وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ روز ( چودہ نومبر ) عالمی یومِ ذیابیطس منایا گیا۔اس سے پہلے کہ ذیابیطس کے تازہ عالمی نقشے پر نگاہ ڈالیں۔خود ذیابیطس کی ابجد کیوں نہ دہرا لی جائے۔
جو بھی خوراک ہم استعمال کرتے ہیں وہ جسم میں داخل ہو کر گلوکوز ( شوگر ) بنتی ہے اور پھر خون میں شامل ہوتی ہے۔ خون میں گلوکوز ایک مخصوص مقدار میں ہی داخل ہو۔
اسے یقینی بنانے کے لیے قدرت نے ہر جسم میں لبلبہ نامی ایک کنٹرولر مقرر کر رکھا ہے جو انسولین بناتا ہے،تاکہ آپ کے خون میں داخل ہونے والے گلوکوز کی مقدار توانائی کی شکل میں جسم کو ضروری ایندھن فراہم کر سکے۔
بعض اوقات متعدد وجوہات کے سبب لبلبلہ یا تو ضروری مقدار میں انسولین پیدا نہیں کر پاتا یا پھر پوری طرح فعال نہیں رہتا۔یوں گلوکوز کی مقدار آپ کے خون میں بلا رکاوٹ بڑھتے بڑھتے جسمانی پیچیدگیوں کا محرک بن جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ یہ فالتو گلوکوز دل، گردے، اعصاب اور بینائی پر اثرانداز ہونے لگتا ہے۔
اب تک شوگر کی بے قاعدگی کو قدرتی سطح پر برقرار رکھنے کے لیے کوئی مستقل حل دریافت نہیں ہو سکا۔ البتہ وزن میں کمی، صحت مند غذا، متحرک معمولات، اچھی نیند اور اعصابی تناﺅ میں کمی کی مشق سے کسی حد تک شوگرمینجمنٹ ضرور ہو سکتی ہے۔شوگر کے مرض کی دو عمومی اقسام زیادہ جانی جاتی ہیں۔ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو۔
ٹائپ ون شوگر کی شکایت تب لاحق ہوتی ہے جب جسم میں کسی اندرونی ردِعمل کے سبب انسولین بننے کا عمل معطل ہوجاتا ہے۔یہ اچانک ردِعمل بچوں اور نوعمروں میں بھی ہو سکتا ہے۔ اسے کنٹرول کرنے کے لیے روزانہ انسولین لینا پڑتی ہے۔ عموماً ٹائپ ون کے مریضوں کی تعداد پانچ سے دس فیصد کے درمیان ہے۔
البتہ اکثریت بتدریج ٹائپ ٹو شوگر کی زد میں آتی ہے۔آپ کا لبلبلہ رفتہ رفتہ انسولین کی مقدار کم بنانے لگتا ہے۔یوں خون میں گلوکوز کی مقدار میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔اس کا ہدف زیادہ تر جوان یا پکی عمر کے لوگ ہیں۔علامات بھی آہستہ آہستہ ظاہر ہوتی ہیں۔
ذیابیطس کی ایک تیسری قسم بھی ہے جو دورانِ حمل گلوکوز کی مقدار میں اتار چڑھاﺅ کے سبب پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کے منفی اثرات بچے میں بھی منتقل ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ دورانِ حمل شوگر لیول کی نگرانی ازبس ضروری سمجھی جاتی ہے۔
اس وقت دنیا کا ہر تیسرا شخص شوگر کی سرحد پر کھڑا ہے۔ طرزِ زندگی اور روزمرہ عادات میں صحت مند تبدیلیوں کے ذریعے اس سرخ لکیر سے پیچھے ہٹنا ممکن ہے۔
عالمی ادارہِ صحت کے مطابق انیس سو اسی میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد ایک سو آٹھ ملین تھی جو اگلے چار عشروں میں چار گنا بڑھ گئی۔ اس وقت دنیا بھر میں ذیابیطس کے متاثرین کی تعداد لگ بھگ چار سو بیالیس ملین ہے۔ہر سال ذیابیطس کی پیچیدگیوں کے سبب پندرہ سے بیس لاکھ اموات ہوتی ہیں۔یہ مسئلہ متوسط اور غریب ممالک میں زیادہ سنگین ہے۔
ذیابیطس کی بین الاقوامی فیڈریشن (آئی ڈی ایف) کا اندازہ ہے کہ سرکاری و عمومی عدم دلچسپی کے باعث یہ مسئلہ وبائی شکل اختیار کر رہا ہے اور اگر اس بابت موثر بنیادی اقدامات نہ کیے گئے تو خدشہ ہے دو ہزار تیس تک چھ سو تینتالیس ملین اور دو ہزار پینتالیس تک سات سو تراسی ملین افراد لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔
اگر بیس برس کی عمر تک کے ٹائپ ون ذیابیطس چارٹ پر نگاہ ڈالی جائے تو حیرت انگیز طور پر امریکا سرِفہرست دکھائی دیتا ہے۔وہاں فی ہزار ایک سو پچھتر افراد ٹائپ ون ذیابیطس کے کسی نہ کسی مرحلے میں ہیں جب کہ انڈیا میں یہ تناسب فی ہزار ایک سو اکہتر ہے۔ حالانکہ دونوں ممالک کے طرزِ زندگی میں بہت فرق ہے۔
جب کہ ٹائپ ٹو ذیابیطس کا عالمی چارٹ دیکھا جائے تو چین مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے سرِفہرست ہے۔وہاں بیس سے اسی برس تک کے ایک سو اکتالیس ملین متاثرین ہیں۔دیگر بہتر ملین چینیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھیں بھی ذیابیطس ہے مگر وہ تشخیصی نظام کے مدار سے باہر ہیں۔چین کے بعد تعداد کے اعتبار سے انڈیا اور پاکستان کا درجہ ہے۔
آبادی کے تناسب سے ذیابیطس کے پھیلاﺅ کو دیکھا جائے تو پھر پاکستان پہلے، فرنچ پولینیشیا دوسرے اور کویت تیسرے نمبر پر ہے۔گزشتہ برس کے اندازوں کے مطابق پاکستان کی اکتیس فیصد، فرنچ پولنیشیا اور کویت کی پچیس فیصد آبادی اس وبا کی لپیٹ میں ہے اور متاثرہ افراد میں لگ بھگ نوے فیصد کو ٹائپ ٹو ذیابیطس لاحق ہے۔
حیرت ناک بات یہ ہے کہ براعظم افریقہ کی محض ساڑھے چار فیصد آبادی میں ذیابیطس کی علامات پائی گئی ہیں۔ ایک سبب شہری آبادی کی کم تعداد اور موٹاپے کی کم شکایت ہے۔ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ متاثرہ افراد کی تعداد کہیں زیادہ ہو مگر اکثریت کو اس کا ادراک نہ ہو یا پھر تشخیصی سہولتوں تک رسائی نہ ہو۔
جب تک کوئی تسلی بخش سستا علاج یا طریقہ وسیع پیمانے پر دریافت نہیں ہو جاتا تب تک ایک سادہ و متحرک زندگی اختیار کرنے سے ہی کام چلانا پڑے گا۔ کیونکہ ذیابیطس کوئی ایک مسئلہ نہیں بلکہ کئی جسمانی پیچیدگیوں کی جڑ ہے۔
جنھیں گمان ہے کہ وہ محفوظ ہیں۔ انھیں اس خوش فہمی میں مسلسل رہنے کے بجائے سال میں کم از کم ایک بار ضرور اپنا معائنہ کروانا چاہیے اور جو مبتلا ہیں انھیں اضافی جسمانی پیچیدگیوں سے بچنے اور صحت کے معیار کو مزید ابتری سے بچانے کے لیے احتیاطی تدابیر کو روز مرہ زندگی کا لازمی حصہ بنانا چاہیے۔
اس وقت صحت کے کل عالمی بجٹ کا چھ فیصد (نو سو چھیاسٹھ بلین ڈالر ) ذیابیطس کی روک تھام اور اس سے پیدا ہونے والی دیگر جسمانی پیچیدگیوں کے علاج معالجے اور دیکھ بھال پر صرف ہو رہا ہے۔اس اضافی خرچے سے بچنا ممکن ہے اگر دوسروں کے معاملات کے ساتھ ساتھ ذرا سی توجہ خود پر بھی دے لی جائے۔
(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر