حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوست اور عزیزان گرامی مسلسل پوچھ رہے ہیں کہ مایوس کیوں ہوئے ہو مسئلہ کیا ہے۔ یہ اچانک نکل بھاگنے کا اعلان کیوں کیا کچھ بتائو تو سہی؟ فرداً فرداً جواب دینا بہت مشکل ہے۔ ایک سوال کا جواب دیجئے تو دوسرا حاضر۔
پہلی بات یہ ہے کہ میں مایوس نہیں ہوں، زندگی کی امنگ ہمیشہ کی طرح رقص میں ہے۔ خود مجھے رقص پسند ہے۔ قلم مزدوری کرتے نصف صدی ہوگئی ایک آدھ برس زائد ہی ہوگا۔ اس نصف صدی میں جو بھی کہا لکھا بھگتا وہ سب اختیاری تھا اس لئے ابدی سچائی یہی ہے کہ کسی پر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ اپنے ہونے کا حق ادا کیا۔
آدمی خاص ہو یا ہماری طرح کا عام زمین زادہ، دونوں کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے خواہشوں کے بے لگام گھوڑے کی سواری کی جائے یا خواہشیں دفن کرکے عصری شعور کے ساتھ اپنے حصے کا سچ بولا جائے۔ تعلقِ خاطر کا روشن تعارف بنے یا تاریخ کے کوڑے دان کا رزق۔
ہمیں بہتر یہی لگا کہ حالات کیسے بھی ہوں اپنے حصے کی بات کی جائے سو پچھلی نصف صدی سے وہی کہا لکھا جسے عصری شعور نے درست قرار دیا اس لئے ملال ہے نہ مایوسی نہ ہی کسی پر کبھی احسان جتانے کی سوچ نے دستک دی۔
اس پر بھی شکر گزاری ہے کہ قلم مزدوری کے محنتانہ سے زندگی کی گاڑی کھینچی ۔ بھونپو (میڈیا منیجر) بنے نہ ہی کبھی یہ توقع کی کہ ہم جنہیں ہم خیال سمجھتے ہیں وہ اقتدار میں آئے تو مہربان ہوں گے۔
کیونکہ کوئی ایک بار مہربانی کرتا ہے تو جواباً سو بار بھی تابعداری کرلیجئے مہربانی کا طوق گردن جھکائے رکھتا ہے۔ صد شکر کہ کبھی کسی نے کوئی مہربانی کرنے کی کوشش کی بھی تو یہی عرض کیا زکوٰۃ فرد کی ہو یا ریاست کی، دونوں ہم پہ نہیں لگتیں۔
خواہشیں کبھی بھی بہت زیادہ نہیں رکھیں نتیجہ یہ نکلا کہ ضرورتیں بڑھ پائیں نہ بڑھا پائے۔ اس سرزمین پر ہمارے پرکھوں کے پرکھوں اور امڑی و بابا جان کی قبریں ہیں کبھی اس کا برا چاہا نہ سوچا۔ بجا ہے کہ ہمارے خواب ہماری آنکھوں میں ٹوٹے۔ مذہبی ریاست اور نظام دونوں کے حوالے سے جو پڑھا اور تاویلات سنیں ان سے متاثر بالکل نہیں ہوا۔ ایک انکار دوسرے انکار کی وجہ بنتا ہے۔
ہمارے ہاں مکالمہ رواج نہیں پاسکا ورنہ سب سے اہم سوال یہی ہے کہ بندگی، بندے اور رب کا معاملہ ہے یہ اس کا لائسنس کسی فرنچائزی سے لینے کی کیا ضرورت ہے جو اپنی دکان کھولے مسلسل یہ صدا لگارہا ہے کہ خالص سودا میری دکان پر ہے باقی سب گمراہی بیچ رہے ہیں۔
مذہبی اور عقیدے کے حوالے سے موجود تعبیرات میں ہر صاحب تعبیر اور پیروکار خود کو حق قرار دیتے ہیں۔ مطالعے نے ہمیں یہ سمجھایا کہ حق صرف یہ ہے کہ اپنے حصے سے تجاوز نہ کیا جائے۔
گزری نصف صدی کے ماہ و سال میں جوہم سے ہو پایا وہی کہا لکھا۔ اب بھی جتنی زندگی باقی ہے جو درست سمجھیں گے وہی عرض کریں گے۔
بٹوارے کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والی ریاست پہلے دن سے ہی عوامی ریاست تھی نہ ہی ایک دن کے لئے بن پائی۔ یہ بنیادی طور پر سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ، ملا، پیروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں کی مشترکہ چراہ گاہ تھی اور ہے ۔ کبھی چہرے بدلتے ہیں کبھی طریقہ واردات۔
عوامی جمہوریت والی حاکمیت بالادست طبقات اور بندوق برداروں کے مفادات میں ہی نہیں اسی لئے کبھی نسل پرستی کے تعصب کی آگ بھڑکائی گئی تو کبھی فرقہ وارانہ شدت پسندی کی کوکھ سے عسکریت پسندی برآمد کروالی گئی۔
ایک منصوبے کے تحت ہمارے یہاں مذہبی قومیت کی ترویج کی گئی حالانکہ مذہب اپنے ظہور کے مقام پر بھی بطور مذہب موجود ہے قوم کی صورت میں نہیں۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جبرواستحصال کا دور دورہ تھا اور ہے۔ اسٹیبلشمنٹ جب یہ محسوس کرتی ہے کہ لوگ طوق غلامی اتارنے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں وہ کمال مہارت کے ساتھ ایک طوق اور پہنادیتی ہے اور ہمارے لوگ اسے ہنسی خوشی پہن بھی لیتے ہیں۔
یہاں شعور کینسر کے مرض جیسا بنادیا گیا ہے۔ عصری شعور سوال کرنا سیکھاتا ہے۔ سوال کرنا اصل میں اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ آنکھیں بند کرکے پیروی ہوگی نہ ہی اپنے خواب جلانے کے حکم پر عمل۔
جو وقت گزرگیا اچھا گزرا۔ رونے دھونے شکوے کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اور یہ سب ہو بھی کیوں کیا ہم نے جو کیا وہ مجبوری میں کیا۔ جی نہیں جو درست سمجھا وہی کیا۔
شکوہ صرف یہ ہے کہ ہر شخص دوسرے سے توقع کرتا ہے کہ وہ جبرواستحصال کی زنجیریں توڑے۔ خود اس کے لئے کوشش نہیں کرتا۔
حیرانی اس پر ہے کہ بندوق برداروں کو ’’انعامِ الٰہی‘‘ سمجھنے والے وہ لوگ جو چند دن قبل بندوق برداروں یا یوں کہہ لیجئے سکیورٹی سٹیٹ کو قسمت کا لکھا منوانے پر بضد تھے وہ اب مفادات پر ہوئے اختلاف کو انقلابی سوچ بناکر پیش کررہے ہیں۔ جس ریاست نے ہمارے آپ کے خون پسینے کی کمائی پر عیاشی کی اس کی فطرت کیسے تبدیل ہوگی۔
مفادات کے لئے لڑتے بھڑتے گروہ اصل میں اپنے اپنے انداز میں خواب چوری کرنے کی واردات کے منصوبہ پر عمل کررہے ہیں۔ کھلی آنکھوں سے سب دیکھ اور کانوں سے سن ہی تو رہے ہیں۔ مسائل ہیں لوگوں پر زندگی کے دروازے بند ہوتے جارہے ہیں۔ طبقاتی نظام کو بنام جمہوریت گلوں کا ہار بنانے والے طبقاتی مفادات کی سطح سے اوپر اٹھ کر سوچ سکتے ہیں؟ کم از کم میرا جواب نفی میں ہے۔
لاریب سیاست آگے بڑھنے اور ذاتی دشمنیوں سے اجتناب کا نام ہے لیکن جس تاریخ پر ہم نازاں ہیں اس ساری تاریخ کے ایک ایک ورق سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ذاتی دشمنیوں اور عناد کو فہم کے طور پر پیش کیا گیا۔
لوگوں نے اسے قبول بھی کیا۔ وجوہات کچھ بھی رہی ہوں سچ یہی ہے کہ ہمارے دہنوں کو بھائیوں کے گوشت کا ذائقہ لگ چکا۔ یہی ہمیں مرغوب بھی ہے۔
ایک ایسی ریاست جو مقامیت (شناخت اور تاریخ) کو روند کر زندہ ہو اس کا رزق کیا ہے اس بارے لمبی چوڑی بحث کی ضرورت نہیں۔ تاریک راہوں یا بندی خانوں کا رزق ہوئوں کو لوگ یاد نہیں کرتے تو کسی اور وجہ سے ایک شخص کم ہوگیا تو کون یاد کرے گا۔
اگلی منزل کون سی ہے، اسباب کیسے میسر آئیں گے۔ یقین کیجئے ابھی کچھ واضح نہیں۔ یہ ضرور ہے کہ یہاں سے نکل جانے یا یوں کہہ لیجئے نکل بھاگنے کی خواہش شدید تر ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ رواں صدی کے چھٹے سال میں کیئے گئے اُس فیصلے پر پشیمان ہرگز نہیں۔ وہ فیصلہ اس وقت بالکل درست تھا۔
کسی سے شکوہ بھی نہیں۔ بہت زیادہ خواہشات جب پوری نہیں ہوتیں تو شکوہ ہوتاہے۔ خواہشات کی بے لگامی ضرورتیں بڑھانے سے پیدا ہوتی ہے۔ مجھے اچھی طرح علم ہے کہ جو سوچ رہا ہوں یا کرنا چاہتا ہوں ہوسکتا ہے یہ ممکن نہ ہو پھر بھی سوچنا میرا حق ہے اور مجھے اپنے اس حق سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے۔
ان سطور میں اڑھائی تین عشروں سے یہ عرض کرتا آرہا ہوں کہ آپ اپنے پیاروں کے حق سے عہدہ برآ ہوں۔ یہ حقیقت ایک لمبی مسافت کےبعد سمجھ میں آئی کہ جو لوگ اپنے حق کے لئے بات کرنے کا حوصلہ نہیں کرپاتے انہیں یہ دعویٰ نہیں کرنا چاہتے کہ ہم نے چار اور کے لوگوں کے لئے قربانی دی۔
مکرر عرض کئے دیتا ہوں ہمارے بچوں کا حق کھاتی ڈائن ریاست سدھرنے کی نہیں۔ اس کی یہ وقتی پسپائی جن حالات کی وجہ سے ہے ان حالات کو آپ معمولی سے غوروفکر سے اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ اس پسپائی پر دھمال ڈالنے سے اجتناب کیجئے۔ تجربے کرنا اس کے خمیر میں شامل ہے۔
برس دو برس یا چند برس بعد اسے ایک نیا تجریہ کرنے کا شوق چرائے گا کیونکہ اسے عقلِ کُل ہونے کا زعم ہے۔ یہ زعم مرض لاعلاج کی صورت لے چکا۔
اس لئے بہتر یہی ہے کہ اپنے لئے سوچئے اپنی ذمہ داریوں سے فرار ہرگز حاصل نہ کیجئے۔ ہمارے سماج کی جو حقیقی تصویر آج ہمارے سامنے ہے یہ بہت محنت سے بنوائی گئی ہے۔ استحصالی اشرافیہ کے سارے طبقات کے مفادات سانجھے ہیں ہم اپنی اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کا بوجھ خود ہی اٹھائیں گے یہی حقیقت ہے۔
اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ اپنے ہمزاد کی باتیں سنیں زندگی جدھر لے جارہی ہے اس پر چلتے رہنے کی بجائے اپنا راستہ خود بنائیں۔ خود اختیار کردہ راستہ کم از کم وقتِ آخر سانپ کی طرح ڈسے گا بالکل نہیں۔
ابھی آپ کے درمیان ہی ہوں جتنے دن یا برس مزید ہیں اپنی فہم کے مطابق عرض کرتا رہوں گا بس اتنی سی گزارش ہے کہ اپنے عصری شعور کے ساتھ زندگی کی حقیقتوں کو سمجھنے کی عادت اپنائیں باقی سب کھلی آنکھوں کا دھوکہ ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر