ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے پاکستان کے دورے کے دوران کہا ہے کہ پاکستان کو سیلاب کی تباہی کے بع بحالی کے لئے بہت بڑی امداد درکار ہے۔ سیکرٹری جنرل نے بجا طور پر کہا کہ گلوبل وارمنگ کا ذمہ دار پاکستان نہیں، دوسروں کی غلطی کی سزا بھگت رہا ہے۔ بحالی کیلئے دنیا آگے آئے، بہت بڑی امداد چاہئے۔ حقیقت یہی ہے کہ صنعتی ممالک دھڑا دھڑ انڈسٹریاں قائم کر رہے ہیں۔ دولت کما رہے ہیں مگر حوس ذر میں ماحولیاتی آلودگی کے بچائو کیلئے اقدامات نہیں کئے جا رہے۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ یہ ٹھیک ہے کہ دولت کے بغیر کچھ نہیں لیکن سب کچھ دولت نہیں ہے۔ موجودہ بارشیں اور سیلاب آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہیں۔ ضروری ہے کہ صنعتی ممالک کاربن اخراج کم کریں۔ صنعتی ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک کے صنعتکار بھی اپنی صنعتوں میں حفاظتی اقدامات کریں۔ دنیا میں جہاں بھی کوئی آفت آئے اس سے سب سے زیادہ متاثر غریب ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بھی یہی کچھ ہوا ہے۔ ان سیلاب اور بارشوں سے غریب مارے گئے۔ عالمی برادری کی طرف سے پاکستان کو مدد دینا خیرات نہیں بلکہ انصاف کا تقاضا ہے۔ انسانی جانوں، املاک کو بہت نقصان پہنچا۔ عمران خان کو جلسے ختم کرکے سیلاب متاثرین کے پاس پہنچنا چاہئے کہ ان کا اپنا حلقہ عیسیٰ خیل و قمر مشانی بھی ڈوبا ہوا ہے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا دورہ خوش آئند ہے، دنیا کو با خبر کرنے اور متحرک کرنے میں مدد ملے گی لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ بلاول بھٹو اور ان کے والد صاحب حیثیت ہیں ان کو اپنی طرف سے بھی امداد کا اعلان کرنا چاہئے۔ کم از کم سندھ کے تمام جاگیرداروں اور وڈیروں کو آگے آنا چاہئے۔ افسوس ہوتا ہے کہ ابھی تک تمام وڈیرے، علماء و گدی نشین، جاگیرداروں نے ابھی تک سیلاب متاثرین کیلئے کسی طرح کی امداد کا اعلان نہیں کیا۔ ان حالات میں وسیب کے سرائیکی رہنما مہر شکیل احمد شاکر نے وسیب کے سیلاب متاثرین کیلئے دو کروڑ روپے کا اعلان کیا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔ وسیب کے دیگر صاحب حیثیت لوگوں کو بھی سامنے آنا چاہئے۔ ایک اچھی بات یہ ہے کہ وسیب سے تعلق رکھنے والی سرائیکی تنظیمیں اور جماعتیں اپنے اپنے طور پر کام کر رہی ہیں۔ فاضل پور میں سوجھل دھرتی واس کے چیئرمین انجینئر شاہ نواز مشوری اور جنرل سیکرٹری عثمان کریم بھٹہ نے بہت کام کیا ہے۔ انہوں نے سیلاب کے دوران خیمہ بستیاں آباد کیں۔ سب کو راشن اور ضروریات زندگی پہنچائی ۔ اب بحالی کا مرحلہ شروع ہوا ہے تو سوجھل دھرتی واس نے سیلاب متاثرین کو ایک سو گھر تعمیر کر دینے کا اعلان کیا ہے جو کہ خوش آئند ہے ۔ وسیب کی دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا ضلع دادو کے دور دراز سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا اور خیمے دینے کی ہدایت کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ سیلاب سے بچائو کیلئے نئے ڈیم بنانا ہوں گے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی بات سے کوئی بھی انکار نہیں کرے گا مگر ڈیمز کی تعمیر کیلئے فیصلہ ساز اور طاقتور قوتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ وسیب کے علاقہ دامان ٹانک، ڈی آئی خان اور تونسہ سے روجھان تک کوہ سلیمان کا پہاڑی سیلاب آیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے ڈیمز کی تعمیر کیلئے فزیبلٹی تیار ہے۔ صوبے میں اب بھی تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ چودھری پرویز الٰہی توجہ کریں اور اس سلسلے میں سابق وزیرا علیٰ عثمان بزدار کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور آرمی کے حاضر و ریٹائرڈ جنرلز کو سیلاب متاثرین کی مدد اپنے وسائل سے بھی کرنی چاہئے کہ اُن کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ موسمیاتی صورتحال سے نمٹنے کیلئے غیر معمولی اقدامات کرنا ہوں گے۔ ملک کی تاریخ میں سیلاب اور بارشوں سے اتنی تباہی پہلے کبھی نہیں آئی۔اس اعلان کے ساتھ چودھری پرویز الٰہی کو سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ بھی کرنا چاہئے۔ سیلاب سے اگلا مرحلہ بحالی کا ہے۔ سیلاب کے سلسلے میں ایک کمیشن بھی بننا چاہئے کہ جو آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرے اور اس بات کا بھی جائزہ لے کہ کہاں کہاں خامی رہ گئی اور کہاں کہاں زیادتیاں ہوئیں۔ سیلاب کے موقع پر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ طاقتور لوگوں نے سیلابی پانی کے رخ غریب علاقوں کی طرف موڑ دیئے۔ مختلف جگہوں پر شگاف لگائے گئے۔ شہروں کو بچانے کیلئے انتظامیہ نے خود بھی دیہاتوں کی طرف پانی کا رخ موڑا۔ سیلاب سے لوٹ مار کے واقعات ہوئے۔ امدادی سامان لوٹنے والے زیادہ تر پیشہ ور لوگ تھے اور دوسرے اضلاع سے آئے تھے۔ حکومت کو ان کیخلاف کارروائی کے ساتھ نقصانات کا بھی جائزہ لینا چاہئے کہ سندھ اور وسیب میں زراعت کا بھی بہت نقصان ہوا ہے۔ کپاس کی فصل تیار تھی اور بیج کے علاوہ کھاد اور سپرے پر بہت بڑا خرچہ ہو چکا تھا۔ گزشتہ روز سوشل میڈیا پر خبریں وائرل ہوئیں کہ عالمی شہرت یافتہ سرائیکی شاعر شاکر شجاع آبادی فوت ہو گئے۔ فون پر اُن کے بیٹے نوید شاکر اور ولید شاکر سے رابطہ کیا انہوں نے تردید کی اور کہا کہ والد صاحب ماشا اللہ زندہ سلامت ہیں۔ اس کے باوجود نہ رہا گیا شاکر آباد پہنچے ملاقات کے دوران شاکر شجاع آبادی نے سیلاب کی تباہ کاریوں پر دکھ کا اظہار کیا۔ میرے ساتھ بھکر سے محمد خان، حماد خان، خان پور سے پروفیسر نذیر بزمی اور ملتان سے ایاز محمود دھریجہ تھے۔ محمد خان نے شاکر شجاع آبادی سے زندگی کی خواہش بارے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ صوبہ میری زندگی میں بنے۔ اس موقع پر ولید شاکر نے ڈپٹی کمشنر ملتان کی طرف سے شاکر شجاع آبادی کے نام سے نصب کی گئی تختی دکھائی جس پر شاکر شجاع آبادی کی خدمات کا ذکر تھا۔ اس پر میں نے کہا کہ ایک تختی نہیں شاکر کے نام سے شجاع آباد میں یونیورسٹی ہونی چاہئے۔
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر