مئی 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یو نیورسٹیا ں اور مقامی روایات۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے دنوں بہاولپور جانا ہوا۔ اسلامیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے ملاقات کرکے وسیب کی تعلیمی ضروریات کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ میں نے وائس چانسلرڈاکٹر اطہر محبوب سے درخواست کی کہ سندھیالوجی طرز کا ادارہ اسلامیہ یونیورسٹی میں بھی ہونا چاہئے۔ بہاولنگر کیمپس میں سرائیکی شعبہ بنایا جائے کہ کسی بھی یونیورسٹی کے قیام کا پہلا مقصد خطے کی تہذیب ، ثقافت ، زبان و ادب اور اس کے آثار پر تحقیق ہوتا ہے۔ ڈاکٹر اطہر محبوب نے میری باتوں کو توجہ سے سن رہے تھے۔ کسی بھی یونیورسٹی کاچہرہ مقامی زبان و ادب کا شعبہ ہوتا ہے اور ملکی و غیر ملکی گیسٹ ہمیشہ مقامی زبان کے شعبے کو دیکھنااور اس کو پسند کرتے ہیں ۔ خواجہ فریدچیئر کو مکمل طور پر فنکشنل ہونا چاہیئے اور خواجہ فرید چیئر کے پاس اتنے فنڈز ہونے چاہئیں کہ وہ فریدیات پر کام کر سکے۔ یونیورسٹی کے کیمپس تحصیل سطح پر قائم کئے جانے چاہئیں، اس سلسلے میں خان پور کیمپس کو نہیں بھولنا چاہیئے کہ خان پور خواجہ فرید اور مولانا عبیداللہ سندھی کی سرزمین ہے ۔ میں شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس سلسلے میں اقدامات کا وعدہ کیا۔ تھنک ٹینک بتاتے ہیں کہ یونیورسٹی کے کسی بھی سربراہ کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنی تعیناتی جگہ پر اس خطے کی تاریخ ، ثقافت اور آثار سے واقفیت حاصل کرے اور خطے کے لوگوں کی زبان و ثقافت سے مانوس ہو اور اُس سے اگلی بات یہ کہ وہ دلی طور پر اُس خطے کی تہذیب و ثقافت اور زبان سے محبت کرے اورمقامی تاریخ ثقافت اور آثار پر ریسرچ کرائے، کسی بھی تعلیمی ادارے کے سربراہ کو فادر کا رول ادا کرنا ہوتا ہے ۔اوروہ مایوسی کو اُمید اور تاریکی کو اُجالے میں بدلے۔قابل فخر منتظم وہ ہوتا ہے جو اساتذہ اور سٹاف ممبران پر اعتماد کرے اور ادارے کے ممبران کو عضوِ معطل بنانے کی بجائے اُن سے کام لے اور ان کی صلاحیتوں کو پالش کرے اسی طرح ادارے کے سربراہ کو بچوں کی تخلیقی اور ذہنی صلاحیتوں کی آبیاری کے ساتھ ساتھ اُن میں لیڈر شپ کے اوصاف پیدا کرنا ہوتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ادارے کی ترقی کیلئے زندگی کے مختلف شعبوں سے قرب اور تعلق اور سوچ کا دائرہ اس حد تک بڑھانا ہوتا ہے کہ اس کے ادارے کا نام نہ صرف ملکی سطح بلکہ عالمی سطح تک لیا جائے۔ مجھے خوشی ہے کہ یہ تمام اوصاف ڈاکٹراطہر محبوب کی ذات میں موجود ہیں جیساکہ اُستاد قوم کا معمار ہوتا ہے ، معمار سازی وہ کرتا ہے جسے قومی شعور ہو ، ان کو اس کا ادراک بھی ہے اور احساس بھی ، اسی بناء پر اسلامیہ یونیورسٹی میں نئی دنیا آباد ہے اور اُن کے عہد میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کو نئی پہچان اور نیا مقام ملا ہے ۔’’ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے ،بڑی مشکل سے پیدا ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا‘‘ڈاکٹر اطہر محبوب صاحب دیدہ ور ہیں اور اُن کا وجود پاکستان کیلئے غنیمت ہے کہ اللہ پاک نے ان کو فیض رساں بنایا ہے ۔ سرائیکی وسیب پر ان کے بہت احسانات ہیں ۔ خواجہ فرید یونیورسٹی کے بانی وائس چانسلر کی حیثیت سے اُن کی خدمات کو ہم فراموش نہیں کر سکتے کہ انہوں نے اپنی خدادا د صلاحیتوں کے ذریعے خواجہ فرید انجینئرنگ یونیورسٹی رحیم یارخان کو مختصر عرصے میں پاکستان کی بہترین یونیورسٹی بنا دیا ۔اسی طرح آپ اسلامیہ یونیورسٹی میں آئے ہیں تو یہاں بھی تعلیمی انقلاب آ چکا ہے ۔ نئی دنیا اور نیا جہان پیدا ہو رہا ہے ۔ اس کا اندازہ اسبات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شعبہ جات اور فیکلٹیز کی تعداد کے ساتھ ساتھ داخلوں کی تعداد میں اضافہ بھی کئی سو گنا بڑھ چکی ہے ۔یہ وہ کام ہے جو عام آدمی کے بس کی بات نہیں ۔ ڈاکٹر اطہرمحبوب علم سے پیار کرتے ہیں۔ علمی صلاحیتوں کے علاوہ اُن میں انتظامی صلاحیتیں بھی بہت زیادہ ہیں ۔ بڑی بات یہ ہے کہ وہ صاحب بصیرت ہیں ۔ جب میں اُن کے خاندانی پس منظر پر غورکرتا ہوں تو یہ بات میرے سامنے آتی ہے کہ ڈاکٹرصاحب کے والدصاحب ائیر فورس میں تھے ۔ علامہ اقبال نے کہا ہے کہ ’’ نگاہ بلند سخن دلنواز، جاں پُر سوز، یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کیلئے‘‘ ۔ کہتے ہیں کہ سفر وسیلہ ظفر ہے ، کوئی آدمی بڑا ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ جہاں دیدہ نہ ہو، ڈاکٹراطہر محبوب کے والد صاحب ملازمت کے دوران مختلف ممالک میں تعینات رہے ۔اسی بنا ء پر موصوف کو انگلینڈ اور امریکہ اور دیگر ممالک ملازمت سے پہلے دیکھنے کے مواقعے میسر آئے ۔ جب میں ڈاکٹر صاحب کی قائدانہ صلاحیتوں کو دیکھتا ہوں تو اس میں بھی اُن کے والدین کے علاوہ اساتذہ کا حصہ نمایاں نظر آتا ہے ،اُن کے ننھیال اور ددھیال کا تعلق تعلیم کے شعبے سے تھا بلکہ وہ بانی پاکستانی قائد اعظم محمد علی جناح کے رفیق کار تھے۔ بلاشبہ ڈاکٹر صاحب کو تعلیمی اداروں سے محبت بھی ہے اور ان کو وجود میں لانے کا قرینہ بھی جیسا کہ 2015ء میں بانی وائس چانسلر کی حیثیت سے انہوں نے خواجہ فرید یونیورسٹی رحیم یارخان کا چارج سنبھالا تو بہت قلیل مدت میں نہ صرف یہ کہ یونیورسٹی قائم ہو گئی بلکہ کلاسوں کا آغاز ہوا ۔ ہمارے لئے یہ یونیورسٹی کسی بڑی نعمت سے کم نہیں ہے۔ ہماری گورنر میاں بلیغ الرحمن جو کہ یونیورسٹی کے چانسلر بھی ہیں وہ یونیورسٹی کو نئے کیمپس کی تعمیر کے لیے فنڈ مہیا کریں اور جام شورویونیورسٹی سندھ کے شعبہ سندھیالوجی کی طرح اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپو رمیں سرائیکالوجی کی منظوری دیں اور وسیب کے زبان و ثقافت کے ساتھ ساتھ وسیب کے آثار پر تحقیق کے لیے فنڈ مہیا کریں۔ سرائیکی وسیب تہذیب و ثقافت سے مالا مال خطہ ہے وسیب کی ذرخیزی بھی اپنی مثال آپ ہے ۔ البتہ وسیب میں سہولتوں کا فقدان رہا ہے۔

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: