نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

الوداع جنرل باجوہ!||عاصمہ شیرازی

جنرل باجوہ تحریک انصاف پر قربان ہوئے اور یہ اعتراف خود جنرل باجوہ کا ہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ادارہ سیاست میں عمل دخل چھوڑ دے گا؟ جنرل باجوہ نے جاتے جاتے غیر سیاسی ہونے کے ’غیر مقبول‘ فیصلے کیے مگر کر لیے۔

عاصمہ شیرازی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وقت کبھی کسی کا ہوا ہے نہ کبھی کسی کا ہو گا۔ وقت کی رفتار کو قابو کرنے والے خود کو اپنی ذات اور انا سے آزاد کرتے ہیں تب کہیں وقت ان کی قید میں ہوتا ہے۔

بالآخر جنرل باجوہ کے چھ سال اختتام کو پہنچے۔ عہدے مدت کی حد سے باہر بھی ہوں تب بھی ایک دن وقت نے اعلان کرنا ہوتا ہے کہ اب آپ کا وقت ختم ہوا۔

جنرل باجوہ چھ برس قبل نوازشریف کا انتخاب بنے۔ کندھے پر پھول لگے اور ہاتھ میں چھڑی آئی تو فائل میں ڈان لیکس ورثے میں ملی۔ ایک ٹویٹ پر ’مسترد‘ کا پچھتاوا جنرل باجوہ کو وقت کے وزیر اعظم کے پاس معذرت کے لیے لے گیا۔

جنرل باجوہ نے اپنے ایک خطاب کے دوران ذکر کیا کہ اس ملاقات کے دوران اُنھوں نے نواز شریف سے پوچھا کہ یقیناً آپ کو ہمارا ردعمل بُرا لگا ہو گا تو نواز شریف نے جواب میں کہا کہ جنرل صاحب بس کوئی فیصلہ غصے کے وقت مت کیا کریں۔

جنرل باجوہ نے اس پر کتنا عمل کیا اس کا اظہار اُس کے بعد تواتر سے کیے جانے والے فیصلے تھے یا شاید ادارے کا ہی فیصلہ کہ سیاسی کھیل نے اُس وقت کے وزیرِ اعظم کو گھر جانے پر مجبور کر دیا۔

ادارہ سیاسی تھا یا سیاست ادارے میں تھی بہرحال گذشتہ چھ برس میں پانچ وزرائے اعظم آئے اور گئے مگر نہ گئے تو جنرل باجوہ گھر نہ گئے۔

سنہ 2018 کے انتخابات سے قبل ادارے نے صادق اور امین قیادت ’تخلیق‘ کر لی تھی اور ’فخریہ پیشکش‘ کی نمائش زور و شور سے جاری تھی۔ سیاست، صحافت، سماج، اُستاد، جج، سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں ہر تنقید نگار، غرض پراجیکٹ کی راہ میں حائل ننھی مُنی رکاوٹیں بھلے وہ مدثر نارو جیسے بے ضرر شاعر کی صورت ہوں یا ٹی وی کی منحنی آوازیں، سب غائب ہونی شروع ہوئیں۔

ایک ’چھو منتر‘ آواز تو آواز پورا انسان غائب کر دیتا، خوف کا راج تھا اور سب انتظامات فقط اپنے من پسند کو صاحب اقتدار لانے کے لیے کیے جا رہے تھے۔ جب ادارہ یہ سب کر رہا تھا تو اُس وقت جنرل باجوہ ادارے کے سربراہ تھے اور جنرل فیض اپنا سیاسی کردار بخوبی نبھا رہے تھے۔

سیاسی مداخلت حد سے بڑھ گئی تھی مگر ’باجوہ ڈاکٹرائن‘ کے چرچے ہر سُو تھے۔

باجوہ، عمران خان

،تصویر کا ذریعہPTI

انڈیا کے ساتھ مشرقی سرحد پر جنرل باجوہ نے کامیاب اور طویل سیزفائر پر عملدرآمد کیا۔ فیٹف کی پابندیوں کے خاتمے کے لیے جی ایچ کیو میں خصوصی برانچ نے چار سال خصوصی طور پر کام کیا تب پاکستان کو کامیابی ملی۔

گذشتہ چھ برسوں میں کیا ہی کوئی اہم عالمی شخصیت ہو گی جس نے پاکستان کا دورہ کیا ہو اور اُس کا رُخ راولپنڈی کی جانب نہ ہوا ہو۔ یہ کمال ایک صفحے کی حکومت کا تھا کہ خارجہ پالیسی سے لے کر بجٹ کی منظوری تک جی ایچ کیو ہر کام میں شریک رہا۔

ایک صفحے کی حکومت کی ہر تحریر ایک ہی قلم سے لکھی گئی اور شاید اس صفحے کے سب کرداروں کا منطقی انجام بھی ایک ہی قلم کی نذر ہوا۔ جنرل باجوہ ہائبرڈ رجیم کے خالق نہیں مگر روح رواں ضرور بنے۔ فروری 2021 میں اس صفحے کی آخری تحریر بھی جنرل باجوہ نے ہی لکھی جب اُنھوں نے سینیٹ انتخاب میں عمران خان کی حکومت کو اپنے مسائل سے خود نمٹنے کا مشورہ دیا۔

تحریک انصاف کی ڈوبتی کشتی سے چھلانگ لگاتے وقت ادارے نے کپتان کو حفاظتی بیلٹ بھی باندھی اور اُنھیں اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کا پورا وقت بھی دیا۔

ایک ایسے وقت پر جنرل باجوہ نے پراجیکٹ عمران سے مُنہ موڑا کہ جس کا خود اندازہ عمران خان کو نہ تھا۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی آخری کیل ثابت ہوا تو ’امریکی سازش‘ کے بیانیے میں میر جعفر اور میر صادق کے طعنے اور الزام تراشی نے اس خلیج کو اس قدر وسیع کر دیا کہ ادارے میں ’کتھارسس‘ کا عمل سیاست میں عدم مداخلت کے اعلان پر ختم ہوا۔

جنرل باجوہ تحریک انصاف پر قربان ہوئے اور یہ اعتراف خود جنرل باجوہ کا ہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ادارہ سیاست میں عمل دخل چھوڑ دے گا؟ جنرل باجوہ نے جاتے جاتے غیر سیاسی ہونے کے ’غیر مقبول‘ فیصلے کیے مگر کر لیے۔

بہت دیر کی مہربان آتے آتے، بہر حال اب اس پر عمل ادارے کا وعدہ اور نئے آرمی چیف کا اصل امتحان ہو گا۔ ادارہ سیاست سے بالاتر رہے اور شہری اپنے آئینی حقوق حاصل کریں، لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہو، آئین کی عملداری ہو اور قانون کا بول بالا ہو۔ نئے آرمی چیف کو اب یہ سوچنا ہو گا کہ ملک کسی اور تجربے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

جنرل باجوہ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کے حساب میں گِھرے تو یہ ضرور سوچیں گے کہ جو ہوا نا ہوتا تو اچھا ہوتا۔ کاش چھ سال پہلے اسی وقت کے دروازے پر کھڑے چند فیصلے پچھتاوے نا بنتے اور یوں آج یہ معاشی اور سیاسی بحران میں گھرا دور یوں اختتام پذیر نا ہوتا۔

جنرل باجوہ چلے گئے مگر جاتے جاتے ورثے میں غیر آئینی مداخلت کا اعتراف چھوڑ گئے۔ اعتراف اور انکار کے بیچ اب نئے آنے والے کے لیے پچھتاوے کی کوئی گنجائش باقی نہیں۔

الوداع جنرل باجوہ الوداع۔

عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے

 بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام

About The Author