عمار مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاڈلا بچہ عموماً اسے کہتے ہیں کہ جو چاہے کوئی بھی نقصان کرے، کتنی بھی الٹی فرمائش کیوں نہ کرے، ماں باپ بیچارے مارے الفت کے سب ماننے کو تیار ہوں۔ اس کو ڈانٹ ڈپٹ سے پرہیز کریں۔ اس کو سزا دینے سے اجتناب کریں، اس کی غلطیوں پر پردہ ڈالیں، اس کی خامیوں کو اپنے سر لے لیں۔ ایسے ماں باپ باقی بچوں کی تادیب تو ہیں مگر لاڈلے کو اس کی تمام تر خامیوں کے باوجود گود میں بٹھاتے ہیں، لاڈ کرتے ہیں، نخرے اٹھاتے ہیں۔
دیکھنے میں تو یہی آیا ہے کہ لاڈلے بچے بدتمیز ہوتے ہیں، کسی کی بات نہیں سنتے، نہ بڑوں کا ادب کرتے ہیں نہ کسی اور کا لحاظ کرتے ہیں، من مانی کرتے ہیں۔ گالی گلوچ، مار کٹائی سے بھی اجتناب نہیں کرتے۔ جھوٹ بھی بولتے ہیں، الزام بھی لگاتے ہیں اور مغلظات بھی بکتے ہیں۔
عمران خان بھی اس ملک اور اس ریاست کے لاڈلے ہیں۔ جو الفت بھرا سلوک ان کے ساتھ اس ریاست کے ادارے کرتے رہے ہیں اس کی مثال تاریخ پاکستان میں نہیں ملتی۔ انہیں کسی چیز کی مناہی نہیں، کوئی شبد ان کے کے لیے ممنوع نہیں، کسی حرکت پر کوئی پابندی نہیں۔ وہ جو چاہیں کریں آخر میں ان کے مائی باپ ان سے دلار ہی کر رہے ہوتے ہیں۔
جو سلوک اس ملک میں باقی سیاستدانوں کے ساتھ اداروں نے اور در انصاف نے روا رکھا ہے اس کا پاسنگ بھی ابھی تک عمران خان کے ساتھ نہیں ہوا۔ ہم نے اس ملک کی تاریخ میں کیا کچھ نہیں دیکھا۔ اس ملک میں سیاستدانوں پر کیا کچھ نہیں بیتا۔ پھانسی پر چڑھا دیے گئے، قتل ہوئے، بم دھماکوں میں مار دیے گئے، وطن بدر ہوئے، غداری کے الزام لگے، کفر کے فتوے لگے۔ جیلوں میں مویشیوں کی طرح ڈال دیا گیا۔
دوسری جانب عمران خان ہیں جنہیں ہر جرم کی اجازت ہے۔ اگر آپ ان کے اوپر لگے الزامات کا مقابلہ دوسرے سیاستدانوں سے کریں تو زمین آسمان کو فرق ہے۔ طلال چوہدری، دانیال عزیز اور نہال ہاشمی عدالتوں سے معافیاں مانگتے رہے مگر انہیں توہین عدالت میں نا اہل کر دیا گیا۔ یوسف رضا گیلانی اپنی وزارت عظمی سے ہاتھ دھو بیٹھے مگر کسی کے کلیجے کو ہاتھ نہیں پڑا، کسی منصف کی آنکھ پرنم نہیں ہوئی، کسی قاضی کا دل نہیں پسیجا۔ اب تماشا یہ ہے کہ در انصاف خان صاحب سے بارہا ملتمس ہو رہا ہے خدارا معافی مانگ لیجے ورنہ عدالت کو آپ کو معاف کرنے کا کوئی نیا طریقہ وضع کرنا پڑے گا۔ ماضی میں بھی یہی ہوا۔ دو ہزار تیرہ میں بھی توہین عدالت عمران خان پر کارگر نہیں ہوئی۔ امسال پچیس مئی کو بھی معزز جج صاحب نے کہہ دیا کہ ہو سکتا ہے عدالت کا حکم عمران خان کے مبارک سماعتوں سے ٹکرایا ہی نہ ہو اس لیے ہم انہیں کھلی چھٹی دیتے ہیں کہ چاہیں تو شہر کو آگ لگائی، چاہے پولیس سے مارپیٹ کریں، چاہے انتشار کی کھلم کھلا دھمکی دیں ان کا کا کوئی قصور نہیں ہے۔ قصور تو عدالت کو ہے جس کی کوتاہی کی وجہ سے حکم عدالت، خان کی سماعتوں تک نہیں پہنچ سکا۔
در انصاف پر ہی کیا موقوف ہر جگہ عمران خان لاڈلے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میڈیا کئی برس ان کی توصیف پر مامور رہا۔ کسی نے لاڈلے خلاف زبان کھولی تو نوکری سے گیا۔ کسی نے زیادہ حق گوئی کی کوشش کی تو گولیوں، اغوا، قید اور تشدد کا مستحق قرار پایا۔ ہر زمانے میں، ہر حکومت کے قصیدہ خواں ہوتے ہیں مگر پورے کا پورا میڈیا ہی ایک لاڈلے کی خدمت پر جٹ گیا اس کی مثال نہیں ملتی۔
جب وزارت عظمی کے مسند پر براجمان تھے تب بھی بس جنبش ابرو سے فرمائش کرتے تھے اور سب کام ہو جاتے تھے۔ کون سا بل منظور کروانا ہے؟ جہان پناہ کو کتنے بندوں کی اجلاس میں حاضری درکار ہے؟ کس کو الیکشن جتوانا ہے، کس کے ووٹ غائب کرنے ہیں، کہاں الیکشن کے عملے کو ہی اغوا کرنا ہے، کہاں دھونس دھمکی اور دبکے سے کام چلانا ہے، کس پر ہیروئن ڈالنی ہے، کس کو جیل بھجوانا ہے؟ کس کو چیئرمین سینٹ بنانا ہے، کس کو گرانا ہے کس کو اٹھانا ہے اس کے لیے خان صاحب کو زیادہ تگ و دو نہیں، بس فرمائش کرنی پڑتی تھی اور پھر ایک جادو کی چھڑی سے ہر رستہ کھلتا چلا جاتا۔
اب کہنے کو تو پلوں تلے بہت پانی بہہ چکا مگر لاڈلے کی روایت قائم ہے۔ اب بھی درون خانہ خان صاحب کے چاہنے والے بہت ہیں۔ ان کی ہر فرمائش پوری کرنے والوں کی اب بھی کمی نہیں ہے۔ لیکن اب ان کی فرمائشیں ایسی ہو رہی ہیں کہ جن پر عمل کروانا مائی باپ کے بس کا روگ نہیں۔ اب کون امریکہ سے حقیقی آزادی انہیں دلوائے، آئی ایم ایف کو کون سمجھائے کہ خان صاحب کے دور اقتدار کے بارے میں سچ بولنے سے پرہیز کرے۔ کون بیرون ملک کی عدالتیں سے فارن فنڈنگ والے کیس کو صفحہ ہستی سے مٹائے۔ اپنے ملک کی فرمائشیں تو ماں باپ پیٹ کاٹ کر پوری کرتے رہے مگر یہ دساور والی فرمائشیں اب مقامی ماں باپ کے بس کی بات نہیں۔
دیکھا یہی گیا ہے کہ جو ماں باپ اپنے بچوں کو لاڈلا بناتے ہیں وہ عموماً نقصان میں رہتے ہیں۔ ایسے بچے ایک حد کے بعد ماں باپ پر ہی الزام لگانے سے دریغ نہیں کرتے۔ ان کی بنی بنائی عزت کی لاج نہیں رکھتے۔ ایسے میں ماں باپ کے پاس یہ کہنے کا بھی چارہ نہیں رہتا کہ ”بچہ ہے بڑا ہو کر سنبھل جائے گا“ کیونکہ بچے کے سنبھلنے تک گھر کی ہر کل بگڑ چکی ہوتی ہے۔
عمران خان اپنے ہذیان اور ہیجان میں اتنے آگے بڑھ چکے ہیں کہ اب انہیں کسی کا پاس نہیں۔ وہ ہر چیز کو روندتے ہوس اقتدار میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ اب نہ ان کو اپنے محسنین کا پاس ہے، نہ مائی باپ کا خیال ہے، نہ وہ آئین جیسی چیزوں کی پرواہ کرتے ہیں، نہ قانون ان کا راستہ روکتا ہے، نہ عوام کا درد ان کے دل میں جاگتا ہے، نہ سیلاب کی تباہ کاریاں ان کو انتشار سے باز رکھ سکتی ہیں، نہ معیشت کی بدحالی ان کو نفاق پھیلانے سے روک سکتی ہیں۔ وہ اب بد مست ہاتھی کی طرح گنے کے کھیت میں داخل ہو چکے ہیں۔
یاد رکھیں لاڈلے کی شرارتیں تو سب کو برداشت ہوتی ہیں لیکن اگر لاڈلا گھر ہی کو آگ لگانا چاہے تو لاڈ پیار ختم بھی ہو سکتا ہے۔ نافرمانیاں اسی طرح جاری رہیں تو وہ وقت دور نہیں جب باپ سرزنش کرے گا اور ماں اس کے وجود پر ہی آنسو بہائے گی کیونکہ اب خدشہ یہ ہو چلا ہے کہ اگر لاڈلے نے اس گھر کو ہی آگ لگا دی تو سب دلار کرنے والے شعلوں کا کفن پہنے، پچھتاوے کی راکھ کرید رہے ہوں گے
یہ بھی پڑھیے:
بندہ ایماندار ہے ۔۔۔عمار مسعود
حکومت کی عجلت اور غفلت ۔۔۔عمار مسعود
پانچ دن، سات دن یا دس دن؟ ۔۔۔عمار مسعود
نواز شریف کی اگلی تقریر سے بات کہاں جائے گی؟ ۔۔۔ عمار مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر