نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

توانائی بحران پہ قابو پایا جا سکتا ہے||اسلم اعوان

گرتی ہوئی معیشت اورغیر مستحکم سیاسی صورتحال‘ دونوں پر انرجی بحران بہت زیادہ اثرات مرتب کرتا ہے۔ بعض تخمینوں کے مطابق توانائی کی قلت نے گزشتہ چند سالوں میں ملک کو جی ڈی پی کے 4 فیصد تک نقصان پہنچا کر سینکڑوں کارخانوں کو بندش کی طرف دھکیل دیا ہے۔

اسلم اعوان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملک میں روزافزوں توانائی بحران کمزور معیشت اور غیرمستحکم قومی سلامتی کیلئے سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ قومی قیادت کی سہل انگاری کی بدولت ہمارے توانائی کے مسائل نہایت پیچیدہ اور گہرے ہو چکے ہیں جن کی جڑیںگورننس اور سیاسی عزم کی کمی میں پیوست ہیں۔ اسی لیے پچھلی سات دہائیوں میں یہاں کوئی جامع اور مربوط توانائی پالیسی تشکیل نہیں دی جا سکی۔ ہمارے اربابِ اختیار کی لاپروائی کے نتیجے میں روز بروز توانائی کی پیداوار اور انفراسٹرکچرکی تعمیرکیلئے وسائل کی عدم دستیابی اور توانائی بحران پہ قابو پانے کیلئے متبادل ذرائع سے اغماض بڑا مسئلہ بن کر سامنے آیا۔ آمدنی کے اندرونی ذرائع کی قلت کے باوجود توانائی کی بحالی کیلئے بین الاقوامی مالی اعانت کے مواقع موجود ہیں لیکن حکومت کیلئے دوسرے آپشنز کے علاوہ مقامی سطح پر قابلِ تجدید توانائی کے متبادل ذرائع کو ترقی دینا زیادہ سودمند ثابت ہوگا۔ پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو اس وقت بدترین انرجی بحران کا شکار ہیں۔ دنیا میں اس وقت لگ بھگ ایک ارب تین کروڑ لوگ بجلی کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں ان کا 66 فیصد اِنہی دس ممالک میں آباد ہے، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہمارے یہاں بجلی کی یومیہ کھپت29ہزار میگاواٹ ہے، اگرچہ ہماری بجلی پیدا کرنے کی مجموعی استعداد 41 ہزار 557 میگاواٹ پہ محیط ہے لیکن فی الوقت ملکی سسٹم صرف 22 ہزار میگاواٹ بجلی پیداکر رہا ہے اور ملک کو تقریباً سات ہزار میگاواٹ کے شارٹ فال کا سامنا ہے۔ اس وقت 10251میگاواٹ بجلی پانی، 9800 میگا واٹ ایل این جی، 6000 میگاواٹ فرنس آئل، 3600میگا واٹ نیوکلیئر توانائی، 3500میگاواٹ گیس، 1985میگاواٹ ہوا، 5300 میگاواٹ کوئلے جبکہ364 میگاواٹ بائیو ذرائع سے پیدا کرنے کی استعداد ہے‘یعنی ہماری توانائی کی 61 فیصد پیداوار کا انحصار تھرمل ذرائع پر ہے جس کیلئے ہمیں قطر سے ایل این جی کے علاوہ خلیجی ممالک سے تیل اور ڈیزل کی خریداری پہ 18 بلین ڈالر سالانہ زرمبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ بلکہ امسال دس ماہ میں ہمارا ایکسپورٹ بل 17 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔
امر واقع یہ ہے کہ دنیا بھر کی ترقی یافتہ مملکتیں توانائی کی ضروریات کو نہایت سرعت کے ساتھ سولر اور ونڈ انرجی کی طرف منتقل کر رہی ہیں۔ ابھی حال ہی میں امریکہ کی32 ریاستوں نے باہم معاہدات کرکے 2035ء تک اپنی ریاستوں اور پوری مشینری کوسوفیصد سولر انرجی پہ منتقل کرنے کا تہیہ کیا ہے۔ امریکہ اب تک 15 گیگاواٹ تک کے سولر پینل انسٹال کر چکا ہے۔ اسی طرح 2035ء تک امریکہ16گیگاواٹ اور 2050ء تک سولر انرجی کے حصول کے سسٹم کو 1600 گیگاواٹ تک پہنچا کر انرجی سیکٹر میں کاربن کے استعمال کو صفر کر دے گا۔ اسی ارتقائی کاوش کے نتیجے میں 2035ء تک امریکہ کی کل 52 ریاستوں میں بجلی کی 40 فیصد ضروریات سولر سسٹم سے پوری کی جائیں گی۔ ابھی حال ہی میں متحدہ عرب امارات میں زیرِ تعمیر سولر پارکس تیسرے مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں۔ چوتھے فیز کی تکمیل کے بعد یو اے ای والے اپنے پورے ملک کو سو فیصدسولر انرجی پر شفٹ کر لیں گے۔ بھارت میں بھی تمام نہروں کو سولر پلیٹوں سے ڈھانک دیا گیا ہے، جس سے ایک طرف تو واٹر ریسورسیز آلودگی اور دھوپ کی تمازت سے بخارات بن کے اڑنے سے بچ رہیں گے۔ دوسرا‘ ہزاروں میگاواٹ سولر انرجی مفت حاصل ہو گی۔ چین بھی ہائبرڈ سولر سسٹم پہ منتقل ہو گیا ہے۔ بیجنگ نے اپنے تمام 84 ہزار ڈیموں سے منسلک ایسا جدید سولر سسٹم تخلیق کیا ہے جس سے سولر انرجی کی پیدوارا دگنی ہو جائے گی۔ اس وقت بھارت، متحدہ عرب امارات اور چین میں کوئی پارکنگ شیڈ سولرپلیٹوں کے بغیر دکھائی نہیں دیتا۔
دنیا بھر میں گیس کا گھریلو استعمال بند کرکے اسے صرف برآمدات سے جڑی ایسی کمرشل انڈسٹریز کیلئے مختص کیا جا رہا ہے جو فارن ریزور کمانے کا وسیلہ بنتی ہیں۔ آپ کو یہ جان کر خوشگوار حیرت ہو گی کہ پاکستان میں یہ اعزاز صرف ایوانِ صدر ہی کو حاصل ہے‘ جہاں پچھلے تین سالوں میں بجلی کا پورا نظام سولر پر منتقل کرکے آن گرڈ سسٹم کے ذریعے ضرورت سے زیادہ بجلی قومی گرڈ کو فراہم کی جا رہی ہے۔ قومی خزانے سے بجلی کی مد میں ایوانِ صدرکا سالانہ بجٹ پانچ کروڑ روپے تک تھا جبکہ ایوانِ صدر کی سالانہ کھپت 24 لاکھ یونٹ تھی؛ چنانچہ کئی سالوں سے ایوان صدر آئیسکو کا کروڑوں کا مقروض تھا۔ پچھلے تین سالوں میں ڈھائی کروڑ کی لاگت سے پہلے مرحلے میں بوسیدہ تاریں اور پرانی لائٹیں تبدیل کرکے ایوانِ صدر کی بجلی کی کھپت کو 24 لاکھ سے 13 لاکھ یونٹ سالانہ تک لایا گیا۔ دوسرے مرحلے میں ماہرین نے سولرانرجی پروڈکشن کے ذریعے لاکھوں یونٹ بجلی پیدا کرنے کی خاطر ایوانِ صدر کے تمام پارکنگ شیڈز پر سولرپینل لگا کے 14 لاکھ یونٹس سالانہ بجلی حاصل کرکے ایوانِ صدر کے بجلی کے خرچ کو صفر کرکے ہمارے ایوانِ صدر کو سولر پہ چلنے والی دنیا کی پہلی پریزیڈنسی کا اعزاز دلا دیا۔ اب ایوانِ صدر ایک لاکھ یونٹ سالانہ آئیسکو کو فروخت کرکے اگلے چند سالوں میں اپنے قرض کی ادائیگی ممکن بنا لے گا۔ ہمارے یہاں ڈیرہ اسماعیل کی 160کلو میٹر لمبی سی آر بی سی کینال کو اگر سولر پینلز سے ڈھانپ دیا جائے تو یہ نہ صرف آلودگی اور دھوپ کی تمازت سے بخارات بن کر اُڑنے سے پانی کے زیاں کو روک سکتے ہیں بلکہ پورے ڈویژن کو نہایت سستی بجلی کی ترسیل بھی ممکن بنا دیں گے۔ شنید ہے کہ ایوانِ صدر کی پیروی میں حکومت تمام سرکاری دفاتر کو سولر انرجی پر منتقل کرکے اربوں روپے سالانہ کے اخرجات بچانے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔ ہونا بھی یہی چاہیے کہ وفاقی حکومت تمام سرکاری اداروں، ایوانِ وزرائے اعلیٰ اور گورنرہائوسز اور چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹریز کو ہدایات دے کہ وہ اپنے دفاتر کے پارکنگ شیڈز، چھتوں اور وسیع و عریض پارکس میں سولر پینل لگا کر اپنی بجلی کی ضروریات خود پوری کریں‘ بصورتِ دیگر بجلی کی مد میں انہیں ملنے والے فنڈز روک دیے جائیں گے۔ سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے گورنر ہائوسز سینکڑوں کنالوں پہ محیط ہیں‘ جہاں بیک وقت نہ صرف کئی ہیلی کاپٹرز اتر سکتے ہیں بلکہ ہوائی جہازوں کے رن وے تک بنائے جا سکتے ہیں۔ بیکار پڑے اتنے وسیع و عریض سرکاری مقامات کو سولر پینلز سے مزین کرکے کروڑوں یونٹ سالانہ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ امریکی ادارے ناسا کی ایک رپورٹ کے مطابق‘ پاکستان کے چار بڑے ونڈز کوریڈورز؛ نوری آباد، کیٹی بندر، گھارو اور مردان سے پچاس ہزار میگا واٹ بجلی بنائی جا سکتی ہے۔ اس وقت نوری آباد کراچی میں کچھ کمپنیاں 1985 میگاواٹ بجلی پیدا کر رہی ہیں۔ یہاں ہزاروں میگاواٹ مزید بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح بلوچستان میں مکران، کہولپور، نوکنڈی، چاغی، گوادر اور مارو کے علاوہ گیارہ سو کلومیٹر پہ پھیلی کوسٹل بیلٹ ونڈ انرجی اور سندھ کا 250 کلو میٹر پہ محیط بنجر علاقہ سولر انرجی کی پیدوار کیلئے انتہائی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
گرتی ہوئی معیشت اورغیر مستحکم سیاسی صورتحال‘ دونوں پر انرجی بحران بہت زیادہ اثرات مرتب کرتا ہے۔ بعض تخمینوں کے مطابق توانائی کی قلت نے گزشتہ چند سالوں میں ملک کو جی ڈی پی کے 4 فیصد تک نقصان پہنچا کر سینکڑوں کارخانوں کو بندش کی طرف دھکیل دیا ہے۔ صرف صنعتی شہر فیصل آباد میں پانچ سو سے زیادہ فیکٹریاں بند ہونے کی وجہ سے پیداواری عمل مفلوج اور بیروزگاری کا دائرہ پھیل گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ پچھلے دس سالوں سے ماہرین ہمیں خبردار کر رہے ہیں کہ توانائی کا بحران قومی سلامتی کیلئے مسئلہ بن رہا ہے لیکن ہم خواب غفلت سے نہیں جاگے۔ روزبروز بڑھتی ہوئی توانائی کی قلت پاکستان کیلئے سب سے بڑے چیلنج میں ڈھل رہی ہے۔ اس بحران کو حل کرنے کیلئے ڈی فیکٹو پالیسی، بجلی کی پیداوار میں توسیع اور دیگر سپلائی سائیڈ میں فوری اصلاحات کی ضرورت ہے؛ تاہم قوم کو اگر اس بحران پر قابو پانا ہے تو اسے پورے پیمانے پر ادارہ جاتی توانائی کے شعبے میں اصلاحات کا آغاز کرنا ہوگا جو سیاسی طور پر ناپسندیدہ لیکن توانائی بحران سے نجات کیلئے ضروری اور ناگزیر ہے۔

 یہ بھی پڑھیے:

کشمیریوں کا مستقبل۔۔۔اسلم اعوان

اپوزیشن جماعتوں کی آزمائش۔۔۔اسلم اعوان

پیراڈائم شفٹ میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔۔اسلم اعوان

افغانستان کا بحران عالمی ایشو نہیں رہا۔۔۔اسلم اعوان

عورتوں میں ہم جنس پرستی پر یہ مشہور کہانی لکھنے والی عصمت چغتائی۔۔۔اسلم ملک

اسلم اعوان کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author