نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آئندہ حکومت پیپلزپارٹی کی ہوگی۔زرداری ||ملک سراج احمد

رہی بات حکومتی کارکردگی کی تو سابقہ حکومت کی معاشی نااہلی کے نام پر پٹرول ، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کیا جاچکا ہے اور اتنا کچھ ہونے کے باوجود مفتاح اسماعیل مزید سخت معاشی فیصلے کرنے کی بات کررہے ہیں خدا جانے مزید کیا کرنا باقی رہ گیا ہے

ملک سراج احمد

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی طرف سے پاکستان کو گرے لسٹ سے وائیٹ لسٹ میں شامل کرنے کا عندیہ کیا دیا کہ بزکشی کا کھیل شروع ہو گیا۔بکرئے کی طرح میدان میں گرئے لسٹ کی سرکٹی لاش کیا گری سب نے سرپٹ گھوڑے دوڑانے شروع کردئیے ۔ہرکوئی کریڈٹ لینے کے چکروں میں آگے نکلنے کی کوشش کرنے لگا۔حسب دستور تحریک انصاف اپنی پاور فل سوشل میڈٰیا ٹیم کی بدولت چھا گئی کہ یہ سب کچھ اس کے دورکے حکومتی اقدامات کی وجہ سے ہوا ہے ۔حالانکہ خارجہ امور کی وزیرمملکت حنا ربانی کھرنے ٹوئیٹ بھی کیا کہ فیٹیف کے ایشو پر قیاس آرائیاں کرنے میں جلد بازی مت کریں مگر کون سنتا ہے لہذا جب کریڈٹ لے چکے تو فیٹیف کے اعلانیہ کے مطابق اکتوبر میں اس کا فیصلہ ہوگا جبکہ پاکستان نے فیٹیف کے تمام اعتراضات کافی حد تک دور کردئیے ہیں اوراچھی کوشش کی ہے ۔اس کے بعد کریڈٹ لینے والوں کے چراغوں میں روشنی نا رہی ۔اور یوں جھاگ کی طرح بیٹھے کہ الامان الحفیظ۔
کچھ ایسے ہی جھاگ کپتان کے انقلابی پروگرام کی بیٹھی ہے ۔کپتان 25 مئی کے مارچ کی ناکامی کے بعد لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکالنے کے اعلان کے باوجود اعلان نہیں کرپارہا۔اپنے دور اقتدار کے زریں ساڑھے تین سال میں آئی ایم ایف کے سامنے کاسہ بدست کپتان بہرحال اپوزیشن میں قومی غیرت اور عزت کا بیانیہ کھڑا کرنے کی کوشش کرتا رہا مگر بات بنی نہیں ۔جیسے جیسے وقت گذرتا جارہا ہے لانگ مارچ ، انقلاب سکڑتا سکڑتا ٹک ٹاکرز انقلاب تک پہنچ گیا ہے ۔اب عوام کے اندر سیاسی شعور کی بیداری کی مہم ان ٹک ٹاکرز کے کندھوں پرآ پڑی ہے ۔سمجھ نہیں آ رہی کہ اتنے نرم ونازک کندھے یہ بوجھ اٹھا بھی سکتے ہیں یا نہیں تاہم ان ویڈٰیوز پر لائک کا طوفان آنے والا ہے ۔عوام کا سیلاب نا سہی لائکس کا سیلاب شائد موجودہ حکومت کو بہا کر لے جائے۔
کپتان ابھی لانگ ماچ ایک دریا کے پار اترا ہی تھا کہ اس کو ضمنی انتخاب کے ایک اور دریا کا سامنا ہے ۔17 جولائی کو پنجاب کی 20 صوبائی نشستوں پر ضمنی الیکشن ہونے جارہے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ اپنے دور اقتدار میں سوائے ایک نشست کے ہر ضمنی الیکشن ہارنے والی تحریک انصاف اس بار اپنی جماعت کی جیتی ہوئی نشستیں دوبارہ جیت سکے گی یا نہیں ۔اس کا جواب قبل از وقت ہے اور یہ جواب 17 جولائی کو ملے گا۔اگر کپتان اپنی 20 نشستیں یا اس کی نصف نشستیں بھی دوبارہ نہیں جیت سکا تو کپتان کو آئندہ عام انتخابات کےمایوس کن نتائج کے حوالے سے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔
رہی بات حکومتی کارکردگی کی تو سابقہ حکومت کی معاشی نااہلی کے نام پر پٹرول ، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کیا جاچکا ہے اور اتنا کچھ ہونے کے باوجود مفتاح اسماعیل مزید سخت معاشی فیصلے کرنے کی بات کررہے ہیں خدا جانے مزید کیا کرنا باقی رہ گیا ہے ۔المیہ تو یہ ہے کہ سب کچھ بھی مزید قرضہ حاصل کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔مطلب طے ہوگیا کہ قرضوں سے جان نہیں چھوٹنے والی اور غریب اور عام آدمی کی حالت اسی طرح ابتر رہے گی جیسے کہ پہلے تھی اور جیسی کہ اب ہے۔لہذا کھیل صرف یہ ہوگا کہ ہماری مہنگائی اچھی ہے ماضی کی مہنگائی بری تھی اپنی اپنی پسند کی مہنگائی کا چکرہے۔
مفاہمت کے بادشاہ زرادری نے لاہور میں پارٹی ورکرز سے مسلسل ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے اور کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب لاہور میں بیٹھ رہا ہوں اور پنجاب کے معاملات کو دیکھوں گا۔یہ پارٹی کے حوالے سے ایک خوش آئند بات ہے کہ پیپلزپارٹی جو پنجاب میں بالکل ختم ہوکررہ گئی تھی شائد دوبارہ زندہ ہوجائے ۔وگرنہ اب تک کی جو کچھ ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔پنجاب میں پارٹی کی قیادت نے صرف اپنی نشستوں پر توجہ مرکوز رکھی جبکہ باقی ماندہ پنجاب میں پارٹی کا ستیاناس کرکے رکھ دیا۔اگر آصف علی زرداری لاہور میں بیٹھ کر پنجاب کے معاملات کو چلاتے ہیں تو نتائج کافی بہتر ہوسکتے ہیں اور ورکرز میں بھی جان پڑجائے گی۔
زرداری کایہ دعویٰ کہ آئندہ حکومت پیپلزپارٹی کی ہوگی تو جو لوگ زرداری کو جانتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ محض بیان نہیں ہے اگر آصف علی زرداری یہ کہہ رہےہیں تو اس بیان کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔سابق صدرجب کوئی بات کہہ رہے ہوتے ہیں تو وہ اس حوالے سے بہت پہلے تیاری کرچکے ہوتے ہیں ۔دیکھنا یہ ہوگا کہ مخلوط حکومت کے اندر رہتے ہوئے وہ کیسے اپنی پارٹی کو پنجاب میں دوبارہ زندہ کرتے ہیں ۔اور ان کی حلیف جماعت ن لیگ کا ردعمل کیا ہوگا۔سوال یہ بھی ہے کہ پیپلزپارٹٰی کی سیاسی سرگرمیاں ن لیگ کو آئندہ عام انتخابات میں کتنا سیاسی نقصان پہنچا سکتی ہیں اور ن لیگ اس نقصان سے بچنے کے لیئے کیا طریقہ کار اپناتی ہے۔
تاہم آصف علی زرداری کے حالیہ بیان سے یہ واضح ہوگیا کہ آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے مابین کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا ہرجماعت اپنا الیکشن لڑے گی اور یہ بات تحریک انصاف کے لیئے فائدہ مند ہوسکتی ہے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات پیپلزپارٹی کے لیئے بطور جماعت بھی فائدہ مند ہوگی کہ پنجاب کے ہرحلقہ میں ان کے ورکرز ایکٹو ہوجائیں گے اور پارٹی تنظٰم فعال ہوجائے گی۔پنجاب میں پیپلزپارٹی کا مفاہمت کا کوئی فارمولہ تباہ کن ہوگا اور اگر ایسا کسی مرحلے پر ہوتا ہے تو شائد یہ پیپلزپارٹی کا پنجاب میں آخری الیکشن ہوگا اس کے بعد پارٹٰی کا پنجاب سے ایسے صفایا ہوجائے گا جیسے ن لیگ کا سندھ سے ہوچکا ہے۔جہاں سوائے چند ایک حلقوں کے کہیں بھی اس کے امیدوار نہیں ہوتے ۔
حرف آخر کہ انتخابات وقت پر ہوں گے یا قبل از وقت ہوں گے تو اس پرکچھ کہنا قبل از وقت ہے اس کے لیے نومبر کی ایک اہم تقرری تک انتظار کرنا ہوگا جیسے ہی وہ تقرری ہوگئی تو ناصرف انتخابات بلکہ آئندہ کے سیاسی سیٹ اپ سے متعلق بھی چیزیں بہت واضح ہوجائیں گی۔سب کچھ سامنے آجائے گا مگر نومبر کے بعد۔۔۔۔

۔

————————-
مصنف سے رابطے کیلئے
رابطہ نمبر 03334429707
وٹس ایپ 03352644777

یہ بھی پڑھیے:

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

ملک سراج احمد کے مزید کالم پڑھیے

About The Author