ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج جی چاہتا ہے کہ آپ کا امتحان لیا جائے۔ ارے ارے گھبرائیے نہیں، نہ کوئی طویل پرچہ ہے اور نہ ہی کچھ اور، بس سادہ سا ایک سوال۔
ایک اچھا پروفیشنل ہونے کی کیا نشانی ہے؟
سوچئیے۔ ذہن پہ زور ڈالیے، ہر شعبے کو کھنگالیے۔ چھوٹا بڑا ہر کام، ہر شعبہ، ارد گرد۔ جواب تو مل ہی جائے گا۔
جواب کا ایک پہلو شاید ہماری اس کہانی میں بھی ہو۔ وہ تمام پیچ و خم جنہوں نے ہمیں زندگی کے بہت سے رنگ دکھائے اور اب تک حیران کیے جاتی ہے۔
اکیسویں صدی کا آغاز ہو چکا تھا اور گائنی میں پانچ چھ برس کی محنت اور ٹریننگ کے بعد سپیشلسٹ بن کے ہم اپنے سرور میں گم تھے۔ سرکاری نوکری میں رتبہ میڈیکل افسر کہ سرکار کو کیا لگے کہ محنت اور کار مسلسل سے حاصل کی گئی ڈگریوں کو کسی پلڑے میں تولا جائے۔
خیر سرکار سے تو ہمیں بھی امید نہیں تھی سو سرکاری ہسپتال میں سینئیر پوسٹ آنریری طور پہ سنبھال لی جس میں ذمہ داری اور کام سینئیر رجسٹرار اور اسسٹنٹ پروفیسر کا تھا اور تنخواہ ویمن میڈیکل افسر کی۔
شوہر اکثر ہنسا کرتے کہ اتنا زیادہ پڑھ لکھ کر اور اتنی ڈگریوں کے باوجود ترقی نہ ملنا تمہارے شعبے کا ہی کمال ہے۔ ظاہر ہے فوج اور سول سروس میں ترقی اور فوائد ایک سسٹم کے تحت امیدوار تک خود بخود پہنچتے ہیں۔ سفارش کا عمل دخل تو ہر جگہ پہ ہے لیکن سروس سٹرکچر نامی ٹوٹا پھوٹا ڈھانچہ ڈاکٹروں کا منہ چڑاتا ہے۔
خیر جناب ہم خوش تھے کہ ہم ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے ڈاکٹری اماں ابا کی فرمائش پہ نہیں پڑھی اور نہ ہی راتوں رات امیر بننے کا خواب دیکھا۔
ہم پنڈی کے ایک بڑے ہسپتال میں اسی جوش جذبے اور چہرے پہ مسکراہٹ بکھیرے کام کر رہے تھے کہ ہمیں ان سب لوگوں کے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے جو لاچاری اور بے کسی کی حالت میں ہسپتال پہنچتے ہیں اور جن پہ زندگی کبھی بھی مہربان نہیں ہوتی۔
یہ سب کچھ تو تھا اور ہم اس میں مطمئن بھی تھے لیکن زندگی میں کچھ اور بھی تھا جو توجہ کا متقاضی تھا۔
سترہویں گریڈ کی ملازمہ کی تنخواہ دس ہزار روپے کے لگ بھگ تھی اور ملازمہ بھی وہ جو بیس بائیس برس کی پڑھائی اور بے شمار تمغے لے کر وہاں تک پہنچی تھی۔
گھر میں تین بچوں کی تعلیم کے اخراجات دن بدن بڑھ رہے تھے۔ شوہر بھی اٹھارہویں گریڈ میں تھے لیکن ہوش ربا فیسوں اور زندگی گزارنے کے باقی لوازمات میں دن بدن گراں قدر اضافے کے سامنے دونوں کی تنخواہ اونٹ کے منہ میں زیرہ تھی۔
”تم پرائیویٹ پریکٹس کیوں نہیں کرتیں؟“
ایک دن چائے کے وقفے کے دوران ایک ساتھی ڈاکٹر نے سوال کیا،
”پتہ نہیں! شاید بچے چھوٹے ہیں یا شاید سوچا نہیں“
”تو اب سوچ لو، پنڈی اسلام آباد میں بے شمار پرائیویٹ سینٹرز ہیں جو اچھی گائناکالوجسٹ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اور تم تو سرکاری ہسپتال کی ملازمہ ہو جسے مشکل کیسز بھی کرنے آتے ہیں تو اپنی صلاحیتوں سے خلق خدا کو فائدہ پہنچاؤ اور خود بھی فائدہ اٹھاؤ“
