نومبر 9, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پنجاب ضمنی انتخابی دنگل اور نتائج||حیدر جاوید سید

یہ بھی حقیقت ہے کہ اتوار کے ضمنی انتخابات میں گزشتہ ساڑھے تین پونے چار سال کے دوران ہونے والے ضمنی انتخابات کی طرح سے سرکاری ” معاملات ” نہیں ہوئے۔ پولنگ عملہ اغوا ہوا نہ بیلٹ باکس۔ دھند بھی نہیں تھی مطلع صاف تھا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار کو پنجاب اسمبلی کی 20نشستوں پر منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے 15، مسلم لیگ (ن) نے 4 نشستیں حاصل کیں جبکہ ایک نشست پر آزاد امیدوار نے کامیابی حاصل کی۔ ایک طرح سے تحریک انصاف نے اپنی 20نشستوں میں سے 15واپس حاصل کرلیں۔ 4(ن) لیگ لے گئی اور ایک آزاد امیدوار۔

ان 20نشستوں میں سے 9تحریک انصاف 2018ء کے انتخابات میں جیتی تھی۔ 11آزاد امیدوار ” محکمے‘‘ اور جہانگیر ترین کی ’’کوششوں‘‘ سے تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔ اس حساب سے 2018ء کے مقابلہ میں گزشتہ روز تحریک انصاف نے 6نشستیں زائد حاصل کیں۔ 4 (ن) لیگ کو مل گئیں اور ایک آزاد لے اڑا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ اتوار کے ضمنی انتخابات میں گزشتہ ساڑھے تین پونے چار سال کے دوران ہونے والے ضمنی انتخابات کی طرح سے سرکاری ” معاملات ” نہیں ہوئے۔ پولنگ عملہ اغوا ہوا نہ بیلٹ باکس۔ دھند بھی نہیں تھی مطلع صاف تھا۔

پچھلے ساڑھے تین برسوں میں 99فیصد ضمنی الیکشن جیتنے والی (ن) لیگ 16نشستوں پر کیوں ہار گئی۔ پہلی وجہ وہی ہے جس کی بنیاد پر ماضی کے ضمنی الیکشن وہ اپنی جھولی میں ڈالتی رہی۔ یعنی مہنگائی، اس بے رحم مہنگائی سے لوگ تنگ ہیں۔ دوسری وجہ (ن) لیگ کا زعم بنا۔ تیسری وجہ مقامی سطح پر پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کو ٹکٹیں دینے پر کارکنوں اور 2018ء کے امیدواروں کی ناراضگی ہے۔ چوتھی وجہ ضمنی الیکشن ماسوائے ملتان کے کہیں بھی اتحادیوں کا الیکشن نہیں تھا

20میں سے 19نشستوں پر یہ خالصتاً (ن) لیگ کا الیکشن تھا اسی کے کارکن تھے رہنما اور امیدوار اور ووٹرز۔ اس چوتھی وجہ کے آخری نکتے ووٹرز پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ کیسے سوالات یہی آپ پوچھیں گے یا جاننا چاہیں گے ہم اسے پی پی 217 ملتان کے انتخابی نتائج سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس حلقہ سے زین قریشی 47349ووٹ لے کر کامیاب ہوئے اور سلمان نعیم نے 40425 ووٹ لئے۔ اسی پی پی 217میں 2018ء کے انتخابات میں آزاد امیدوار سلمان نعیم نے 39257 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ تحریک انصاف کے مخدوم شاہ محمود قریشی نے 35284 ووٹ لئے تھے اور (ن) لیگ کے تیسرے نمبر پر آنے والے امیدوار نے 21618۔ اسی حلقہ میں اُس وقت پیپلزپارٹی نے 3963 ووٹ لئے تھے۔

اتوار کے ضمنی الیکشن میں زین قریشی نے 47349 ووٹ لئے یعنی انہوں نے اپنے والد کے مقابلہ میں 12055 ووٹ زائد لئے۔ سلمان نعیم نے ضمنی الیکشن میں اپنے سابقہ ووٹوں 39257 ووٹوں کی جگہ 40425 ووٹ لئے یعنی صرف 1163 ووٹ زائد لئے۔ ایک حساب تو پھر یہ ہوا کہ یہ 1168 ووٹ ملے جلے ہیں۔ (ن) لیگ کے 2018ء والے 21618 اور پیپلزپارٹی کے 3963 ووٹ کہاں گئے؟ (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کا ووٹر گھر سے نہیں نکلا چند ایک کے سوا یا کچھ اور ہوا اس کا حساب ہمیں نہیں ان جماعتوں کو اس لئے بھی کرنا سوچنا ہے کہ 20نشستوں میں یہ واحد نشست تھی جہاں ایک امیدوار اتحادی امیدوار کی صورت میں میدان میں تھا۔ تحریک انصاف کے اس حلقے میں 2018ء کے مقابلہ میں 12055 ووٹ زیادہ ہیں یہی حقیقت ہے۔

آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کے اتوار کو رات گئے ایک مولانا نے کہا (یہ تحریک انصاف کی حامی جماعت کے سربراہ ہیں) امریکہ اسرائیل بھارت طاغوت ماغوت کو شکست ہوئی۔ کیا مطلب 47 فیصد ووٹر محب وطن بقول مولوی کے اور 39 فیصد ووٹر امریکہ اسرائیل بھارت اور خودساختہ طاغوت ماغوت کے حامی ہیں۔

بظاہر یہ بیان ایک سستی جگت کے سوا کچھ نہیں۔ انتخابی عمل کبھی بھی معرکہ حق و باطل نہیں ہوا کل نہ پرسوں۔ اگر یہ معرکہ حق و باطل ہوتا تو عمران خان کے حوالے سے موجود (مذہبی طور پر)چند بیہودہ الزامات زیادہ فروخت ہوتے لیکن نہیں ہوئے۔

یہ دعویٰ کہ عمران خان کے بیانیہ کی جیت ہوئی اس پر سوال ہے کہ ان کا بیانیہ کیا ہے۔ تقریباً اسی سے ملتا جلتا جو ان کے حامی مولوی نے فتح کی وجہ کے طور پر پیش کیا۔

میرے خیال میں اس خودساختہ بیانیہ سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اس بات کو سمجھا جائے کہ صوبہ پنجاب میں 1970ء سے آج تک انتخابی سیاست کے میدان میں فروخت کیا ہوا۔

ایک جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس صوبے میں مولاجٹ جیسی بنڈل فلم پلاٹینم جوبلی اور پھر ڈائمنڈ جوبلی سے بھی آگے بڑھ جائے یہ عام آدمی کے اس فہم کی عکاسی ہے جو اسے مرغوب ہے۔

سادہ لفظوں میں ایک اتھرا تند خو، مخالفین کو اوئے توئے اور بگاڑے ہوئے ناموں سے بلانے والا، تمہیں لٹکادوں گا، تمہیں جیل میں ڈال دوں گا کے انداز تکلبم کا مالک اس صوبے میں ہیرو بن سکتا ہے یعنی کامیاب لیڈر۔

ٹھنڈے دل سے صوبہ پنجاب کی گزشتہ 52سالہ سیاسی و انتخابی تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجئے آپ بخوبی سمجھ جائیں گے کہ لوگوں کے "مجموعی مزاج اور شعور ” کو۔

مزید وضاحت کے ساتھ فقط ایک بات عرض کرسکتا ہوں وہ یہ کہ ابھی وہ نسل زندہ تابندہ ہے جس نے پچھلی صدی کی ساتویں اور آٹھویں دہائی کی سیاست اور فلمیں خصوصاً پنجابی فلمیں دیکھی ہیں۔ بس چند ساعتوں کے لئے اس وقت کی سیاست اور فلموں کی کامیابی کی بنیادی وجوہات پر غور کیجئے پوری بات سمجھ میں آجائے گی۔

