مئی 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎‎ماں، بیٹی اور نواسی!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

انتہائی مزے کی بات یہ رہی کہ ہم دودھ پلانے سے نہ کبھی شرمائے یا گھبرائے حالانکہ عمر زیادہ نہیں تھی۔ سرکاری دعوتوں میں بھی اگر جاتے تو بچی کی بھوک محسوس کر کے اٹھ کر کسی اور کمرے میں چلے جاتے اور بچی کا پیٹ بھر کے واپس آتے۔ ساتھ میں ہمارے جیسی کئی اور مائیں ہوتیں جو حیرت سے ہمیں دیکھتیں اور اپنے بچوں کے منہ میں فیڈر دے دیتیں۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”ارے تم نے وہ نہیں خریدا؟“
چھوٹے سے بیگ کے پاس رنگ برنگے سامان کا ڈھیر لگ چکا تھا اور آپا بیگ الٹ پلٹ کر کے دیکھ رہی تھیں۔
”کیا؟ کیا نہیں خریدا؟“ ہم نے بے چینی سے پوچھا۔
”بھئی وہ۔ دودھ پلانے والا“ آپا بولیں۔
”فیڈر؟“
”ہاں، ہاں، وہ فیڈر، وہ کیوں نہیں لیا؟“
ہمیں ہنسی آ گئی۔
”اس لیے کہ ضرورت نہیں ہے“ ہم نے جواب دیا۔
”کیوں، ضرورت کیوں نہیں ہے؟ بچہ یا بچی بھوکی رہے گی کیا؟“ آپا حیرت سے بولیں۔
”نہیں بھوکا یا بھوکی کیوں رہے گی؟ دودھ پلایا جائے گا“
”تو وہی تو کہہ رہی ہوں کہ دودھ کیسے پلاؤ گی، تم نے کام پہ بھی تو جانا ہو گا“
”دیکھ لیجیے گا، آنے تو دیجیے اسے باہر“
ہم نے ہنس کر کہا۔

مئی کا مہینہ تھا۔ سب کا گرمی سے برا حال تو تھا ہی، بے چینی سے انتظار کی گھڑیاں بھی گنی جا رہی تھیں۔ ٹھہرے ہم تو ہمیں حمل اور بچہ شادی پیکج کا ایک روٹین حصہ ہی لگ رہا تھا کہ شادی ہوئی ہے اب یہ کچھ تو ہو گا۔ ارد گرد سہیلیاں دھڑا دھڑ ماں بننے میں مصروف تھیں سو سوچا کہ کہیں اس دوڑ میں ہم پیچھے نہ رہ جائیں۔ عادت پڑی ہوئی تھی نا ہر چیز میں اول آنے کی۔ قسم لے لیجئیے اگر ماں بننے کی آرزو کا کہیں معمولی سا بھی نام و نشان ہو، ممتا کا احساس بھی ندارد تھا اور اور نہ ہی ہونے والے بچے سے محبت محسوس ہو رہی تھی۔

شادی کے تین مہینے بعد پہلے ماہواری غائب ہوئی پھر متلی شروع ہوئی، تب ہم چونکے، ارے یہ کیا؟ اتنی جلدی؟ ابھی تو ہم نے اپنے رنگ برنگے کپڑے بھی اچھی طرح نہیں پہنے۔ کہیں سیر وغیرہ کے لیے بھی نہیں گئے۔ ابھی سے ایک بچے کی ریں ریں اور گو موت؟

خیر مرتے کیا نہ کرتے، شادی کی تھی اب جو کچھ بھی ہوتا، سہنا ہی تھا۔

حمل تو اچھا ہی گزر گیا، کام کرتے کرتے۔ نہ کمر میں درد محسوس ہوئی نہ نقاہت، نہ کچھ خاص کھانے کی اشتہا اور نہ ہی چہرے پہ چھائیاں۔ پیٹ بھی زیادہ بڑا نہیں ہوا۔ ایک پرائیویٹ ہسپتال میں دوسروں کے حمل کا معائنہ کرتے، زچگیاں سنبھالتے اپنے بھی نو مہینے گزر گئے۔

شاپنگ کا شوق تو تھا ہی سو سب کچھ اکٹھا کر لیا سوائے فیڈر کے۔ نہ جانے ہمیں فیڈر سے کیوں چڑ تھی؟ اور خبر نہیں کیسے لیکن ہم بچے کو ماں کا دودھ پلانے کے شدید حامی تھے۔

زچگی کی داستان ایک علیحدہ مضمون کی متقاضی ہے سو اسے چھوڑیے اور سنیے کہ زچگی کے بعد کیا ہوا؟

گنگا رام ہسپتال کے ایک بستر پہ ہم منہ سر لپیٹے پڑے تھے کہ زچگی کے بعد ابھی تک حواس بحال نہیں ہوئے تھے۔ ہم کسی سے بات کرنا نہیں، چاہتے تھے، کسی سے ملنا نہیں چاہتے تھے، کچھ کھانا نہیں چاہتے تھے اور تو اور بچی کو گود لینے کی بھی چاہ نہیں تھی۔ دوسری طرف عالم یہ تھا کہ احباب مارے اشتیاق کے جوق در جوق چلے آ رہے تھے۔

مبارک سلامت کا شور و غوغا تھا، مٹھائی بٹ رہی تھی، بار بار صدقہ دیا جا رہا تھا۔ بچی کو گود میں لے کر تصویریں کھنچوائی جا رہی تھیں۔ بچی کے نام کے متعلق ہر کسی کی علیحدہ رائے تھی اور بچی کی دیکھ بھال کے لیے مفت مشوروں کی بھرمار تھی۔

ہم انتہائی بیزاری کے عالم میں ایک طرف کروٹ لیے منہ پر چادر ڈالے پڑے تھے۔ جو کوئی مخاطب کرنے کی کوشش کرتا، انہیں ہماری اماں اور آپا جواب دے دیتیں کہ مزاج سے خوب آشنا تھیں۔

اتنے میں بچی کے رونے کی آواز آئی اور غلغلہ اٹھا کہ بچی بھوکی ہے۔ بچی کے لیے بنائے بیگ میں سے دودھ کا ڈبہ تو برآمد ہو گیا مگر دودھ پلایا کیسے جائے گا؟ سب سر جوڑے سوچ رہے تھے۔ آخر ڈرتے ڈرتے ہم سے رجوع کیا گیا کہ بچی بھوکی ہے اور دودھ پلانے کے لیے فیڈر تو ہے ہی نہیں۔ کیا کریں اب؟ کسی کو بازار روانہ کیا جائے کیا؟

ہم نے منہ سے چادر اتارنے کی زحمت کیے بغیر جواب دیا، بیگ کی جیب دیکھ لیں۔

کچھ کھٹر پٹر کی آواز آئی پھر خاموشی چھا گئی اور پھر کسی نے ہولے سے ہماری پشت تھپتھپائی، یہ آپا تھیں۔

”سنو، اس میں تو ایک چھوٹا سا چمچ اور ایک ڈراپر ہے“
”جی ہاں، انہی دونوں کی مدد سے دودھ پلا دیجیے“ ہم نے دھیمی آواز میں کہا۔
”کیا؟ ڈراپر اور چمچ سے دودھ پلائیں نوزائیدہ کو؟“ آپا کے منہ سے دبی دبی چیخ نکلی۔

جی ہاں کہہ کر ہم اسی طرح پشت موڑے لیٹے رہے۔ جملہ حاضرین کی حیرت زدہ آوازیں ہمیں سنائی دیں مگر ہم ڈھٹائی کا مکمل مظاہرہ کرنے کا ارادہ کر چکے تھے۔

شام تک بچی کے وقفے وقفے سے رونے کی آواز آتی اور اماں اور آپا ڈراپر اور چمچ سے اس کی بھوک مٹانے کی کوشش کرتیں۔ دونوں کے چہروں سے جھنجھلاہٹ عیاں تھی۔

ہماری کچھ طبعیت سنبھلی تو ہم نے کن اکھیوں سے یہ تماشا دیکھا۔ بچی کی دادی اور پھوپھیاں بھی موجود تھیں اور سب کافی ناخوش نظر آتے تھے۔

”لائیں مجھے پکڑائیں اسے“ ہم نے آپا کو کہا۔

بچی گود میں لے کر ہم نے اسے ساتھ لگایا اور دودھ پلانے کی کوشش کی۔ بچی بھی انجان اور ہم بھی، سو کچھ دیر کی کوشش کے بعد دونوں ہی تھک کر علیحدہ ہو گئیں۔

رات ہو رہی تھی جب اماں نے آہستہ سے ہمیں کہا، بیٹا فیڈر منگوا لیں، بچی بھوکی ہے۔
نہیں، ہمارا سر نفی میں ہلا۔
تو بچی کیسے دودھ پئے گی؟ اماں نے فکرمند ہو کر کہا
جب فیڈر نہیں ہوتے تھے، تب بچے دودھ کیسے پیتے تھے؟ ہم نے بے نیازی سے جواب دیا۔
اماں کچھ کہنے کی بجائے منہ موڑ کر بیٹھ گئیں۔ یہ ان کی ناراضگی کا اظہار تھا۔

رات وقفے وقفے سے بچی کے ساتھ ڈراپر اور چمچ کا کھیل ہوتا رہا۔ چمچ سے کچھ دودھ اندر جاتا، کچھ ہونٹوں کے گوشے سے بہہ جاتا۔ اماں کی بڑبڑاہٹ بھی سنائی دیتی رہے لیکن ہم نے اپنی جگہ سے حرکت نہیں کی۔

صبح ہوئی، تب ہم نے بچی کو دوبارہ ساتھ لگا کر دودھ پلانے کی کوشش کی۔ دودھ کی بجائے پانی کی طرح کا مائع نکلا جسے بھوک سے بے حال بچی نے پینے کی بھرپور کوشش کی۔ کچھ دیر کی جدوجہد کے بعد ہم نے آپا کو اشارہ کیا کہ پھر سے چمچ سے دودھ پلائیں۔

دوپہر تک اماں زچ ہو چکی تھیں۔ ہم تین چار بار وہی مائع بچی کے منہ میں انڈیل چکے تھے، آپا ڈراپر اور چمچ کا استعمال کر رہی تھیں مگر بچی بھوک سے بار بار بلبلاتی تھی۔

”بیٹا، ایسا کب تک چلے گا؟“ اماں نے پوچھا۔

”کیا اماں؟“ ہم نے انجان بننے کی کوشش کی۔

”ارے فیڈر تم نہیں پلانے دے رہیں، تمہارا دودھ اتر نہیں رہا، بچی کا بھوک سے برا حال ہے“ اماں کا غصے کے مارے برا حال تھا۔

”کچھ نہیں ہوتا اماں“ ہم نے بے نیازی سے کہا ”دو دن بھوکی رہ لے گی تو کوئی فرق نہیں پڑے گا“
”توبہ توبہ، کسی ظالم ہو، ممتا تو تمہیں چھو کے بھی نہیں گزری“
”اماں جسے آپ ممتا سمجھ رہی ہیں نا، وہی بچی کے ساتھ زیادتی ہو گی“
”وہ کیسے؟“

”دیکھیے ماں کا دودھ اترنے میں دو سے تین دن لگتے ہیں۔ اس وقت تک جو پانی نکلتا ہے وہ بچے کو تمام بیماریوں سے بچاتا ہے، اس پانی کی تاثیر اینٹی بایوٹک دوا کی سی ہے۔

رہی فیڈر کی بات اگر بچی کو پیٹ بھر کے دودھ مل گیا فیڈر کے ذریعے تو وہ کیوں یہ پانی پیے گی اور کیوں ماں کا دودھ پینا چاہے گی؟

ماں کا دودھ اتنا میٹھا نہیں ہوتا، جتنا ڈبے کا دودھ ہوتا ہے۔ فیڈر کے ذریعے بچے کو محنت بھی نہیں کرنی پڑتی، ذرا سا بوتل کا نپل دبایا اور ڈھیروں میٹھا میٹھا دودھ منہ میں۔

جبکہ ماں کے دودھ کو کھینچنا پڑتا ہے۔ یہ بالکل ڈیمانڈ اور سپلائی والا معاملہ ہے، بچہ جب بھی ماں کے نپل کو چوسے گا اور جتنا زیادہ چوسے گا، اتنا زیادہ دودھ نکلے گا لیکن دو سے تین دن کے بعد ۔

اور اگر بچے کو شروع کے تین دن فیڈر کی عادت پڑ گئی تو نہ بچہ ماں کے نپل کو منہ میں لے گا اور نہ ہی دودھ نکلے گا۔ یہ ہے وہ وجہ جو اکثر خواتین کہتی ہیں کہ ہم دودھ پلانا چاہتے تھے بس دودھ ہی نہیں آیا۔

اس لئے کامیابی کی کلید صرف اور صرف صبر سے انتظار کرنے میں ہے اور بچے کے رونے دھونے کو برداشت کرنے میں بھی۔

یاد رکھیے دودھ نہیں آئے گا جب تک بچہ بار بار زور نہیں لگائے گا۔
اور سنیے فوائد کیا ہوں گے؟

نہ بچے کا پیٹ خراب ہو گا، نہ بچے کے پیٹ میں گیس جمع ہو گی، نہ بچہ بار بار بیمار ہو گا، نہ بچہ راتوں کو جگائے گا، نہ بلاوجہ روئے گا، نہ ہی چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرے گا۔ ہضم کرنے میں بھی کوئی دقت نہیں ہو گی کہ ماں کے دودھ کی غذائیت کا مقابلہ ڈبے کا دودھ کر ہی نہیں سکتا۔ اس کے علاوہ ماں بچے کی جو بانڈنگ ہو گی اس کا تو کوئی اندازہ بھی نہیں کر سکتا۔ اور ہاں، شاید آپ کو علم نہ ہو کہ ماں کا دودھ پینے والے بچے بہت ذہین ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے ہو کر انہیں ذیابیطس، دل کی بیماری اور کینسر ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

دودھ پلانے والی ماں کو بھی بریسٹ کینسر کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پیٹ خود بخود اندر چلا جاتا ہے ”

ہماری تقریر ختم ہوئی تو سب منہ پھاڑے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ شاید اس قدر صاف گوئی کی توقع نہیں تھی۔

اور پھر وہی سب کچھ ہوا جو ہم نے سوچا تھا اور کہا تھا۔ بچی کا رونا تیسرے دن ختم ہو گیا جب اسے دودھ پینا آ گیا اور دودھ کی سپلائی بھی بہتر ہو گئی۔

انتہائی مزے کی بات یہ رہی کہ ہم دودھ پلانے سے نہ کبھی شرمائے یا گھبرائے حالانکہ عمر زیادہ نہیں تھی۔ سرکاری دعوتوں میں بھی اگر جاتے تو بچی کی بھوک محسوس کر کے اٹھ کر کسی اور کمرے میں چلے جاتے اور بچی کا پیٹ بھر کے واپس آتے۔ ساتھ میں ہمارے جیسی کئی اور مائیں ہوتیں جو حیرت سے ہمیں دیکھتیں اور اپنے بچوں کے منہ میں فیڈر دے دیتیں۔

بچی کا ماں کا دودھ پینے کی عادت ہمیں کسی جگہ جانے سے نہ روک سکی۔ منگلا کینٹ میں ہونے والا میوزک کنسرٹ ہمیں آج بھی یاد ہے جب ہم نے ہال میں بیٹھے بیٹھے اپنا بڑا سا دوپٹہ کھول کر بچی کو اس کے اندر گھساتے ہوئے موسیقی پہ سر دھنا تھا۔

پہلے چار ماہ تو ہسپتال سے چھٹی رہی سو کوئی مشکل نہیں ہوئی۔ اگلے مہینوں میں بچی صبح کے وقت سیریلیک، انڈے کی سفیدی اور کیلے پہ اس وقت تک گزارا کرتی جب تک ہم ہسپتال سے واپس نہ آ جاتے۔ اور اس کے بعد ماں بیٹی پینے پلانے میں مصروف ہو جاتیں۔

ہمارا یہ کاروبار زندگی بچی کی دوسری سالگرہ تک چلا جب ہم نے بچی کو بتایا کہ اب بس!

آج یہ سب یاد آنے کی وجہ ہماری بیٹی کی سالگرہ ہے۔ سوچا سالگرہ کے موقع پر اس دن کی یاد تازہ کی جائے جب ایک نوجوان لڑکی ماں بنی تھی، ماں کے عہدے پر فائز کرنے والی رو رو کے بے حال ہوتی تھی اور ماں کی ماں کی جھنجھلاہٹ عروج پر تھی۔ تین عورتیں تھیں اور تینوں ایک ایسی نادیدہ ڈوری سے بندھی تھیں جس کی ہر گرہ انتہائی محبت سے لگائی گئی تھی۔

آج تینوں عورتوں میں جدائیوں کے فاصلے حائل ہیں۔ نانی مٹی کے ڈھیر نیچے محو خواب ہیں، نواسی دنیا کے کسی اور دیس میں بستی ہے اور ماں یادوں کی پٹاری کھولے بیٹھی ہے۔

سالگرہ مبارک پیاری بیٹی!
اپنی ماں کے سب تجربات میں ساتھ دینے کا شکریہ!

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: