وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1955 میں پیدا ہونے والے انیس اشفاق ہمارے زمانے میں اردو فکشن کی امید ہیں۔ لکیر کے اس پار لکھنو کے گلی کوچوں میں جنم لیا اور اسی شہر کی مرقع گلیوں میں بسنے والی سادھارن زندگیوں کی تصویریں کھینچتے ہیں۔ مشاہدے کی نکتہ رس تفصیل، احساس کا سوز دروں اور بیان میں جوہر تراش ایسا ضبط، اردو نثر نے ایسے معجزے کم دیکھے ہیں۔ مصحفی نے لکھا تھا، اب دیکھو تو قلعی سی ان کی ادھڑ گئی ہے / تھا جن عمارتوں پر دلی کے کام گچ کا۔ انیس اشفاق نے اسی المیے کو لکھنو کا پس منظر بخش دیا ہے۔ ان کا اب تک کا Magnum Opus ’دکھیارے‘ 2014 میں شائع ہوا تھا۔ گزشتہ نصف صدی میں ہندوستان سے پاکستان میں ایسے نوادرات کی درآمد شکیل عادل زادہ، اجمل کمال اور آصف فرخی کی مرہون منت رہی ہے۔ شکیل اور اجمل صاحبان سلامت رہیں، آصف فرخی یکم جون 2020 کو داغ دے گئے۔ انیس اشفاق کا ناول دکھیارے ان ہی کے توسط سے شائع ہوا تھا۔ کچھ ایسا ہوا کہ درویش اس مختصر سی کتاب سے محروم رہا۔ اب محمود الحسن نے نسخہ عنایت کیا تو عجب دنیا کے دروازے کھلے ہیں۔ کہانی بیان کرنے کا محل ہے اور نہ حوصلہ۔ یہ راز البتہ کھل گیا کہ تقسیم کی لکیر کھینچنے سے دکھ تقسیم نہیں ہوتے، رائیگانی کے نئے دروازے کھل جاتے ہیں۔ ایک تقسیم سے اگلی تفریق کی نیو رکھی جاتی ہے۔ 90ءکی دہائی میں آمریت کی دستکاری کے طفیل کراچی ایک مقتل میں بدل گیا تھا۔ یوسفی صاحب نے بڑے دکھ سے کہا تھا، ’برلن میں ایک دیوار اٹھائی گئی تھی، جسے گرانے میں تین عشرے صرف ہوئے۔ ہم نے تو بہت سی دیواریں کھڑی کر دی ہیں‘۔ جہاں ریاستی منصب تمدنی دانش کو گھر ڈال لے، وہاں ایسے ہی المیے نمودار ہوتے ہیں۔ دیوار برلن کا ذکر آیا تو چیک پوائنٹ چارلی کی یاد آئی۔
دوسری عالمی جنگ ختم ہوئی تو فاتحین نے جرمنی کو چار حصوں میں بانٹ دیا۔ امریکا ، برطانیہ اور فرانس نے اپنے حصے میں آنے والے منطقوں کو مغربی جرمنی کے نام سے یکجا کر دیا تاہم سوویت یونین اور مغربی اتحادیوں کے زیر انتظام دونوں جرمن منطقوں میں شہریوں کی آمدورفت میں کچھ خاص رکاوٹ نہیں تھی۔ نتیجہ یہ کہ مشرقی جرمنی میں اشتراکی جکڑ بندیوں سے بیزار شہری مسلسل مغربی حصے میں منتقل ہوتے رہے۔ اگلے پندرہ برس میں یہ تعداد 35 لاکھ تک پہنچ گئی جوکہ مشرقی جرمنی کی کل آبادی کا بیس فیصد تھی۔ مشرقی جرمنی سے انخلا کرنے والوں کی بڑی تعداد میں تعلیم یافتہ شہری مثلاً ڈاکٹر، انجینئر، سائنس دان، صحافی، ادیب اور دانشور وغیرہ شامل تھے جبکہ مغربی جرمنی سے سوویت یونین کے زیر قبضہ منطقے میں منتقل ہونے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ ہنرمند آبادی کے اس بڑے پیمانے پر انخلا سے مشرقی جرمنی کی معیشت بری طرح متاثر ہونے لگی۔ بالآخر اگست 1961 میں مشرقی جرمنی نے سرحد پر ایک بلند و بالا دیوار تعمیر کر دی جس میں آمدورفت کے لیے صرف تین چیک پوائنٹ رکھے گئے تھے جن پر کڑا پہرا تھا۔ دیوار پر خاردار تاروں کی باڑ لگائی گئی تھی اور کئی کلومیٹر کی ملحقہ پٹی میں شہریوں کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود مشرقی جرمنی کے شہری اپنی جان خطرے میں ڈال کر مغربی جرمنی میں داخل ہونے کی کوشش کرتے تھے۔ چیک پوائنٹ چارلی جرمنی کے دونوں حصو ں میں تقسیم کا استعارہ قرار پائی۔ 17 اگست 1962 ءکو 18 سالہ نوجوان پیٹرفیخٹر کی موت کو بہت شہرت ملی۔ مشرقی جرمنی کے پہرے داروں نے اسے دیوار پھلانگتے ہوئے دیکھ کر گولی چلا دی۔ پیٹ میں متعدد گولیاں لگنے کے بعد پیٹر خاردار تاروں میں گر گیا۔ کئی گھنٹوں تک مسلسل خون بہتا رہا اور نوجوان پیٹر بالآخر مر گیا۔ دونوں طرف کے پہرے دار اس کی مدد کو نہیں پہنچ سکتے تھے۔ دستاویزات کے مطابق دیوار برلن پار کرنے کی کوشش میں اٹھائیس برس کے دوران مشرقی جرمنی کے قریب 140شہری مارے گئے۔نومبر 1989 میں دیوار برلن منہدم ہوئی تو چارلی چیک پوسٹ بے معنی ہو گئی۔ یکم مئی 1960 کو پشاور کے قریب بڈابیر کے امریکی اڈے سے اڑنے والے جاسوسی طیارے U(2) کے پائلٹ گیری پاورز کو بھی ایک روسی جاسوس کے بدلے دیوار برلن کی چیک پوسٹ ہی پر 10 فروری 1962ءکو امریکیوں کے سپرد کیا گیا تھا۔ ایوب خان نے 1965 میں دورہ روس کرتے ہوئے اس واقعہ کے بارے میں معافی مانگی تھی۔ اس موقع پر ایوب خان نے سوویت وزیر خارجہ آندرے گرومیکوکو دورہ پاکستان کی دعوت دی تو گرومیکو نے طنزیہ جواب میں کہا تھا کہ ’میں U(2) طیارے کے ساتھ پاکستان آتا رہتا ہوں‘۔
چارلی چیک پوسٹ ہو یا اپریل 1987ءمیں میرٹھ کے قریب ہاشم پورہ کی بستی میں 42 مسلمان نوجوانوں کا قتل عام، بریگیڈیئر ضیاالحق کے ہاتھوں اردن میں فلسطینیوں کا قتل عام ہو یا پکا قلعہ حیدر آباد اور قصبہ کالونی کراچی میں سرکاری چھتر چھایا میں لسانی فسادات، کوئٹہ پریس کلب کے باہر مستقل خیمہ زن گمشدہ شہریوں کے اہل خانہ ہوں یا 2012ءمیں میاں مٹھو کے دست حق پرست پر اسلام قبول کرنے والی رنکل کماری کا سپریم کورٹ میں ’آزادانہ‘ بیان، انسان کی آزادی ریاست کی طاقت اور فرد کے ضمیر میں مستقل کشمکش کی کہانی ہے۔ ریاست کہیں چیک پوسٹ چارلی کھڑی کرتی ہے تو کہیں 29 ستمبر 1983 کو سکرنڈ کے گاﺅںپنھل چانڈیو میں اور 17 اکتوبر 1984 کو جام شورو کے قریب ٹوڑھی پھاٹک بند کر کے جمہوریت مانگنے والوں کا قتل عام کرتی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ چیک پوائنٹ چارلی اور اظہار کی ریڈ لائن کا تعین ریاست کے نام پر حکومتی انتطامیہ کرتی ہے۔ ریاست کے اہلکار انسان کے نقش پا کی وسعت نہیں سمجھتے۔ وہ نہیں جانتے کہ تاریخ چارلی چیک پوسٹ کو نومبر 1989 میں محض ایک سیاحتی سیر گاہ میں بدل دیتی ہے۔ پانچویں نسل کی دوغلی ابلاغی جنگ کے نقارچی نہیں سمجھتے کہ حقیقی صحافت ان کی مفروضہ ریڈ لائن کے پار شروع ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر