ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوہدری پرویز الٰہی کے چہیتے
وائس چانسلر خواجہ فرید یونیورسٹی رحیم یار خان
سلیمان طاہر کی وسیب دشمنی
سرائیکی ڈیپارٹمنٹ قائم کرنے کا اعلان کرنے کے باوجود ڈیپارٹمنٹ قائم نہ کیا،خواجہ فریدؒ یونیورسٹی میں خواجہ فریدؒ کی زبان نہیں پڑھائی جا سکتی تو یونیورسٹی کا کیا فائدہ؟
سرائیکی زبان اور سرائیکی وسیب سے تعصب وائس چانسلر کا معمول بن چکا ہے ،وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ فوری نوٹس لے کر ان کو عہدے سے ہٹاکر تحقیقات کرائیں۔
یہ باتیں چیئرمین سرائیکستان قومی کونسل ظہور احمد دھریجہ نے اپنے بیان میں کہیں۔ انہوں نے کہا کہ وائس چانسلر خواجہ فرید یونیورسٹی سلیمان طاہر نے سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کے اجراء کا وعدہ کیا اور یونیورسٹی کی تقریب میں کھلے عام اعلان کیا کہ آئندہ سال سے سرائیکی کلاسیں شروع کریں گے مگر آج تک کلاسیں شروع نہیں ہو سکیں۔ قول و فعل میں تضاد ہے، جھوٹ بولنا اس کا وطیرہ بن چکا، سرائیکی زبان اور سرائیکی وسیب سے تعصب رکھتا ہے ۔ اس میں ٹیچر اور ایک تعلیمی ادارے کے سربراہ کی کوئی خوبی نہیں ہے۔ سرائیکی وسیب کے لوگ کب تک تعصب کا شکار ہوتے رہیں؟۔ کب تک سرائیکیوں کے اپنے وطن میں ان سے دوسرے درجے کا سلوک ہوتا رہے گا۔ ہم نے ایم پی اے میاں شفیع کی معرفت سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کے اجراء کی یاد دہانی کرائی تو موصوف نے بات کو ایک بار پھر ٹال دیا۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ اس کا فوری نوٹس لیں اور ان کو عہدے سے ہٹا کرتمام معاملات کی تحقیقات کی جائیں ۔
خواجہ فرید یونیورسٹی کی آمدہ اطلاعات کے مطابق وی سی سلمان طاہر وسیب کے لوگوں کو نظر انداز کرکے فیصل آباد اور گجرات کے لوگوں کو ناجائز طور پر بھرتی کر رہے ہیں ، فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی صائمہ زاہد اور مخدوم عباداللہ کے بھائی مخدوم جواداللہ کو کیمیکل انجینئرنگ میں بھرتی کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ اسی طرح مینجمنٹ سائنسز ڈیپارٹمنٹ میں اسلامیہ یونیورسٹی کے سابق ڈائریکٹر شاکر غزالی کے بیٹے کامران شاکر اور مخدوم عباد کے دوست کی بہن عارفہ ارشاد کو بھی سلیکٹ کیا گیا جو یونیورسٹی کی مطلوبہ کم ازکم تعلیمی قابلیت پر پورا نہیں اترتے تھے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عارفہ ارشاد کو چند روز قبل خلاف میرٹ ٹی اے تعینات کیا گیا ہے۔مینجمنٹ سائنسز ڈیپارٹمنٹ میں بھی ایک زمیندار اور کاروباری شخصیت یاسین بھٹی کی بیٹی اقرا یاسین کو سلیکٹ کیا گیا جن کی ملازمت میرٹ کی سراسر خلاف ورزی تھی ۔ ذرائع کا مزید بتانا تھا یونیورسٹی میں کام کرنے والے کچھ ملازمین انہیں انٹرویو سے پہلے ہی بتا چکے تھے کہ کامران شاکر، عارفہ ارشاد اور عائشہ عزیز کو ہر صورت میں بھرتی کیا جائے گا کیونکہ یہ تمام لوگ سفارشی ہیں۔
خواجہ فرید یونیورسٹی کی آمدہ اطلاعات کے مطابقپروفیسر مکینیکل انجینئرنگ کے سلیکشن بورڈ کے کے بارے میں بتایا کہ وی سی سلمان طاہر نے این ایف سی انسٹیٹیوٹ کے اپنے سابقہ دوست ڈاکٹر سید محمد امجد کو بھی زبردستی پروفیسر تعینات کرانے کی کوشش کی حالانکہ تمام ممبران سلیکشن بورڈ اور سکروٹنی کمیٹی نے ڈاکٹر سید محمد امجدکی تقرری کی مخالفت کی کیونکہ نہ ان کی ڈگری مکینیکل انجینئرنگ میں تھی اور نہ ان کے ریسرچ پیپر پورے تھے – کچھ ملازمین نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ بھی بتایا ہے کہ اگلے کچھ دنوں میں مزید سلیکشن بورڈ کرکے گجرات اور فیصل آباد کے مزید لوگوں کو امپورٹ کرانے کی تیاری ہے یونیورسٹی میں ممکنہ طور پر گجرات اور فیصل آباد سے امپورٹ ہونے والے امیدوار ان کے نام درج ذیل ہیں ہیں خزانچی کی پوزیشن کے لئے محمد سلطان بٹ، پروفیسر مکینیکل انجینئرنگ کے لئے ڈاکٹر سعید بادشاہ، پروفیسر کیمیکل انجینئرنگ کے لئے ڈاکٹر سعید گل، اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی پوزیشن کے لئے یونیورسٹی آف گجرات کے پی ایس ٹووی سی کے بھائی محمد وقار عظیم اور کچھ اور پوزیشنز کے لئے ابوبکر جاوید باسط علی وسیم عباس عرفان نزیر لیاقت علی غلام فرید محمد کامران کے نام سرفہرست ہیں اسی طرح سے یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ یونیورسٹی میں دو مہینے پہلے فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے محمد اویس کو ڈپٹی ٹریرر تعینات کر دیا گیا ہے اور مزید یہ بھی علم میں آیا ہے کہ محمد افضل جو یونیورسٹی آف گجرات میں کام کرتے تھے ان کو ڈپٹی ڈائریکٹر کی حیثیت سے عہدے پر تعینات کر دیا گیا ہے-
خواجہ فرید یونیورسٹی کی آمدہ اطلاعات کے مطابق ماضی میںڈاکٹر سلمان طاہر نے اپنے بھتیجے یاسرعلی اور اپنے بھانجے طارق علی کو بھی خلاف میرٹ گریڈ 18 میں تعینات کیا سلیمان طاہر کرپشن کے بے تاج بادشاہ ہیں کچھ دن قبل ان کی بیگم صائمہ سلیمان اور ان کے خلاف 40 کروڑ کی آمدن سے زائد اثاثے کی انکوائری نیب میں زیر غور ہے- پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے ایک عہدیدار کا بتانا ہے کہ حالیہ پروجیکٹ میں ایسی بھی ادائیگیاں کی گئیں جو یونیورسٹی کے سکوپ آف ورک میں موجود نہ تھی اور نہ ہی پروجیکٹ میں ان کا کوئی ذکر تھا- رجسٹرار آفس کی ایک سابق خاتون اہلکار، جنکا شمار یونیورسٹی کے انتہائی قابل اور محنتی سٹاف میں ہوتا ہے، کا بتانا ہے کہ رجسٹرار آفس کے کے شعبہ ایچ آر 1 کے پرانے تمام سٹاف کو تبدیل کر دیا گیا ہے ان کی جگہ یو نیورسٹی آف گجرات سے امپورٹ شدہ ڈاکٹر عظمت اور وی سی کے بھانجے یاسر علی کو تعینات کیا گیا ہے جو یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر محمد صغیر کے ساتھ مل کر ایک سے 16 تک کی تمام بھرتیاں خلاف قانون، اپنی ذاتی پسند اور رشوت لے کر کر رہے ہیں۔
خواجہ فرید یونیورسٹی کی آمدہ اطلاعات کے مطابق کسی بھی ادارے میں ملازمت کا حق وہاںبسنے والے مقامی افراد کا ہوتا ہے، عجب بات ہے کہ سرائیکی وسیب میں مسلسل یہ ہو رہا ہے کہ مقامی افراد کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور باہر سے اآنے والے لوگوں کو ملازمتیں دی جاتی ہیں، گجرات کے چوہدری پرویز الٰہی کے چہیتے وائس چانسلر یہی کچھ کرتے آ رہے ہیں، اس پر مسلسل احتجاج بھی ہوتا آ رہا ہے، مگر کوئی سننے کو تیار نہیں۔ وائس چانسلر کے غلط فیصلوں سے وسیب میں تفریق پیدا ہو رہی ہے۔ امتیازی سلوک کے نتیجے میں مقامی افراد کا غصہ نفرت میں تبدیل ہوتا نظر آتا ہے۔ اسی بنا پر اہلیان وسیب، اہلیان رحیم یار خان اور یونیورسٹی کے یونیورسٹی کے تمام پرانے ملازمین کا مطالبہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف وزیر اعلی حمزہ شہباز اور آنے والے گورنر اس بات کی تحقیق کریں اور وی سی سلیمان طاہر، ڈاکٹر صغیر، عارف علی کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی شروع کریں۔
نوٹ: اپنے سابقہ کھلے خط کی تحریر بھی شامل کر رہا ہوںجس کے پڑھنے کے بعد وائس چانسلر مذکور نے سرائیکی ڈیپارٹمنٹ قائم کرنے کا وعدہ کیا اور مجھے یونیورسٹی میں بلا کر ایک تقریب کے دوران وائس چانسلر نے سرائیکی ڈیپارٹمنٹ قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ خط کی تحریر یہ ہے ۔
کُھلا خط
محترم جناب پروفیسر ڈاکٹر سلیمان طاہر صاحب
وائس چانسلر خواجہ فرید آئی ٹی یونیورسٹی رحیم یارخان
السلام علیکم و رحمتہ اللہ !
کچھ عرصہ قبل یونیورسٹی میں حاضر ہوا تھا ، آپ سے ملاقات نہ ہو سکی ۔ البتہ ایڈمن اور اکیڈمک سٹاف سے ملاقاتیں ہوئیں ۔ سرائیکی شعبے کے قیام کے سلسلے میں درخواست جمع کرائی ، چند دن قبل آپ کا بیان اخبارات میں دیکھنے کو ملا جس میں آپ نے کہا کہ خواجہ فرید یونیورسٹی میں ایم اے اور پی ایچ ڈی سرائیکی شروع کرائی جا سکتی ہے ۔ آج کے اخبارات میں سابقہ بیان سے ہٹ کر یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ خواجہ فرید آئی ٹی یونیورسٹی میں نیشنل سنٹر آف صوفی ازم بنایا جائے گا جہاں خواجہ فرید اور مخدوم حمید الدین حاکم کی تعلیمات کے فروغ کیلئے کام ہوگا ۔ اچھی بات ہے کہ خواجہ فرید ، مخدوم حمید الدین حاکم ، مولوی لطف علی ، پتن منارا ، جیٹھہ بھٹہ اور ڈسٹرکٹ رحیم یارخان کی بزرگ شخصیات ، مقامات و آثار پر تحقیق ہو ، مگر یونیورسٹی کو سرائیکی تعلیم کے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے ۔ اب جب کہ آرٹس کے دیگر مضامین شروع ہو چکے ہیں تو اولیت خطے کی زبان اور اس زبان کو حاصل ہونی چاہئے جس کے نام پر یونیورسٹی قائم ہے ۔ میری درخواست آپ کے ریکارڈ میں موجود ہے ۔ آپ مہربانی کریں ، اسے شرف قبولیت عطا کرتے ہوئے بلا تاخیر سرائیکی شعبے کے قیام کا اعلان کریں ۔ اس سے یونیورسٹی کی نیک نامی اور آمدنی میں اضافہ ہوگا۔
ڈاکٹر سلیمان طاہر صاحب!
ہماری نہ کسی سے رشتہ داری ہے اور نہ ذاتی مخالفت ۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں سرائیکی شعبہ 30 سال کامیابی سے چل رہا ہے ۔ وہاں شعبے کو سہولتیں بھی مہیا کی جا رہی ہیں ، اب ہماری درخواست پر اسلامیہ یونیورسٹی نے رحیم یارخان کیمپس میں بھی سرائیکی شعبہ قائم کرنے کا اعلان کر دیا ہے ۔یہ فطری امر ہے کہ وسیب کی بہتری اور وسیب کی زبان کے فروغ کیلئے جو بھی قدم اٹھائے گا ، اس کی تعریف ہوگی اور جہاں سرائیکی زبان کی تعلیم میں روڑے اٹکائے جائیں گے تو لوگ اس پر ناگواری ظاہر کریں گے اور روڑے اٹکانے والوں پر ناپسندیدگی کا اظہار ہوگا ۔ آپ کے مخالف کبھی نہیں چاہیں گے کہ آپ کے ہاتھوں کوئی اچھا اور یادگار کام ہو اور یونیورسٹی کے ساتھ آپ کی نیک نامی میں اضافہ ہو۔ میں ایمانداری سے کہوں گا کہ آپ کے نادان دوست جو کہ آپ کو سرائیکی شعبہ نہ کھولنے کا مشورہ دے رہے ہیں ، در اصل وہ آپ کا تعارف اس حوالے سے کرا رہے ہیں کہ آپ وسیب کی زبان ، ثقافت اور وسیب کے لوگوں کو ناپسند کرتے ہیں
میں کہتا ہوں کہ آپ کسی کی نہ مانیے ، میرٹ پر فیصلہ کیجئے اور سوچیئے کہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں اگر پنجابی شعبہ نہ ہو تو کتنی غلط بات ہوگی، اسی طرح سندھ کی یونیورسٹیوں کو دیکھیں جو کہ رحیم یار خان کا ملحقہ علاقہ ہے ، وہاں کے سندھی شعبے سندھی کے فروغ کیلئے کتنا کام کر رہے ہیں ۔ اگر خواجہ فرید یونیورسٹی میں سرائیکی شعبہ نہیں ہوگا تو پھر میں جو گزارشات پیش کر رہا ہوں ، یقینا ان میں تلخی آئے گی اور جھگڑے کا ماحول بنے گا جو کہ کسی بھی مادر علمی اور کسی بھی وسیب کیلئے سود مند نہ ہے ۔ لہٰذا وسیب کی گزارشات کو ہر گز مسترد نہ کیجئے ۔ اس کے ساتھ میں یہ بھی کہوں گا کہ وسیب کے جن ملازمین کو تعصب کی بناء پر ملازمتوں سے برطرف کیا گیا ہے ان کو بحال کریں کہ آپ ایک ریسرچ اسکالر ہیں ، یہ بات آپ کے علم میں ہوگی کہ کسی بھی شخص کا معاشی قتل جسمانی قتل سے بھی زیادہ مضر سمجھا جاتا ہے ۔
ڈاکٹر صاحب!
آج 21ویں صدی ہے ، ہر بات کی حقیقت کو ہر شخص سمجھتا ہے ، صوفی سنٹر کے قیام کا اعلان در اصل سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کی ڈیمانڈ سے پہلو تہی کا ایک طریقہ ہے ۔ اور اس سے قبل آپ کا یہ بیان کہ اگر سرائیکی شعبے میں طلباء داخلہ لینا چاہیں تو ہم شعبہ قائم کر کے ایم اے اور پی ایچ ڈی سرائیکی کرا سکتے ہیں ۔ شاید آپ کو ادراک نہ ہو ، آپ کی ’’ اگر ‘‘ سے وسیب کے کتنے لوگوں کی دل آزاری ہوئی ہے، کیا یونیورسٹی میں پہلے سے کھولے گئے شعبے طلباء سے داخلے کی شرائط منوانے کے بعد کھولے گئے تھے ؟ اگر آپ کو گارنٹی چاہئے تو آپ جتنا چاہیں مجھ سے بانڈ لکھ دینے کو تیار ہوں کہ داخلے ہونگے لیکن میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ہمیں یہ بھی علم ہے کہ یونیورسٹی کے کچھ شعبے ایسے ہیں جہاں طلباء نہیں ہیں ، جبکہ یونیورسٹی سے اساتذہ و دیگر سٹاف کو تنخواہیں چلت کی جا رہی ہیں ۔ کوٹ مٹھن لائبریری کی بہتری کیجئے مگر سرائیکی شعبے کے منصوبے کو زیر التوا رکھنے کی شرط پر نہیں ۔ سرائیکی شعبے کو الٹا لٹکانے کیلئے ہر طرح کی تحریف ، لالچ اور رشوت کی مخالفت کی جائے گی ۔ خواجہ فرید سرائیکی کا قومی شاعر ہے اور پوری سرائیکی قوم اس کی وارث ہے ۔
جناب ڈاکٹر صاحب!
سرائیکی وسیب اور سرائیکی زبان و ادب کا مسئلہ بہت حساس ہے ، یہ سرائیکی خطہ ہے ، وسیب کے لوگ ہزار ہا سالوں سے اس خطے میں رہ رہے ہیں ، ان کا اپنا وطن ،اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت ہے ۔ پاکستان کے لئے ہمارے خطے اور ہمارے بزرگوں کی عظیم خدمات ہیں ۔ سرائیکی شعبے کا مطالبہ ہر لحاظ سے جائز ہے اور سرائیکی انڈیا یا اسرائیل کی زبان نہیں ہے ، پاکستان کی زبا ن ہے اور پاکستان کی دیگر یونیورسٹیوں میں سرائیکی پڑھائی جا رہی ہے ۔ رحیم یارخان کے کالجوں میں بھی سرائیکی پڑھائی جا رہی ہے، جو زبان کالجوں میں پڑھائی جا رہی ہو ، اسے یونیورسٹی کی تعلیم کیلئے لازم شامل کیا جاتا ہے کہ کالج کی تعلیم ہی در اصل یونیورسٹی کی تعلیم ہوتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یونیورسٹی میں سرائیکی کو کون روک سکتا ہے ؟ یہ اس خطے کی اصل زبان ہے اور اس کی جڑیں دھرتی میں پیوسط ہیں ۔ یہ کوئی مصنوعی زبان نہیں اور نہ ہی باہر سے آئی ہے ۔ جناب والا ! تاریخی ، ثقافتی اور جغرافیائی حقائق کا انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ میں واضح کہتا ہوں کہ کسی بھی یونیورسٹی کے قیام کا مقصد مقامی زبان و ادب کے فروغ اور اس کے آثار پر تحقیق ہوتا ہے ، علمی اور زمینی حقائق کے مطابق خواجہ فرید یونیورسٹی نے سرائیکی شعبہ قائم کرنا ہے ۔ اگر یہ آپ کے ہاتھوں سے ہو جائے تو یہ قدم آپ کی نیک نامی کا باعث بنے گا ، ورنہ وسیب کے لوگوں نے ہر صورت شعبہ قائم کرانا ہے ، پیار سے ہو یا تکرار سے ۔ بارِ دیگر کہوں گا کہ بلا تاخیر سرائیکی شعبے کا قیام عمل میں لائیں ، یہ میری درخواست بھی ہے اور آپ کے نام کھلا خط بھی ۔ امید ہے کہ آپ مایوس نہیں کریں گے ۔
ظہور احمد دھریجہ
مرکزی صدر سرائیکستان قومی کونسل ۔ پاکستان
چیف ایڈیٹر روزنامہ جھوک سرائیکی ۔ ملتان / خانپور
یہ بھی پڑھیں:
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر