نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عاشورئہ محرم کا پیغام||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محرم الحرام اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے ، اس ماہ کو شہدائے کربلا کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں اس مہینے کی بہت زیادہ عظمت ہے ، اس پورے مہینے کو شہدائے کربلا کی یاد منانے کے ساتھ ساتھ سرائیکی وسیب میں یہ بھی ہوتا ہے کہ مسلمان شہر خاموشاں کی طرف جاتے ہیں اور پہلی محرم سے 10 محرم تک قبروں کی لپائی کی جاتی ہے۔ لواحقین قبرستانوں میں جا کر فاتحہ خوانی کرتے ہیں ‘ نذر نیاز اور طعام کی تقسیم ہوتاہے۔کربلا کا واقعہ تاریخ اسلام کا المناک واقعہ ہے، اس کا پیغام باطل قوتوں سے ٹکرا کر حق و صداقت کا علم بلند کرنا ہے اور غمِ حسین ؓکو طاقت بنا کر آگے بڑھنا اور ظالم سے ٹکرانا ہے، دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھنی ہے۔ امریکا، اسرائیل ، بھارت گٹھ جوڑ مسلمانوں کے خلاف ہے، ان حالات میں مذہب اسلام کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے، فرقہ واریت سے بچنا ہے ، فرقہ واریت کے نام پر اسلام اور پاکستان کا بہت نقصان ہو چکا ہے۔ سرکاری طور پر فرقہ واری کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔ علماء کرام ، زاکرین عظام اور گدی نشینوں کو خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری ادا کرنا ہوگی ۔ واقعہ کربلا کے واقعات پڑھیں تو ایک ایک بات ہمارے لئے سبق اور مشعل راہ ہے ۔ کربلا کی جنگ میں خواتین کا کردار بھی لازوال اور بے مثال ہے ۔یوم عاشور کے دوران حضرت امام حسینؓ کے قافلے سے 21 خواتین اسیر ہوئیں جن میں سے غیر ہاشمی اور بنی ہاشم قبیلے کی خواتین شامل تھیں ۔ شام ، کوفہ کے بازاروں میں حضرت زینبؓ کے خطبات نے لوگوں کے ذہنوں میں آپ کے والد حضرت علیؓ کے خطبات کی یاد تازہ کر دی ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ باطل قوتوں کے ساتھ ٹکرانے کیلئے خواتین کو بھی میدان میں آنا چاہئے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ فرقہ واریت سے بچنے کی ضرورت ہے ۔ سرائیکی زبان کی مٹھاس ، نرمی و ملائمت کا ایک زمانہ قائل ہے ۔ سرائیکی میں ہونے والی شاعری سوز و گداز کی شاعری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سرائیکی شاعروں میں کوئی ایسا نہیں جس نے حمد، نعت کے بعد قصیدہ نہ لکھا ہو، اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ واقعہ کربلا کی یاد میں جنتا کچھ سرائیکی زبان میں لکھا گیا ہے ‘ شاید ہی دنیا کی کسی زبان میں لکھا گیا ہو ۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ سرائیکی زبان میں کربلائی ادب کے نام سے بہت سی اصنافِ سخن جانی اور پہچانی جاتی ہیں جیسا کہ حسینی ڈوہڑہ ، حسینی مرثیہ ، حسینی قصیدہ اور حسینی منقبت اپنی مثال آپ ہیں۔ سرائیکی مرثیہ سب سے پہلے سرائیکی وسیب سے شروع ہوا ۔ یہی وجہ ہے کہ مجلس عزاء جہاں بھی ہو رہی ہو ،وہاں سرائیکی مرثیہ ضرور پڑھا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ لکھنو، دکن اور دہلی کی مجالس میں بھی سرائیکی مرثیے پڑھے گئے ۔ مرثیہ کا لفظ ’’ رثا‘‘ سے نکلا ہے ‘ جس کا مطلب تعریف و توصیف خصوصاً میت کی توصیف ہے۔ برصغیر جنوبی ایشیامیں کربلائی ادب کا بانی سرائیکی خطہ ہے مگر نصاب کی کتابوں میں اس کا ذکر نہیں ‘ نہ صرف یہ کہ سرائیکی کا ذکر نہیں بلکہ نصاب کی کتابوں میں سرائیکی کے ساتھ ساتھ پنجابی‘ بلوچی ‘ پشتو ‘ براہوی ‘ ہندکو‘ پوٹھوہاری و دیگر پاکستانی زبانوں میں تخلیق ہونیوالے ادب کا بھی تذکرہ نہیں کہ حکمرانوں نے صرف ایک زبان اردو کو فوقیت دی ، اس لئے ادب کے میدان میں ہندوستانی اہل قلم کا تذکرہ تو ہوا جبکہ پاکستانی زبانوں کی تخلیقات سے اہل وطن محروم رہے ۔ ادبی تخلیقات سے سوچ و فکر جنم لیتی ہے، پاکستانی سوچ و فکر پاکستانی زبانوں میں تخلیق سے ہی ممکن ہے، آج محرم الحرام کے موقع پر درخواست کر رہا ہوں کہ پاکستانی زبانوں اور پاکستانی ادب کو قومی زبانوں کا درجہ دیکر نصاب کا حصہ بنایا جائے کہ آنیوالی نسل کو پاکستان کی تہذیب، ثقافت ، تاریخ و آثار کا علم ہو سکے۔ وسیب کے قدیم مرکز ملتان میں عزاداری اور مرثیے کی روایت بہت قدیم ہے ۔ معروف مورخ حفیظ خان اس پر لکھتے ہیں کہ خطہ ملتان میں عزاداری اس وقت شروع ہو گئی تھی جب واقعہ کربلا کے بعد دت قوم کے کچھ لوگ حضرت امام حسینؓ سے عقیدت رکھنے کے باعث وہاں مظالم کا شکار ہوئے اور عراق سے نکال دیئے گئے ۔ یہ لوگ عربی النسل تھے ۔ یہ لوگ 681 ء کے لگ بھگ ایران کے راستے ملتان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں آ کر آباد ہوئے ۔ ملتان شروع سے ہی محبت کرنے والا خطہ ہے، پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم ہوا، ملتان کے باسیوں نے اسے اپنا درد سمجھا۔ دنیا میں پیش آنے والے ہر سانحے کو اپنا سانحہ سمجھ لیتے تھے ۔ ظلم کا شکار کوئی بھی قوم ہجرت کر کے آئی ملتان نے محبت دی ، اپنائیت دی ، اس کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھا، اس کے دکھ میں شریک ہوئے ۔ دت قوم کے لوگ جب اس خطہ میں آئے اس وقت ایران اور عبر کے زیر اثر اس قوم کے ان لوگوں نے مخلوط زبان میں عزاداری کی اور اس منظوم صنف کو عام کیا جو کبت کہلائی ۔ کبت خوانی کرنے والے ان لوگوں کو حسینی باہمن کہا جاتا تھا ۔ حسینی باہمنوں کے کہے ہوئے کبت ہی خطہ ملتان اور سرائیکی زبان میں مرثیہ کی ابتدائی شکل ہے۔ ایک روایت اور بھی ہے وہ یہ کہ وہ لوگ جو ظلم کا شکار ہو کر عراق سے ایران کے راستے اس علاقے آئے ، یہاں کے کلچر اور یہاں کی زبان سے مانوس ہوئے ، یہیں سے سرائیکی مرثیہ کی روایت بنی ۔ ٭٭٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author