گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوڑا تیڈا پیار وے ۔۔۔
ابھی میں لاہور کے سکول میں مڈل کی کلاس میں پڑھتا تھا جب ڈیرہ سے ایس ایس جھلم سٹیمر میں دریا کراس کر کے دریا خان ریلوے سٹیشن پہنچتا تو دو تین گھنٹے کندیاں جانے والی ٹرین کا انتظار کرنا پڑتا ۔اس وقت سٹیشن پر کچھ خانہ بدوش عورتیں گڈوی ہاتھ میں بجا کر یہ سرائیکی گیت گایا کرتیں اور اس طرح ان کو مسافروں سے خیرات کی شکل میں کچھ دقم مل جاتی۔ خیر بار بار یہ نغمہ سن کے مجھھ بھی یاد ہو گیا۔
چنا تیڈے وعدے کوڑے۔۔۔کوڑا تیڈا پیار وے ۔۔۔ پکھی پردیسیاں دا کیھڑا اعتبار وے ۔۔
ترجمہ یہ ہے کہ اے محبوب تیرے سارے وعدے جھوٹے تیرا پیار جھوٹا اور پردیسی لوگ تو پرندوں کی طرح ہوتے ہیں ان کا کیا اعتبار کرنا ۔۔۔
خیر میں اس وقت اس گیت کے کوڑے وعدوں کی گہرائ نہیں جانتا تھا کیونکہ ابھی مجھے جھوٹے وعدوں سے اتنا واسطہ نہیں پڑا تھا۔
سرائیکی شاعری بعض اوقات اشاروں استعاروں میں ایسی باتیں کہ دیتی ہے جو مجھے حیران کر دیتی ہیں ۔بھاولپور ریڈیو سٹیشن پوسٹنگ کے دوران ایک گیٹ کے چند اشعار سنے تو سمجھ آئ۔اشعار یہ ہیں۔
چنڑنگ پئ وچ چولے۔۔اساں ہاسے کملے ڈھولے۔۔ساڑ کے عشق دے کولے ۔بھا بھڑکائ ہمڑی۔۔ ایں سانگے نال آئ ہمڑی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر