نومبر 7, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لائق تقلید میڈیا گروپ ۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذرائع ابلاغ کے پاکستانی اور غیر ملکی اداروں کے ساتھ اپنے پچیس سالہ تجربے کی بنیاد پر میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زوال پذیر ہونے کے باوجود بی بی سی دنیا کا سب سے بہتر اور لائق تقلید میڈیا گروپ ہے۔
میں نے اپنے کرئیر کے آغاز پر اس میں ملازمت حاصل کرنے کی کئی بار کوشش کی اور ناکام رہا۔ اس وقت انگریزی بولنا نہیں آتی تھی۔ اس کے بغیر غیر ملکی اداروں میں مشکل سے ملازمت ملتی ہے۔ لیکن اس سے ان اداروں ہی کو نقصان ہوتا ہے۔ انگریزی میں سوچنے والے مقامی افراد انگریز ہی ہوتے ہیں۔ آج کل اردو کا جو حشر کیا جاتا ہے، وہ ہم سب دیکھتے رہتے ہیں۔
جیو اور ڈان ٹی وی نے بھی ابتدا میں یہی کیا تھا۔ جیو کے ابتدائی دنوں میں یہ تفریق نمایاں تھی۔ ایک طرف وہ لوگ تھے جو انگریزی سے ترجمہ تو کرسکتے تھے لیکن روانی سے انگریزی نہیں بولتے تھے۔ کراچی کے سرکاری اسکولوں کی عمارتیں ماضی میں پیلے رنگ کی ہوتی تھیں۔ شاید کچھ کا نام پیلا اسکول بھی تھا۔ اس نسبت سے جیو کے اردو بولنے والے پیلے کہلائے۔ دوسرا طبقہ پل پار کے لوگوں کا تھا۔ پل پار کا مطلب ہے کلفٹن پل کے دوسری طرف رہنے والے لوگ، یعنی کلفٹن ڈیفنس کے رہائشی، جو مہنگے اسکولوں میں پڑھ کے آئے تھے اور روانی سے انگریزی بولتے تھے۔ انھیں نیلے کہا گیا۔
کیا آپ کو جیو کا وہ پرومو یاد ہے جو شروع شروع میں نشر کیا جاتا تھا؟ اس کے الفاظ تھے، ہم نے قدرت سے نیلا لیا، اور تھوڑا سا پیلا۔ مجھے معلوم نہیں کہ یہ پرومو لکھنے والے کے ذہن میں نیلے پیلے کارکنوں کی تفریق تھی یا نہیں۔ لیکن بہرحال ہمارے لیے یہ الفاظ ذومعنی تھے۔
خیر بعد میں نیلے چھٹتے چلے گئے اور چند ایک ہی باقی بچے ہوں گے۔ اب ہر ٹی وی چینل کو پیلیا ہوچکا ہے۔
میں نے ایک بار ایگزیکٹو پروڈیوسر ذوالفقار نقوی سے پوچھا کہ آپ نیلے ہیں یا پیلے۔ انھوں نے ہنس کر کہا، میں ہرا ہوں۔ وہ فیڈرل بی ایریا میں رہتے تھے، آن بان اشرافیہ والی تھی لیکن انداز اطوار ہم عوام جیسے تھے۔ مجھے ان کے گھر پر کونڈوں کی نیاز یاد ہے جس میں شہر بھر کے ہزاروں افراد آتے تھے کیونکہ ان کا اور ان کے والد کا ملنا جلنا بہت تھا۔ بھائی فیصل سبزواری اور ایم کیو ایم کے کئی دوسرے رہنما بھی ان کے دوست تھے۔ ذوالفقار بھائی کئی سال پہلے کینیڈا منتقل ہوگئے اور اب مزے کررہے ہیں۔ ان کے پاکستان چھوڑنے کے بعد بھی ان سے دو ملاقاتیں ہوئیں۔ ایک بار 2015 میں وہ اچانک نجف میں حضرت علی کے روضے پر ملے۔ دوسری بار وہ واشنگٹن آئے تو ایک آرٹ گیلری میں ملاقات ہوئی۔ ہماری بے تکلف دوستی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ان ملاقاتوں میں ہم نے کوئی سیلفی نہیں لی۔
قلم بہک کر نہ جانے کہاں دوڑ جاتا ہے۔ لکھ بی بی سی کے بارے میں رہا تھا جس کے قیام کو آج پورے سو برس مکمل ہوگئے۔ اس وقت اس کا نام برٹش براڈکاسٹنگ کمپنی تھا۔ بعد میں کمپنی کو کارپوریشن کردیا گیا۔ پہلے پہل فقط ریڈیو تھا۔ پھر ٹی وی آیا۔ اب نیو میڈیا یعنی انٹرنیٹ نے سب الٹ پلٹ دیا ہے۔ کچھ معاشی مسائل بھی ہیں۔ بی بی سی کا حجم، خدمات اور دائرہ کم ہوا ہے لیکن کم از کم انگریزی صحافت کا معیار برقرار ہے۔
مجھے بی بی سی میں کام کرنے کا موقع نہیں ملا لیکن میرے چند مضامین اس کی ویب سائٹ پر شائع ہوئے ہیں۔ ایک دو ریڈیو پروگراموں میں بطور مہمان بھی شریک ہوا۔ میں اسے اعزاز سے کم نہیں سمجھتا۔
بی بی سی کی صد سالہ تقریبات جاری ہوں گی۔ اس کی ویب سائٹس پر بہت کچھ دستیاب ہے۔ میں نے گوگل ڈرائیو کے ایک فولڈر میں بی بی سی کی پہلی ائیربک اور اس کے جریدے ریڈیو ٹائمز کا پہلا شمارہ ڈال کر کتب خانے والے گروپ میں لنک شئیر کردیا ہے۔ ریڈیو ٹائمز ستمبر 1923 میں چھپنا شروع ہوا تھا۔ پہلی ائیربک 1928 میں شائع ہوئی تھی۔ میرے پاس بی بی سی کی پچاس سے زیادہ ائیربکس اور پچاس ہی سے زیادہ دوسری کتب موجود ہیں۔ بی بی سی بکس ایک علاحدہ ادارہ ہے جو پینگوئن رینڈم ہاوس کے تعاون سے مختلف موضوعات پر باقاعدگی سے کتابیں چھاپتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

About The Author