نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حالات کچھ اور بن رہے ہیں…||رسول بخش رئیس

دنیا میں اس وقت تضادات طاقتور طبقات‘ حکمران ‘ امیر مڈل کلاس اور ریاست سے وابستہ مراعات یافتہ طبقات اور انصاف ‘ آزادی اور مساوات کے لیے اٹھتی ہوئی تحریکوں کے درمیان ہیں۔ بہارعرب کی روح یہی تضاد تھا‘ جو اب بھی ہے ۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس وقت ہمارے سامنے سیاسی منظر وہ نہیں جو ہمارے حکمران طبقات نے سوچا تھا ۔ پرانے خیالات‘ پرانے راستے اورگھسی پٹی تدبیریں بدلے ہوئے زمانوں میں بھلا کب کارآمد ثابت ہوسکی ہیں ۔ سوچا کچھ تھا ‘ہوکچھ رہا ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے وہ شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں۔ سیاست ویسے کبھی کسی جابر کے ہاتھوں کی اسیر نہیں رہی آج تو سیسہ پلائی دیواریں بھی اسے پابند نہیں کرسکتیں ۔ کسی فکری مزاحمت کی صورت میں تو کبھی کھلی مزاحمت کے روپ میں‘ یہ اپنا اثر دکھاتی ہے۔ ڈر اور خوف ماضی میں کمزوروں کو خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کردیتے مگر پھر معاشرے میں حریت پسند‘ انصاف اور حق مانگنے والے ابھرآتے ۔ ایسے لوگوں کا تاریخ میں کامیابی کا معیار یہ نہ تھا کہ وہ مسند ِاقتدار پر بٹھائے جائیں۔ اُنہوں نے تو اپنا فرض اور اپنی وفا نبھانی تھی ۔ اب بھی ایسا ہی ہے۔ سیاست کے لیے آزادیاں ‘ سہولتیں اور رائے کے اظہار کے ذرائع تبدیل ہوچکے ہیں ۔ عوام کی طرف سے اٹھنے والے طوفانوں کے سامنے بند باندھناآسان کام نہیں‘ خصوصاً ان ممالک میں جہاں آئینی جمہوریت کی شمع ابھی تک کچھ روشنی بکھیر رہی ہے ۔یہ روشنی چاہے مدہم بھی ہو‘ آزادی اور انصاف کے راستے پر چلنے والے کچھ قدم تو آگے بڑھتے ہیں۔ بار بار میں کہتا رہتا ہوں کہ پاکستان تبدیل ہو چکا ‘ اس تبدیلی کے کئی رنگ ہیں۔ سب کا احاطہ ایک مضمون میں مشکل ہے ۔ کچھ کا ذکر ضرور ہوگاکہ حالات جس سمت جاتے نظر آرہے ہیں ‘ ان کے پیچھے بدلے ہوئے سماج کی حرکیات دیکھی اور محسوس کی جاسکتی ہیں ۔
دس اپریل کے واقعات کے بعد جو کچھ ہوااور اب تک ہورہا ہے ‘ اسے آپ جو مرضی کہیں مگر دنیا کی پانچویں بڑی آبادی کے ملک کو غیر مستحکم کرنا کوئی معمولی بات نہیں اور نہ ہی تاریخ کبھی کسی کو معاف کرتی ہے ۔ سوچا کیا گیا تھا‘اس کی جانکاری مشکل کام نہیں ۔ پچھلے سال کے واقعات کو سامنے رکھیں تو بند کمروں میں بنائے گئے منصوبے کسی کتاب کی طرح کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ مقصد عمران خان کی حکومت کو گرانا تھا ۔ اس کے لیے سیاسی جوڑ توڑ کرکے نئی اکثریت بنائی گئی۔ پہلے تحریک انصاف کے اراکین کے ضمیر ”جگائے‘‘ گئے‘ پھر موسموں کے ساتھ تبدیل ہونے والوں کو نئی راہ دکھائی گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئینی طور پر یہ سب کچھ درست دکھائی دیتا ہے اور یہ بھی کہ عمران خان نے اقتدار کے حصول کے لیے جلد بازی کی تھی اور اس کے لیے ایسے سہارے لیے جن کے بارے میں وہ پہلے بھی اچھی رائے نہیں رکھتے تھے ۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح عمران خان کو سامنے لانے کے لیے سیاسی بندوبست کیا گیا‘ اسی طرح ایک نیا سیاسی انتظام کرکے کونوں میں پڑے پرانے کھلاڑیوں کو میدان میں لا کھڑا کیا گیا ۔ وہی تاش کے پتے ‘ وہی پرانا کھیل‘ وہی سیاسی جوا۔ پرانے کھلاڑیوں کے وارے نیارے ہوتے رہے ہیں۔ خیال یہ تھا کہ خان صاحب سے اقتدار کا گھوڑا چھن گیا تو میدانِ سیاست کے پیادے بن جائیں گے ‘ چونکہ ماضی میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے ۔ عمومی تجزیہ یہی ہے کہ اگر کسی رہنما کے پاس دینے کے لیے کچھ نہ رہے تو اس کی سیاسی جماعت بھی بکھر جاتی ہے اور عوام مایوس ہو جاتے ہیں ‘ لیکن یہاں توقعات کے برعکس ہوا۔ خان صاحب کو تو گویا پر لگ گئے ۔ عوام ہیں کہ اُن کی آواز پر امڈتے چلے آتے ہیں۔ مرد ‘ عورتیں اور بچے جھنڈے اٹھائے جلسوں میں شریک ہوتے ہیں۔ ہم سیاست کوساٹھ سال سے دیکھ رہے ہیں اتنے بڑے جلسے ‘ اتناجوش و خروش اور جنون کی یہ کیفیت کبھی نہیں دیکھی ۔ جو عمران خان کے ناقدین ہیں وہ ان کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتے لیکن وہ بھی اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ اس وقت وہ عوامی مقبولیت کی چوٹی پر ہیں ۔ لوگ اس امید میں ہیں کہ یہ لیڈ ر انہیں اس طویل رات سے نکالے گا جو چوالیس سال سے عوام پر کوئی روشنی نہیں ہونے دیتی ۔ ایسی گھٹن ‘ لوٹ کھسوٹ اورملکوں کے زوال کے ذمہ دار حکمران طبقات سیاسی خلا پیدا کرتے ہیں ۔ پہلے مقابلے دو مورثی خاندانوں کے درمیان ہوتے رہے ۔ دونوں اندر اور باہر کے سہارے لے کر ایک دوسرے کو نیچا دکھاتے ‘ اقتدار میں آتے ‘ مقدمات بنا کر حریفوں کو ہراساں کرتے ‘ بدعنوانی کے اشتہار ساری دنیا میں لگاتے ۔ اس سیاسی جنگ میں کچھ ایسے بھی تھے جو کبھی ماحول کو ٹھنڈ ا کرنے اور ہاتھا پائی سے بچانے کے لیے مداخلت کرتے‘ لیکن ان میں سے کمزور دھڑا اس کی استدعا بھی کرتا اور منت سماجت بھی ۔ حالات بگڑ جاتے تو ثالث خود ہی کرسی سنبھال لیتااور تیتر اور بٹیر اپنی اپنی چونچ اور دم نوچنے کے بعد ٹھنڈے ممالک کی طرف پرواز کرجاتے ۔ ہماری سیاست کا یہ گھن چکر ایسے ہی محدود دائرے میں چلتا رہا ہے ۔
دس اپریل کے واقعات کے اثرات بھی نمایاں ہیں‘ فرق یہ ہے کہ سب اکٹھے ہیں ‘ا قتدار کاگھوڑا بھی سجا سجایا مل گیا مگر باوجود اس کے کچھ کرنے کے قابل نہیں ۔ شاید تدبیر یہ تھی کہ تیرہ جماعتوں کی سیاسی طاقت سے خان میدان سے بھاگ جائے گا اور اگر کھڑا بھی رہا تو ان سب کا مقابلہ کیسے کرے گا؟مگر سب تدبیریں الٹی ہوچکی ہیں ‘ملکی تاریخ اور سیاست کے دو تضادات اب کھل کر سامنے آچکے ہیں اوران کے فیصلے کی گھڑی اب زیادہ دور نہیں ۔ غلا م ذہنیت پر موروثی خاندانوں کا غلبہ رہا ہے‘ لیکن اب نوجوان ان کے ہاتھوں سے نکل چکے ہیں ۔ یہ سیاسی حلقہ ساٹھ فیصد کے قریب ہے ۔ عمران خان بھرے جلسے جلسوں اور کروڑوں عوام کے سامنے جوکہتے ہیں ‘ وہ اس پر یقین کرنے لگے ہیں ۔ جو تاثر اُن کے بارے میں بن چکا ہے ۔ دنیا بھر کے امیج ساز اکٹھے کرلیں ‘ کوئی ملمع کاری دیر پاثابت نہیں ہو گی ۔ دیگر تضادات کی بات چھوڑیں ‘ پھر کبھی سہی۔
ہم تو بار بار لکھ چکے ہیں کہ ملکی حالات چلو خوفناک نہ سہی ‘معمول کے مطابق بھی نہیں ہیں ۔ ایک کمزور حکومت ‘ معاشی بحران اور عالمی اقتصادی صورتحال کے پیش نظر سنگین مشکلات میں ہے ۔ اس عالم میں مسلط ہونے والے سیاسی بندوبست کے خلاف جنم لینے والی سوچ اور اس کے پیچھے تاریخی سماجی حرکیات کے ادراک کی ضرورت ہے ۔ دبانے سے حالات اور بگڑ سکتے ہیں ۔ جو منصوبہ دس اپریل سے پہلے تیار کیا گیا تھا‘غالبا ًاس میں عمران خان کو جیل میں ڈالنا اور نااہل کرنا بھی شامل ہے ۔ ابھی تک اسی پلان پر عمل ہوتا نظر آ رہا ہے ۔ جمہوری انداز میں مقابلہ کرنے سے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اتحاد گھبرا رہا ہے کہ پنجا ب کے ضمنی انتخابات نے ان کی حکومت کے ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ دکھادیا تھا‘ اب مزید ضمنی انتخابات سے فرار ہی میں عافیت ہے ۔ کچھ تو سوچیں کہ یہ تصادم‘ یہ تضاد ایک طرف عمران خان اور عوام اور دوسری طرف موروثی ‘ یہ تاثر ملک کو کس طرف لے جائے گا؟ اب بھی وقت ہے ‘ انتخابات کرائے جائیں ۔ شفاف‘ منصفانہ اور آزادانہ انتخابات ۔ جسے عوامی مینڈیٹ ملے ‘ اقتدار اس کے حوالے کردیا جائے۔ پرانے انتظامات اور سرپرستی اب سکہ رائج الوقت نہیں رہے۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author