نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چور، چوری اور چوکیدار|| عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاحایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلفٹی ویچینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

عمار مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چور کو سب سے بڑا خطرہ چوکیدار سے ہوتا ہے۔ چوری وہی کامیاب ہوتی ہے جس میں چور کے ساتھ اشتراک میں چوکیدار شامل ہو

اس وقت عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا ہے۔ جلدی الیکشن ان کا مسئلہ نہیں ہے۔ جلدی الیکشن کے شور غوغا کے پیچھے جو مقاصد ہیں وہ بھی یہی ہیں کہ کسی طرح حالات کی کایا پلٹ جائے وزارت عظمی کا ہما ایک دفعہ پھر ان کے سر پر بیٹھ جائے۔ وہ بلا شرکت غیرے اقتدار کے مالک ہوں۔ جس کو چاہے جیل میں بھجوائیں، جس کی مرضی وڈیو چینلوں پر چلوائیں، جس پر نظر کریں اس کا میڈیا ٹرائل شروع ہو جائے۔ اور ایسے ماحول میں وہ فیصلہ جو اس ملک میں بدقسمتی سے جمہوریت کی کنجی ہے وہ فیصلہ بھی ان کے حوالے کر دیا جائے۔ پھر وہ اپنی مرضی کا چیف منتخب کریں۔ من مانی کریں۔ مل کر کھیلیں۔ لیکن اب بہت دیر ہو چکی ہے۔

وہی لوگ جو عمران خان کو لانے کا سبب بنے تھے وہی اب خان صاحب سے سب سے زیادہ نالاں نظر آتے ہیں۔ اب وہی اس کمبل سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اب کمبل ان کی جان کو آ گیا ہے۔ ان کے گھر والوں کے ذہنوں تک پہنچ گیا ہے۔ اب چور کا دفاع کرنے والے چوکیدار نہیں اس کے گھر والے ہیں۔ اس لیے کہ انہیں گزشتہ پانچ برس سے ایک ہی کہانی سنائی گئی ہے۔ ایک ہی قصہ بارہا دوہرایا گیا ہے۔ خلافت کی مثالیں دے کر عمران خان کی شبیہ دکھائی گئی ہے۔ ایک ایسی سوچ تخلیق کی گئی ہے جس کا پہلے وجود نہیں تھا۔ ایک کردار تخلیق کیا گیا ہے جو پہلے کہانی میں موجود نہیں تھا۔ اب المیہ یہ ہے کہ اس ڈرامائی کردار کا تقاضا ہے مجھے ہر کہانی کا حصہ بنایا جائے۔ ہر ڈرامے میں وہ ہیرو کا کردار ادا کرے۔ تمام کردار اس کی معاونت کریں اگر ایسا نہیں ہو گا تو وہ ڈرامائی کردار کہانی کے سب کرداروں کو عریاں کر دے گا۔ ان کی کدورتوں اور کجیوں کو اس طرح عیاں کرے گا کہ خود چاہے وہ لازوال ہو نہ ہو مگر دوسروں کا بھی زوال کی طرف دھکیلے گا۔ کہانی کے اس خود ساختہ ہیرو کو اس بات کا علم نہیں کہ اب کہانی ایک نئے موڑ پر آ کھڑی ہوئی ہے۔ نئے کردار آنے والے ہیں۔

نئے کرداروں کے آنے کا خوف ہی خان صاحب کا سب سے بڑا خوف ہے۔ نئے کرداروں کا مطلب یہ ہے کہ ان پر ماضی کی غلطیوں کا ملبہ نہیں ہو گا۔ وہ ایک نئے صفحے پر نئی کہانی لکھیں گے۔ اس میں شاید وہ ماضی کے اوراق پھاڑ دیں۔ ماضی کے کرداروں سے اجتناب کریں۔ ایک صلح جو، امن پسند کردار کو سامنے لائیں جو نفرت کی داستان پرامن کے مکالموں کا مرہم رکھے

یہی خوف خان صاحب کو نچلا نہیں بیٹھنے دیتا۔ کبھی وہ مارچ کا اعلان کرتے ہیں، کبھی مارنے مرنے کی بات کرتے ہیں، کبھی شہر اقتدار کو نذر آتش کر کے معصوم بن جاتے ہیں۔ کبھی ایک آزاد ملک میں اک نئی جنگ آزادی کی بات کرتے ہیں۔ لیکن اسے تسلیم کرنا چاہیے کہ حالات کی باگ اب خان صاحب کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔ انہیں چند باتیں واضح کر دی گئی ہیں۔ الیکشن جلدی نہیں ہو رہے، اہم تعیناتی کا فیصلہ وزیر اعظم کرے گا اور اس میں ان کے مشورے کی کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں ہے۔ ادارے اب نیوٹرل ہو گئے ہیں اس نیوٹرل ہونے کی سب سے بڑی وجہ خان صاحب کا دور اقتدار ہے جس میں صرف نا اہلی، ناکامی اور نحوست پاکستان کا مقدر رہی ہے۔

خان صاحب سمجھ رہے ہیں کہ ترپ کا پتہ اب بھی ان کے پاس ہے۔ انہیں ذرا ادراک نہیں کہ ترپ کا پتہ چلا جا چکا ہے۔ اب ان کے ہاتھ خالی اور دامن میں دشنام کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ اب وزیر اعظم نہیں ہیں صرف وزیر اعظم کا خواب دیکھنے والے ایک لیڈر ہیں جو ہر لمحہ چوکیداروں سے ملتمس ہے کہ وہ چور کا ساتھ دیں۔ لیکن اب دیر ہو چکی ہے

اب سے کچھ دنوں کے بعد نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا فیصلہ ہو چکا ہو گا۔ یہ موضوع پرانا ہو گیا ہو گا۔ یار لوگ نئے صاحب کی مدح و تحسین میں زمیں آسمان کے قلابے ملا رہے ہوں گے۔ کس کے نام کا قرعہ نکلے گا یہ اس وقت چند افراد کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ لیکن ایک بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ نتیجہ خان صاحب کی خواہشوں سے برعکس ہو گا۔ وہ جس ساتھی کو ملا کر کھیلنا چاہتے ہیں وہ کھیل سے باہر ہو چکا گا۔ کیا اس سے آنے والے صاحب کی سوچ پر کوئی فرق پڑے گا؟ کیا پرانا کھیل پھر شروع ہو گا یا کھیل کے نئے اصول وضع ہوں گے؟

ایک بات کا ادراک اب اس ملک میں سب کو ہونا چاہیے کہ خان صاحب نئی تقرری کے بعد چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ اس تقرری کو پہلے وہ متنازع کر چکے ہیں جو کہ اس ملک کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ وہ اس تنازعے پر مزید پٹرول چھڑکیں گے۔ نئے آنے والے افسر کو کئی محاذوں پر جنگ لڑنا ہو گا۔ عمران خان کے انتشار کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ نیوٹرل رہنے والے فیصلے پر ثابت قدم رہنا ہو گا۔ اپنے ادارے کی دیکھ ریکھ اور امیج میں اضافہ کرنا ہو گا۔ جوانوں کو حوصلہ دینا ہو گا۔ جن اپنے ہی لوگوں کو گزشتہ پانچ سال میں الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ہپناٹائز کیا گیا ان لوگوں کی درست ذہن سازی کرنا ہو گی۔ میڈیا کو آزاد کرنا ہو گا۔ اس سماج سے نفرت کو ختم کرنے کے اقدامات کرنے ہوں گے۔ تشدد اور انتشار کا ہر سطح پر قلع قمع کرنا ہو گا۔ یہ سب وہ اقدامات ہیں جن سے خان صاحب کو سخت اختلاف ہے۔

وہ تو چاہتے ہیں ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو پہلے کیا جاتا تھا۔ ان کے لئے لیکن قانون اور آئین توڑنے سے بھی اجتناب نہ کیا جائے۔ سلامتی اور ناموس وطن تک کو بھی لاڈلے کی خاطر قربان کی جائے۔ لیکن اب ایسا ہوتا ممکن نظر نہیں آ رہا۔ پی ٹی آئی مستقبل کی ق لیگ بنتی نظر آ رہی ہے جس کا حلقہ اثر مشرف کی رخصت کے ساتھ ہی ہر الیکشن میں کم ہوتا گیا۔

بات شروع ہوئی تھی چور اور چوکیدار سے۔ اطلاعات ہیں کہ اب چوکیدار نے نہ صرف چور کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ہے بلکہ اس کی چوری پکڑنے کا بھی ارادہ کر لیا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو خان صاحب کا سیاسی مستقبل خطرے میں ہے کیونکہ چوری وہی کامیاب ہوتی جہاں چور اور چوکیدار ملے ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

بندہ ایماندار ہے ۔۔۔عمار مسعود

حکومت کی عجلت اور غفلت ۔۔۔عمار مسعود

پانچ دن، سات دن یا دس دن؟ ۔۔۔عمار مسعود

نواز شریف کی اگلی تقریر سے بات کہاں جائے گی؟ ۔۔۔ عمار مسعود

عمار مسعود کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author