حسنین جمال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن ہم ایڈیٹر صاحب کے یہاں بیٹھے تھے کہ ان کے ایک دوست تشریف لائے۔ وہ کچھ دیر بیٹھے ہوں گے کہ ایڈیٹر صاحب نے ان سے فرمائش کر دی، قبلہ فلاں موضوع پر کچھ لکھ دیا جائے۔ قبلہ نے بھی حامی بھر دی۔ کچھ دیر سوچتے رہے، پھر کاغذ قلم منگوایا اور تیز تیز لکھنا شروع کر دیا۔ جب لکھ چکے تو جو لکھا گیا تھا اس کا طے شدہ موضوع سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں تھا، پوچھا، استاذی اس میں کیا مصلحت ہے، جواب ملا کہ یہ ریاض ہے۔ زیادہ عرصہ ہاتھ نہ چلے تو قلم زنگ کھا جاتا ہے اور دماغ بھی، تو زنگ اتارنے کے لیے پہلے کچھ ایسا ہی لکھا جاتا ہے جو فی البدیہہ ہو، بعد میں جب طبیعت رواں محسوس ہو تو موضوع کی طرف آیا جاتا ہے۔
اگر کہا جائے کہ آپ دو سال پڑھ کر اتنا نہیں سیکھتے جتنا دو دن اہل علم کی صحبت میں رہ کر سیکھ جاتے ہیں، تو یہ غلط نہ ہو گا۔ فقیر اس معاملے میں خوش قسمت رہا۔ کیا کیا استاد میسر آئے۔ دم رخصت ایک تسلی ہی ساتھ ہو گی کہ جہاں جہاں سے چاہا وہاں وہاں سے کسب فیض ہوا۔ خدا شکر خورے کو شکر دیتا ہے اور فقیر کو ایسے استاد مل جاتے ہیں، یہ امی کہتی ہیں۔
بات یونہی چل پڑی، معاملہ وہی کہ طبیعت کا زنگ اتارنا مقصود تھا۔ اس سے پہلے بھی تین چار مضمون لکھ کر رد کیے کہ وہ بات نہیں بنی جو ہم سب کا معیار ہے، پھر یہ شروع کیا تو اوپر بتایا قصہ یاد آ گیا، سوچا اسی سے شروعات کی جائے تو شاید کچھ برکت ہو، یا مرشدو، آپ کا ہی آسرا!
انقلاب کے نعرے سن اٹھارہ سو ستاون سے پہلے ہمارے یہاں مقبول ہونا شروع ہوئے اور ہر گزرتے برس کے ساتھ اتنے انڈے بچے دیے کہ اب تک ہم انہیں کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔ ستاون کا غدر ہوا، انقلاب تھا، بہادر شاہ ظفر نہ چاہتے ہوئے گھسیٹے گئے، آرام سے از دلی تا پالم حکومت فرماتے تھے، کچھ نہ ہونے سے جتنا تھا وہ بہتر تھا۔ تو انقلاب آ گیا مگر انہیں کیا ملا، بیٹے آنکھوں کے سامنے قتل ہوئے، خود رنگون بھیجے گئے اور وہیں، اگر وہ تصویر اصل ہے جو ہم لوگ کئی بار دیکھ چکے ہیں، تو وہیں ایک چارپائی پر بے چارے خدا کو پیارے ہوئے۔ آخری کپا لڑھک گیا۔
کپا لڑھکنا کیا ہوتا تھا، آئیے دیکھیے۔
”شاہی وفات کے وقت قدیم زمانے میں دستور تھا کہ جب بادشاہ گزر جاتا تو لوگ صاف طور پر نہ کہتے تھے بلکہ یوں کہتے تھے کہ ’کپا لڑھک گیا‘ ۔ بادشاہ کی موت کا صاف صاف اظہار کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا کیونکہ ایک طرف مردہ بادشاہ کی تجہیز و تکفین کا انتظام ہوتا تھا اور دوسری طرف ولی عہد کے محل میں شادیانے بجتے تھے اور جشن منایا جاتا تھا“ ( ص 24 قلعہ معلیٰ کی جھلکیاں عرش تیموری)
”قدیم سے یہ بات مشہور ہے کہ جو کوئی بادشاہ مر جاتا تھا تو اس کے مرنے کی خبر مشہور نہیں کرتے تھے۔ یہ کہہ دیتے تھے کہ آج گھی کا کپا لنڈھ گیا۔“ (ص 100 بزم آخر منشی فیض الدین)
تو بہادر شاہ ظفر نے جلا وطن ہو کر وفات پائی۔ سید احمد خان نے اسباب بغاوت ہند لکھا، غالب بے چارے اپنی جگہ رل گئے، دلی کے بارے میں وہ نوحے کہے گئے کہ جن کی مثال آج تک نہیں ملتی، لیکن یاروں کو انقلاب مل گیا۔
پھر علامہ اقبال کی شاعری میں انقلاب ڈھونڈا گیا، انہیں پاکستان کا خواب بھی دیکھنے کو ملا، عالم رویا کے معاملات چوں کہ دیدہ و فہمیدہ نہیں ہو پاتے اس لیے ان پر بحث بھی ممکن نہیں لیکن وہ خواب انیس سو سینتالیس میں جا کر پورا ہوا۔ کچھ آنچ کی کسر رہ گئی خواب پورا کرنے میں، خوب قتل و غارت ہوا، آج تک لوگ ان بلووں اور خون کے دریاؤں کو نہیں بھول پائے مگر، انقلاب بہرحال آیا، کپا اس بار گوروں کی حکومت کا لڑھکایا گیا۔
سینتالیس سے پہلے بھی انقلاب کے خواب دیکھے گئے۔ تحریک خلافت میں نہ جانے کتنی عورتوں نے زیور تک اتار کر کے چندے میں دیے مگر یہاں انقلاب کی سمت کچھ ہوتی تو وہ آتا، سو وہ انقلاب ہی دھیمی آنچ کا نکلا، آپ ہی آپ ابل کر ختم ہو گیا۔
پاکستان بنا تو اچانک کمیونسٹ پارٹی کو احساس ہوا کہ تھا انتظار جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں۔ تب سے اب تک کیا کیا کوشش نہ کی گئی انقلاب لانے کی۔ اس بیچ دنیا کو دو قطبی نظام سے نجات مل گئی اور جیسے ہی سب ایک قطب کے زیر سایہ آئے، یہ والا انقلاب بھی دفن ہو گیا۔ بلکہ صحیح معنوں میں انقلاب کا ہی کپا لڑھک گیا۔ اب بس گنتی کے کامریڈ رہ گئے ہیں، وضع داریاں باقی ہیں ورنہ نام خدا خبروں اور فیس بک کے علاوہ کہیں سامنا نہیں ہوتا۔
پھر اس کے بعد تو انقلاب کی باقاعدہ لوٹ پڑ گئی۔ ایوب دور میں طرح طرح کے انقلاب آئے، بھٹو دور تو تھا ہی قائد انقلاب کا، تحریک استقلال بھی انقلاب کا نام لے کر آئی اور اسی فرسبی والی تیزی سے واپس گئی جیسے آئی تھی۔ پھر ان سب انقلابوں کا خمیازہ سن اکہتر میں بھگتا گیا۔
آس پاس کی تاریخ میں خمینی صاحب نے کھل کر قتل و غارت کیا، کپا لڑھکانے کی بجائے ایکسپورٹ کر دیا، ایک انقلاب وہ لے آئے۔ ضیا آئے، بھٹو صاحب کا کپا لڑھکا کر وہ اسلامی انقلاب لائے، بی بی سن پچاسی میں واپس آئیں، ایک اور انقلاب آ گیا۔ صدام حسین نے کویت پر حملہ کیا پھر کپے لڑھکے تو وہ قائد انقلاب ہو گئے۔ اتنی دیر میں الطاف بھائی بھی انقلاب کا نعرہ لگا چکے تھے۔ نواز شریف آئے بم دھماکے کر دیے، پھر انقلاب آ گیا۔ مشرف ان کی جگہ پر قابض ہوئے، ایک اور انقلاب کے ساتھ آئے، زرداری نے بی بی کی وفات پر پاکستان کھپے کہا، اسے بھی انقلابی کارروائی کہا گیا۔ نواز شریف بھاری مینڈیٹ سے آئے، پھر انقلاب کی کہانیاں گونجنے لگیں۔
دھرنا ہوا۔ انقلاب کے نام سے دھرنا ختم ہوا۔ انقلاب کے نام سے اب دوبارہ پانامہ لیکس کے بعد سے انقلابی آس لگا کر بیٹھے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں کسی بھی قسم کا انقلاب ہمیں کیا دے سکتا ہے؟
عرب سپرنگ کا حال دیکھ لیجیے باسی کڑھی کے ابال کی مانند سب کچھ بیٹھ گیا بلکہ اس چکر میں بنیاد پرستی مزید مضبوط ہو گئی۔ دو تین ممالک میں کپے لڑھکائے گئے لیکن بہتے تیل پر سے اب سب لوگ پھسلتے ہیں، سنبھلنے اور سنبھالنے والا نہیں ملتا۔
اگر انقلاب کا نعرہ لگانے والوں کے پاس کوئی ایسا کاغذ مل جائے جس پر آئندہ کا باقاعدہ لائحہ عمل موجود ہو اور آپ کے پلے پڑتا ہو اور اس میں خون خرابہ اور جنگ و جدال نہ ہو تو بے شک آپ بھی انقلاب کا نعرہ لگائیے ورنہ یہ چھوٹا موٹا انقلاب کیا برا ہے کہ مشرف کے بعد سے اب تک جمہوریت آٹھ نو سال نکال گئی اور کوئی تازہ کپا بھی نہیں لڑھکا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر