 16 جلدیں شائع کیں۔ اس کام کو دنیا بھر میں سراہا گیا اور قائداعظم کی بیٹی دینا واڈیا نے بھی ایک خط لکھ کر ان سے اظہار تشکر کیا۔
حکومت نے ڈاکٹر صاحب کو اس کام کے لیے بھاری مشاہرہ دینے کی پیشکش کی تھی لیکن وہ انھوں نے منظور نہیں کی۔ صرف اتنا کہا کہ اسلام آباد میں رہنے کے لیے جگہ اور گاڑی دے دیں۔ اٹھارہ سال کی ان خدمات کا صلہ یہ ملا کہ ایک دن سرکاری اہلکار آئے، انھیں مطلع کیا کہ یہ گھر کسی اور افسر کو الاٹ ہوگیا ہے، اور ان کا سامان گھر سے نکال کر سڑک پر رکھ دیا۔
بی بی سی کے مطابق گریڈ 22 کی وہ الاٹمنٹ گریڈ 17 کی ایک خاتون افسر نے اپنے بااثر صحافی شوہر کی مدد سے کرائی تھی۔ اسے میڈیا پر شوروغل مچنے کے بعد منسوخ کیا گیا۔
وہ صحافی محترم روف کلاسرا تھے۔ انھوں نے الزامات لگنے کے بعد ایک کالم میں وضاحت کی کہ ایسا ان کے کہنے پر نہیں ہوا تھا بلکہ جب یہ بات ان کے علم میں آئی تو انھوں نے الاٹمنٹ منسوخ کروائی۔
حقیقت جو بھی ہو، لیکن ڈاکٹر صاحب یہ بے عزتی برداشت نہیں کرپائے۔ وہ لاہور منتقل ہوگئے اور صرف تین ماہ بعد انتقال کرگئے۔
ان کے بعد جناح پیپرز کی مزید 2 جلدیں میرے علم میں ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اور بھی شائع ہوئی ہوں لیکن مجھے معلوم نہیں۔ جو 18 جلدیں مجھے پی ڈی ایف کی صورت میں ملیں، وہ گوگل ڈرائیو کے ایک فولڈر میں جمع کردی ہیں اور لنک کتب خانے والے گروپ میں شئیر کردیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

About The Author