یہ کہنا کہ مبینہ امریکی سازش کو لوگوں نے پورا سچ سمجھ لیا ہے بہلاوے کے سوا کچھ نہیں۔ ایک قدیم مثال ذہن میں آرہی ہے تحریر نہیں کرسکتا کیونکہ اخباری کالم اور روزمرہ کی گفتگو میں فرق تو ہوتا ہے۔

اتوار کے انتخابی نتائج کو اگر آپ ملتان کے حلقہ پی پی 217 کے انتائج کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں تو بلڈ پریشر ہائی کئے بغیر آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ 20حلقوں میں صرف ایک حلقہ مشترکہ امیدوار کا حلقہ بنا ضرور لیکن ٹکٹ دینے اور حمایت کرنے والی جماعتیں اپنے ووٹروں کو گھروں سے نہیں نکال سکیں۔

ووٹرز کیوں پولنگ سٹیشن تک نہیں آئے اس پر ان جماعتوں کو غور کرنا چاہیے۔

ان ضمنی انتخابات اور نتائج پر سوشل میڈیا کے بعض دانشور اور دانشوڑوں کا غول جو ادھم مچائے ہوئے ہے اس پر بحث وقت برباد کرنے والی بات ہے۔ تحریک انصاف اور اس کے اتحادی

(یاد رہے تحریک انصاف بھی تنہا میدان میں نہیں تھی پنجاب میں ق لیگ، مجلس وحدت مسلمین کے علاوہ کچھ چھوٹی مذہبی تنظیموں نے اس کی حمیات کی جیسا کہ سید حامد سعید کاظمی کی مذہبی تنظیم متحدہ نظام مصطفیؐ محاذ ۔ جماعت اہلسنت اور مرحوم و مغفور حضرت مولانا سردار احمد رضوی فیصل آبادی کے صاحبزادے حامد رضا نے کھل کر پی ٹی آئی کی تائید کی)

اپنے ووٹروں کو پولنگ سٹیشنوں تک لانے کی حکمت عملی میں کامیاب رہے۔

بدترین مہنگائی بنیادی مسئلہ تھا۔ 2018ء کی طرح کوئی محکمہ الیکشن مینجمنٹ نہیں کررہا تھا۔ آر ٹی ایس کا سسٹم منجمد نہیں ہوا۔ جعلی ووٹوں اور ہنگاموں کے اِکادُکا واقعات حلقوں کی بنیاد پر ہوئے۔ منظم جھرلو کا رقص اس طرح نہیں ہوا جیسا 2018ء میں ہوا تھا۔

پانچ سات فیصد یہ بات بھی حکومتی امیدوار کے خلاف گئی کہ باپ وزیراعظم ہے اور بیٹا وزیراعلیٰ۔ (ن) لیگ ضمنی الیکشن کو اتحادیوں کا الیکشن نہیں بنایا یا نہیں بنواپائی۔ حکومتی مداخلت بہر طور نہیں ہوئی۔

صاف سیدھی بات ہے جارحانہ انتخابی مہم کو پذیرائی ملی یہ کہنا کہ لوٹوں کو شکست ہوئی سفید جھوٹ ہے۔ تحریک انصاف نے کتنے ٹکٹ پرانے رفیقوں کو دیئے اور کتنے لوٹوں کو اس کا حساب کرلیجئے۔ کر اس لئے نہیں پائیں گے کہ سوچ یہ ہے کہ تحریک انصاف میں جانے والے صاف ستھرے اور دوسری جماعتوں میں جانے والے لوٹے ہوتے ہیں۔

ایک دلچسپ بات ہے بھکر سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر عمران خان کا کزن عرفان اللہ نیازی جیتا ہے ۔ موصوف چند دن قبل (ن) لیگ سے پی ٹی آئی میں گئے تھے مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر جیتنے والا مسلم لیگ (ن) بھکر کا ضلعی سیکرٹری تھا۔ پارٹی ریکارڈ میں اتوار کی شام تک اس کا استعفیٰ موجود نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author