کہہ تو یہ ٹھیک رہی ہیں، ہم نے دل میں سوچا۔ چلیے یہ بھی کیے لیتے ہیں۔ دنیا کے بازار میں ہماری قابلیت کس بھاؤ بکے گی؟ سوچ کر ہم نے بھی اس باؤلی میں چھلانگ لگا دی جہاں کے پانیوں میں تیرنا تو ہم نے سیکھا ہی نہیں تھا۔
لیجیے جناب، ایک بڑے اور مشہور میڈیکل سینٹر پہ ہم جا پہنچے، ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور ہم نے خدمت اور بھلائی کے عزم نامی تختی پھر سے پونچھ کر گلے میں لٹکا لی۔
یہاں تک سب ٹھیک تھا لیکن کچھ اور بھی تھا جو پرائیویٹ پریکٹس کے سولہ سنگھار میں شامل تھا اور ہم اس میں نہلے یا زیرو۔ آپ صاف صاف سننا چاہتے ہوں تو سنیے ہم مریض گھیرنے کے فن سے نا آشنا تھے۔
لاہور سے اگر تعلق ہے تو انار کلی تو گئے ہی ہوں، یا پنڈی کے راجہ بازار، کراچی کا علم نہیں سو کراچی والے خود ہی سوچ لیں کون سا بازار۔ ایسا بازار جہاں سب دکاندار اپنا اپنا مال رکھ کر خریدار کو متوجہ تو کرتے ہی ہیں لیکن دکان میں گھسنے والے گاہک کو اٹھنے بھی نہیں دیتے۔
چکنی چپڑی باتیں، مال کی بڑھا چڑھا کر تعریف اور اپنے منافع کا ہدف پورا کرنے کے مقاصد میں گاہک کا فائدہ کیا ہے؟ کوئی نہیں سوچتا۔
ہماری اس تلخ اور کھردری بات کا برا نہ مانئیے گا لیکن مریض گاہک ہی ہوتے ہیں اور وہ مال خریدنے آتے ہیں جو ڈاکٹر حضرات اپنے اپنے ٹھیلے پہ سجائے بیٹھے ہیں۔
دیکھیے مسیحائی اور خلق خدا کی خدمت پرانا افسانہ ہوا۔ اگر مفت میں علاج کروانا ہے تو سرکاری ہسپتال کا رخ کیجیے اور اگر پرائیویٹ ہسپتال جانا چاہتے ہیں تو سمجھ لیجیے کہ وہ تو ایک بزنس ایمپائر ہے۔ جس طرح کسی بھی فیکٹری کو چلانے کے لئے روپیہ چاہیے اور روپے کے لئے مال بکنا چاہیے اور مال کے بدلے میں روپیہ کہاں سے آئے گا، ظاہر ہے گاہک کی جیب سے۔ ہر پرائیویٹ ہسپتال ویسا ہی بزنس ہے اور اسی اصول پر چلتا ہے۔ گاہک نامی مریض اگر نہیں آئے گا تو ہسپتال تو ہو گیا نا ٹھپ۔
حق بات یہ ہے کہ وقت اور کام کے دام وصول کرنا سب کا حق۔ سو سمجھ لیں کہ سامنے بیٹھا مسیحا محض مسیحا نہیں، اپنا وقت اور علم فروخت کرنے بیٹھا ہے۔ یہ تو ہوئی ڈاکٹر برادری کے ساتھ بھائی چارے والی بات۔ مگر ہمارا دل چونکہ آپ کے ساتھ دھڑکتا ہے سو ہم کہیں گے بغیر لگی لپٹی رکھے بنا کہ مریض لٹ جاتا ہے جب دکاندار وقت کی پوری قیمت وصول کرنے کے ساتھ ناجائز منافع بھی کمانا چاہے۔
انصاف یہ ہے کہ مریض کو اس کے پیسے کے عوض ایمانداری سے کیا ہوا کام ملے اور جب بھی کوئی فیصلہ کیا جائے، جیب بھاری کرنے کی بجائے یہ دیکھا جائے کہ سامنے والے شخص کی بہتری کس چیز میں ہے؟
لیکن ایسا سوچتا کون ہے؟
آپ اگر سنار کی دکان پہ جائیں اور سنار زیور میں ملاوٹ کر کے آپ کو تھما دے تو کیسے علم ہو کہ زیور میں کس قدر کھوٹ ہے۔ کیا پکڑ سکیں گے آپ اس کا گریبان؟
اسی طرح مریض یہ نہیں سمجھ سکتا کہ صحیح تشخیص اور غلط کی پہچان کیا؟ ڈاکٹر جو کہہ رہا ہے اس میں کتنی ملاوٹ؟
مثال کے طور پہ اگر مریض کو کسی ایسی رسولی کا آپریشن کروانے کو کہہ دیا جائے جس کے بغیر گزارا ممکن ہو تو کون جان سکتا ہے کہ ڈاکٹر کے دماغ میں اس آپریشن کی فیس گھوم رہی ہے؟
اگر کوئی مہنگی ترین دوائیں لکھ دے تو کون جان سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو یہ نسخہ لکھنے کے عوض دواؤں کی کمپنی نے نئی گاڑی بک کروا کر دی ہے؟
بانجھ پن کے علاج کے لئے اگر گلی گلی آئی وی ایف ( ٹیسٹ ٹیوب بے بی) سینٹرز کھل جائیں اور اولاد کی چاہ میں لوگ عمر بھر کی پونجی اس خواہش کے پیچھے لٹا دیں تو کون جان سکتا ہے کہ ڈاکٹر کو آئی وی ایف یا ٹیسٹ ٹیوب بے بی نامی علاج کرنا بھی آتا ہے یا نہیں۔ کچھ کورسز کر کے دعوی کرنے میں سچ کتنا ہے اور جھوٹ کتنا، یہ تکنیکی ماہر کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔
کسی بھی ڈاکٹر کی قابلیت جانچنے کا طریقہ ڈگری لیکن کیا محض ڈگری سے صحیح تشخیص اور آپریشن کرنا آ جاتا ہے جس کے لئے برسوں کی ریاضت درکار۔
جس طرح کتابیں پڑھ کر جہاز اڑایا نہیں جا سکتا، ڈرائیونگ کتابچہ پڑھ کے سڑک پہ گاڑی نہیں چلائی جا سکتی، اسی طرح کسی بھی مریض کا علاج صرف کتابیں پڑھ کر ڈگری حاصل کر کے نہیں کیا جا سکتا۔
ڈاکٹری میں ایک اور بات بھی اہم ہے۔ بہت سی بیماریوں کا علاج آسان اور قابل فہم ہوتا ہے اور وہ درمیانی سمجھ بوجھ رکھنے والا ڈاکٹر کر سکتا ہے۔ لیکن بہت سی بیماریاں متفرق اور مبہم علامات کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں جن میں تشخیص کرنا ڈاکٹر کے لئے ایک چیلنج ہوتا ہے۔ مختلف علامات کو جوڑنا اور جوڑ کر کامیابی کے ساتھ ایک تصویر بنانا اور اس میں رنگ بھرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔
ایک اور بات بھی جان لیجیے۔ ڈاکٹری کو ایمان اور شوق سمجھ کر سیکھنے والے آپ کو خال خال ہی ملیں گے۔ زیادہ تر کا تعلق اس جماعت سے ہو گا جن کے والدین کا خیال تھا کہ اس شعبے میں روپیہ پیسہ بہت ہے سو بچے کو ڈاکٹر بنا کر ہسپتال بنا دیجئے۔ پھر دیکھیے پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔ کڑاہی اور گھی سے کھیلنے والوں کو کیا پروا کہ اس آنچ میں کون کیسے جل رہا ہے؟
لیکن انصاف کے تقاضے کیسے پورے پورے ہوں اگر یہ نہ سمجھا جائے کہ معاشرے میں ہو کیا رہا ہے؟
دل پہ ہاتھ رکھ کر کہیے کہ کون سے شعبے کے لوگ ہیں جو اپنا کام ایمانداری اور محنت سے انجام دے رہے ہیں؟
کون ہے جو راتوں رات امیر نہیں بننا چاہتا؟
کون ہے جو اپنی صلاحیتوں کو بڑھا چڑھا کر اپنے آپ کو عقل کل نہیں سمجھتا؟
کون ہے جو زندگی میں دیانت اور راستی کو اپنا زاد راہ سمجھ کر چلنا چاہتا ہے بھلے پاؤں میں آبلے ہی کیوں نہ پڑ جائیں؟
کیا بزنس مین منافع کماتے ہوئے اپنی فیکٹریوں اور دکانیں کو ضرب دیتے ہوئے آنے والی سات نسلوں کی بھلائی سوچتے ہوئے اپنے اردگرد کے لوگوں کا مفاد نظر انداز نہیں کرتے؟
سرکاری دفتر میں بیٹھے ہوئے لوگ کیا اتنے گھنٹے کام کرتے ہیں جتنے کہے گئے ہیں؟
بچوں کے نمبر امتحان میں کم آنے کا ڈر ہو تو کون سے ماں باپ پرچوں کا تعاقب کرتے ہیں؟
سفارش اور رشوت سے کیسے سب بند دروازے کھل جاتے ہیں؟
کیا ہر شخص کو انصاف مہیا ہے؟
کیا اساتذہ اپنا مفاد ٹیوشن سینٹرز میں نہیں ڈھونڈتے؟
کیا سیاست دان قوم کا درد اس لئے نہیں پالتے کہ اس درد کا مداوا چور دروازے سے آنے والی دولت ہو۔
کیا بیوروکریسی کی تنخواہ ان کے طرز زندگی سے میل کھاتی ہے؟
کیا گوشت کا کاروبار کرنے والے گدھے اور کتے میں فرق روا رکھتے ہیں؟
کیا ملک چلانے والوں کی دولت باہر کے ملکوں میں بڑھتی نہیں جاتی؟
کیا کچھ کھانے اور کچھ لگانے کا نظریہ قوم نے قبول نہیں کر لیا؟
کیا میڈیا پہ نظر آتے لوگوں کے بیانیے ذاتی پسند ناپسند، اثر و رسوخ اور لفافوں کی روشنی میں ترتیب نہیں دیے جاتے؟
سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا دانشور بھی اپنے نظریات اہل اقتدار کے پاس گروی رکھنے سے نہیں ہچکچاتے؟
کیا علما بھی اس دوڑ میں پیچھے رہتے ہیں یا فوائد کے لئے مختلف قسم کا چورن بیچنے کے لئے بازار میں آ جاتے ہیں؟
خواص چھوڑیے، عام آدمی تک اسی رنگ میں رنگا ہوا ہے۔
کبھی سڑک پہ آپ نے موٹر سائیکل سواروں کو دیکھا جو فاسٹ لین میں چلنا اپنا حق سمجھتے ہیں یہ کہتے ہوئے کیوں موٹر سائیکل ہے تو کیا ہوا؟ یہ سڑک کیا گاڑی والوں کے لیے بنی ہے؟
ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والا ہر شہری کیا بریانی کی پلیٹ کے عوض اپنا ووٹ فروخت نہیں کرتا؟
کیا بجلی چوری کرنے والا اسے بڑے چوروں کی مثال دے کر اپنا حق نہیں سمجھتا؟
ہماری اماں کہا کرتی تھیں، چوری اور بے ایمانی چاہے ککھ دی ہووے یا لکھ دی، رہتی چوری ہی ہے۔ اور چوری صرف روپے پیسے ہی کی نہیں ہوتی، فرائض میں ڈنڈی مارنا اور اپنے حق سے زیادہ وصول کرنا بھی چوری ہی ہے۔
جب معاشرے کا ہر شعبہ بے ایمانی اور ذاتی منافع کے رنگ میں رنگا جا چکا ہے تو ڈاکٹر کیا کسی اور مٹی کا بنا ہے؟
ڈاکٹر بھی تو آپ ہی میں سے ہیں، اسی ترتیب کا تانا بانا ہیں انہیں ہجوم سے علیحدہ کر کے مورد الزام کیسے ٹھہرایا جائے؟
مان لیں کہ ہم میں سے ہر فرد کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی جگہ اپنے حق سے تجاوز کرتے ہوئے دوسروں کا حق صلب کر رہا ہے اور یہ کوئی نہیں سوچتا کہ یہ آگ میرے دامن کو کہیں اور سے، کسی اور مقام پہ، کسی اور رنگ میں جلائے گی۔
اگر ڈاکٹر سے ایمان داری چاہیے تو ہر فرد کو سوچ میں تبدیلی لانا ہو گی کہ کہیں بھی کسی بھی طرح کوئی اپنے حق سے تجاوز نہیں کرے گا۔
جب سب بدلیں گے تو ڈاکٹر بھی بدل جائے گا۔
اندھوں کے شہر میں ڈاکٹرز کیسے آئینہ بیچ سکتے ہیں؟
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر