اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

محترمہ بینظیر بھٹو کی سالگرہ||ظہور دھریجہ

محترمہ کو پاکستان اور عالم اسلام کی دو دفعہ خاتون وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل ہے، محترمہ بے نظیر بھٹو 18 اکتوبر2007ء کو وطن واپس آئیں تو ان پر کراچی میں حملہ کیا گیا۔

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج محترمہ بینظیر بھٹو کی 69 ویں سالگرہ پورے ملک کی طرح وسیب میں بھی جوش و خروش کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔محترمہ بینظیر بھٹو کی شخصیت اور خدمات پر بات کرنے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ صوبے کے دیگر اضلاع کی طرح ملتان میں 17 جولائی کو ضمنی الیکشن ہو رہا ہے، الیکشن میں حصہ لینے والے امیداروں کی تعداد 15 ہے مگر اصل مقابلہ مسلم لیگ (ن) کے سلمان نعیم اور تحریک انصاف کے مخدوم شاہ محمود قریشی کے بیٹے مخدوم زین قریشی کے درمیان ہے۔ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے سلمان نعیم کی حمایت کا اعلان کیا ہے، اس بناء پر کہا جا رہا ہے کہ اب مقابلہ سلمان نعیم اور زین قریشی نہیں بلکہ مخدوم شاہ محمود قریشی اور سید یوسف رضا گیلانی کے درمیان ہے۔ اس مقابلے کو عمران خان اور نواز شریف کا مقابلہ بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ یوسف رضا گیلانی تقریباً ساڑھے تین سال برسراقتدار رہے اور اتنا ہی عرصہ مخدوم شاہ محمود قریشی برسراقتدار رہے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ ملتان کو گیلانی نے کیا دیا اور قریشی نے کیا ؟،ووٹر ہر چیز کا حساب رکھتا ہے۔ اس مقابلے کو وسیب کی شناخت کے حوالے سے بھی دیکھا جائے گا کہ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کی جماعت وسیب کی شناخت بارے کیا نظریہ رکھتی تھی اور عمران خان نے وسیب کی شناخت اور 100 دن میں صوبہ بنانے کے حوالے سے اپنے وعدے پر کتنا عمل کیا؟ اب ہم آتے ہیں محترمہ بینظیر بھٹو کی سالگرہ کی طرف ۔ محترمہ بینظیر بھٹو اپنے بہن بھائیوں سے بڑی تھیں، 21 جون 1953ء کو ذوالفقار علی بھٹو کے گھر پیدا ہوئیں ، والد نے نام بینظیر رکھا اور ان کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دی۔ تعلیم کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی سیاسی بصیرت سے ثابت کیا کہ وہ واقعی بینظیر تھیں۔ 4 اپریل 1979ء کواپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے 29 برس کی عمر میں پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ 16 نومبر 1988ء کو ملک میں عام انتخابات ہوئے تو قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں پیپلز پارٹی نے حاصل کیں اور بے نظیر بھٹو نے 2 دسمبر 1988ء میں 35 سال کی عمر میں پاکستان اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت کا تختہ جلد الٹ دیا گیا۔ محترمہ کو پاکستان اور عالم اسلام کی دو دفعہ خاتون وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل ہے، محترمہ بے نظیر بھٹو 18 اکتوبر2007ء کو وطن واپس آئیں تو ان پر کراچی میں حملہ کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو ذوالفقار علی بھٹو کی صرف بیٹی نہیں بلکہ بہترین سیاسی شاگرد بھی تھیں، انہوں نے اپنے والد سے جو کچھ سیکھا تھا، عملی سیاست میں اس پر مکمل عمل بھی کیا، پیپلز پارٹی رہنما ہی نہیں مخالف سیاسی جماعتوں کے لیڈر بھی محترمہ بینظیر بھٹو کی سیاسی بصیرت کے معترف ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شاعرہ تھیں اور اگر شاعرہ تھیں تو کتنی بڑی شاعرہ تھیں؟ انگریزی ادب میں ان کی ایک طویل نظم نے پوری دنیا میں شہرت پائی۔ یہ نظم محترمہ نے جلا وطنی کے دوران لکھی، محترمہ نے اس نظم کے ذریعے اپنی ماں دھرتی سے اظہار محبت کرتے ہوئے لکھا کہ میرے لاڑکانہ میں گلابوں کی خوشبو رچی ہے، لاڑکانہ میں بارش کے بعد مٹی کی خوشبو مجھے وہاں کھینچ رہی ہے، میرے ابو کا نام زندہ رہے گا کہ وہ مرد قلندر اور عوام دوست تھا، اسی جرم میں مصلوب ہوا۔ محترمہ بے نظیر بھٹوکی طویل نظم میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ میں گو کہ عرب دیس میں رہ رہی ہوں، محل بھی ہیں مگر میرا دل بے تاب ہے کہ میں اپنے وطن کے مظلوموں کی جھونپڑیوں میں جائوں۔ ایک خاص بات جو میں یہاں بتانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ محترمہ کی طویل نظم میں سے چار لائنوں کا مفہوم یہ ہے کہ اس جیون کا کوئی فائدہ نہیں جو ملتان، کیچ مکران، ملک ملیر مہران اور شہر مردان سے دور ہو، محترمہ کے خون میں سرائیکی وسیب کی محبت شامل تھی۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پی پی کی موجودہ قیادت نے سرائیکی قوم اور وسیب کے لوگوں کو صوبہ ، شناخت اور سرائیکی بینک بنانے کے خوش کن خواب دکھائے اور دن رات سرائیکی صوبہ ، سرائیکی صوبہ کا ماحول اس طرح بنایا کہ لوگوںکی خوش فہمی آسمان پر پہنچ گئی ، مگر اٹھارہویں ترمیم کے موقع پر بات نہ سنی گئی اور صوبے کا راستہ روکنے کیلئے ضیا الحق کی ترمیم کو برقرار رکھا گیا۔ صوبہ تو کیا سرائیکی بینک بھی نہ بنایا اور سرائیکی قوم کو شناخت دینے کی بجائے صوبے کا نام ’’جنوبی پنجاب ‘‘ تجویز کیا اور بہت سے علاقے صوبہ بننے سے پہلے کاٹ دئیے تو اس پر وسیب کے کروڑوں لوگوں کے خواب چکنا چور ہوئے اور حوصلہ اور پرسہ دینے کی بجائے سرائیکی قوم کو مایوسی کے اندھے کنویں میں دھکا دیدیا۔ یہ اتنا بڑا صدمہ ہے جس سے سرائیکی قوم آج تک واپس نہیں آ سکی، آج اگر بی بی زندہ ہوتی تو پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت سے پوچھتی کہ کیا ایسے سیاست اور قوم کی رہنمائی کی جاتی ہے ؟ محترمہ بینظیر بھٹو سیاست کی آبرو اور پاکستان کے غریب عوام کی آس امید اور تمنا تھیں ، ان کا قتل کروڑوں جمہوریت پسند غریب انسانوں کی آرزئوں کا قتل تھا۔ 27 دسمبر لیاقت باغ راولپنڈی میں اپنی شہادت سے کچھ دیر پہلے محترمہ بینظیر نے کہا تھا کہ پنڈی نے مجھے بہت دکھ دیئے ہیں اور کچھ خوشیاں بھی ، انہوں نے کہا کہ پی پی کی تاریخ جدوجہد سے بھری پڑی ہے ، میرے والد جابر قوتوں کے سامنے سرنگوں نہ ہوئے اور تختہ دار پر چڑھا دیئے گئے ، میرے دو بھائی قتل ہوئے، میری ماں کا لاٹھیوں سے سر پھاڑ دیا گیا، مجھے قدم قدم پر اذیتیں دی گئیں اور ٹارچر کیا گیا ، میں جیلوں کے اندر رہ کر بھی جمہوریت کیلئے لڑتی رہی۔ آمروں نے ہمیشہ جمہوریت کا راستہ روکا،میرے کراچی کے جلسے میں دھماکے کرائے گئے ، ہم نے اپنے سینکڑوں کارکنوں کے لاشے اٹھائے،سیاسی یتیم کہتے تھے کہ بے نظیر بھٹو اب کبھی واپس نہیں آئیں گی لیکن میں تمام خطرات کو ایک طرف رکھ کے واپس آئی ہوں کہ میں موت سے نہیں ڈرتی اور اپنے وطن کے لوگوں کیساتھ جینا مرنا چاہتی ہوں ۔محترمہ کو پاکستان کے دوسرے خطوں کی طرح وسیب سے بہت محبت تھی ، انہوں نے شہادت سے قبل وسیب میں بہت جلسے کئے اور ہر جگہ لفظ سرائیکی وسیب پکارا مگر آج پیپلز پارٹی ان کے نظریات سے الگ نظر آتی ہے ، وسیب سے محبت کی صرف باتیں عملی طور پر پیپلز پارٹی صرف سندھ کی جماعت بن کر رہ گئی ہے۔

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: