نومبر 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایک تھا۔۔۔۔ پیر سپاہی ||حیدر جاوید سید

آفتاب اپنے والد کے ساتھ گاڑی میں ہی بیٹھا تھا ہماری آنکھیں ملیں وہ مسکرایا اور بولا، ابا جی کہہ رہے ہیں کل دوپہر کو دونوں گھر آنا کھانا اکٹھے کھائیں گے۔ دوسرے دن ہم آفتاب کے گھر گئے گلمرگ روڈ پر تعمیر ملت سکول کے قریب اس کا گھر تھا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مقبولیت تو خیر ملتان پولیس لائن کےقریب ایک نیم پختہ کمرے اور چند قدموں پر مشتمل صحن میں خاندان سمیت رہنے والے پیر سپاہی کی بھی بہت تھی۔ پیر سپاہی حقیقت میں سپاہی ہی تھا۔ راتوں رات مشہور ہوا اور وہ بھی کچھ ایسا کہ ہر طرف رونق لگ گئی۔

بھٹو صاحب کو پھانسی چڑھے ابھی کچھ ہی عرصہ ہوا تھا۔ تب کچھ سیانے کہتے تھے کہ پیر سپاہی کا رونق میلہ ایجنسیوں نے لگوایا ہے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے۔

پیر سپاہی جیسا ابھرا مشہور ہوا ایک دن غروب بھی ہوگیا لیکن ابھرنے اور غروب ہونے کے درمیانی عرصہ میں اس نے بڑے بڑے حاضر سروس پیروں کی ’’مت‘‘ ماردی۔

وہ مائیک کے ذریعے لائوڈ سپیکر پر پھونکیں مارتا تھا ، سامنے موجود بے پناہ ہجوم کے ہاتھوں میں بلند ہوئی پانی والی بوتلیں، تیل کی شیشیاں، سرمے دانیاں ہوتیں، جس طرف جاتا لوگ دیوانہ وار اسے دیکھنے اور اس کی پھونکوں سے شفا سمیٹنے کے لئے پہنچ جاتے۔

اس کی پھونکوں والی کرامات (تقسیم شفا) پر نشتر میڈیکل کالج والے پروفیسر ڈاکٹر ظفر حیدر نے حکومت سے کہا تھا یہ اتنا ہی صاحب کرامت اور شفا بخش ہے تو اسے ملک بھر کے ہسپتالوں کا دورہ کروائیں آغاز نشتر ہسپتال سے کریں۔ سینکڑوں ہزاروں کی ادویات ڈاکٹروں کی محنت اور حکومتی خزانہ سب بچ جائے گا۔ ایک تجویز یہ بھی آئی کہ کیوں نہ پیر سپاہی کو ملک بھر کے ریڈیو سٹیشنوں پر پھونکے مارنے کا خصوصی پروگرام دیا جائے۔ لائوڈ سپیکر سے پھونک مارنے اور ریڈیو کے ذریعے یہی عمل کرنے سے اگر ملک بھر کے مریض شفایاب ہوتے ہیں تو برائی کیا ہے؟

یاد پڑتا ہے کسی اندھے عقیدت مند نے یہ بھی کہا تھا کہ صرف پھونکوں کی بات نہیں، پیر کی آنکھوں کے سامنے موجودگی اصل میں شفا بخش ہوتی ہے۔ یار لوگ کہاں چپ رہنے والے تھے فوراً بولے پھر روزانہ کی بنیاد پر پی ٹی وی پر نصف گھنٹہ کا پروگرام اگر مہینہ بھر چل جائے تو ہر طرف شفا ہی شفا ہوگی اور سارے امراض ختم۔

ملتان میں گورنمنٹ کالج سول لائنز سے کچھ آگے کالج والے ہاتھ پر ہی ایک چھوٹا سا مکان اور اس کے باہر لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ ہماری نسل اور کچھ بڑی عمر کے لوگوں کو یاد ہوں گے۔ مجھے تو یاد ہے کہ میرے دو سندھی دوستوں سید عبداللطیف شاہ جیلانی ایڈووکیٹ اور کنعیا لال ایڈووکیٹ نے

(دونوں کا تعلق گھوٹکی سے ہے اور حیات ہیں عبداللطیف شاہ جیلانی تو گھوٹکی کی سیاست اور پیپلزپارٹی کے اہم مقامی رہنما بھی ہیں)

مجھے کراچی سے طلب کیا تب موبائل فون تو ہوتے نہیں تھے رابطہ دفتری فونوں یا خط کے ذریعے ہوتا تھا۔ کنعیا لال ایڈووکیٹ کا خط موصول ہوا، یاد پڑتا ہے صرف اتنا لکھا تھا ’’مرشد جلدی سے گھوٹکی کے لئے روانہ ہوجائو، شاہ جی میں اور آپ تینوں ملتان جائیں گے پیر سپاہی کو ملنا ہے‘‘۔

خط ملنے کے اگلے روز روانہ ہوا شب بھر کے سفر کے بعد صبح کسی وقت گھوٹکی پہنچا۔ کچہری روڈ پر ایک چوبارہ ان دونوں دوستوں کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ یہی دفتر مہمان خانے کا کام بھی دیتا تھا۔

گھوٹکی پہنچا تو یہ طے پایا ایک دن بعد ملتان کے لئے روانہ ہوں گے دو دن وہیں قیام و طعام ہوا تیسرے دن تینوں ملتان کے لئے روانہ ہوئے۔ ان دنوں سکھر اور علی پور کے درمیان سید زمان شاہ صاحب کی "صاحب برادرز ٹرانسپورٹ” کی بسیں چلا کرتی تھیں۔ علی پور میں عبداللطیف شاہ جیلانی کے ایک دوست کے گھر قیام کے بعد اگلی صبح ملتان روانہ ہوئے۔ تپتی پھڑکتی دوپہر میں وارد ملتان ہولئے ۔ امڑی صاحبہ کو اطلاع تھی دو دوستوں کے ساتھ آرہا ہوں۔ ہم اپنا سامان اپنے محبوب بلوچ لالہ عمر علی خان بلوچ کے سرائیکی ادب والے دفتر کے بالائی کمرے میں رکھ کر کچھ دیر سستائے پھر خونی برج پہنچے۔ چار عشروں سے کچھ اوپر کی بات ہے لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میری امڑی نے میری پسندیدہ تینوں چیزیں بنوائیں۔ کوفتے، آلو گوشت اور زردہ۔

یہاں ایک لطیفہ بھی ہوا۔

مہمانوں کے ساتھ کھانا کھاکر رخصت ہونے کے لئے امڑی حضور کی قدم بوسی کرنے گیا تو انہوں نے پوچھا دوست کون ہیں کہاں ٹھہرے ہو؟ عرض کیا گھوٹکی سے آئے ہیں دونوں کے نام بتائے اور یہ بھی کہ پیر سپاہی سے ملنا ہے۔ رہیں گے عمر علی خان بلوچ کے چوبارے پر۔ دوستوں کے نام سن کر میری ایک چھوٹی بہن بولیں، ایک ہندو ہے؟

ہاں، میں نے جواب دیا۔ پہلے کیوں نہیں بتایا ایک مہمان ہندو ہے۔ وہ ناراض ہوئی۔ امڑی مرحومہ نے اسے جھڑکتے ہوئے کہا ’’مہمان بس رحمت ہوتا ہے اپنے نصیب کا کھاتا ہے ہندو ہو یا مسلمان نہیں مہمان صرف مہمان ہوتا ہے‘‘۔

امڑی حضور کی شفقت بھری مداخلت اور ارشاد سے میری جان چھوٹی ورنہ گھر میں تھانیدارنی سمجھی جانے والی اس بہن (جسے اس کے تینوں بڑے بھائی اج بھی خلیفہ کہہ کر بلاتے ہیں) نے قیامت ڈھانی تھی۔

خیبر اس قیامت سے بچ کر نکلے۔ خونی برج چوک سے کچہری کی طرف کا رکشہ لیا اور جاپہنچے پیر سپاہی کے گھر۔ پتہ چلا وہ کبیر والا گیا ہوا ہے۔

غالباً آبائی طور پر اس کاتعلق کبیروالا سے ہی تھا اوراس کے اپنے پیر کا تعلق بھی وہیں سے۔ اِدھر اُدھر گھومتے پھرتے دوبارہ چھ بجے پھر پیر سپاہی کے گھر کے باہر پہنچے وہاں لوگوں کا بے پناہ رش تھا۔

بہت مشکل سے سید عبداللطیف شاہ جیلانی کی لکھی ہوئی پرچی اس کے ایک مرید خاص کے ذریعے اندر بھجوائی۔ چند منٹ بعد اس نے ہم تینوں کو لے جاکر پیر سپاہی کے حضور پیش کیا۔ کنعیا لال ایڈووکیٹ نے اپنا مسئلہ بتایا جواب میں اس نے کنعیا لال کو قریب کرکے کچھ کہا اور پھر ہاتھ کے اشارے سے ملاقات ختم ہونے کی نوید دی۔

راستے میں ہم دونوں (میں نے اور عبداللطیف شاہ) نے کنعیاں لال سے پوچھا وہ کیا کہہ رہا تھا۔ جواب ملا کہہ رہا تھا مریض کو لے کر آئو اپنے پیروں پر چل کر جائے گا۔

دوسرے دن ہم ملتان سے واپس لوٹ گئے۔

پیر سپاہی کی مقبولیت کا ایک اور چشم دید واقعہ یاد آیا۔ رحیم یارخان میں اب بھی بہت سارے لوگوں کو یقیناً یاد ہی ہوگا کہ پیر سپاہی نے شہر کے محمود سٹیڈیم میں قدم رنجہ فرمایا تھا ہر طرف لوگ ہی لوگ تھے اور ان کے ہاتھوں سے بلند ہوئی پانی اور تیل کی بوتلیں۔

پیر سپاہی آیا فضا نعرہ تکبیر و نعرہ رسالتؐ اور نعرہ حیدریؑ سے گونج اٹھی پھر پھونکوں سے شفا تقسیم کرنے کا عمل شروع ہوا۔ رفاقت عباس نے مجھے کہنی ماری اور کہنے لگا شاہ جی دیکھ لو اسے کہتے ہیں ’’پیر وڈا کے یقین وڈا‘‘۔

میں نے کہا یار عباسی یقین سے جہالت بڑی ہوتی ہے۔ پھر میں نے اسے پروفیسر ڈاکٹر ظفر حیدر والی بات سنائی اس پر ہم دونوں ہنسنے لگے۔ اردگرد موجود لوگوں نے برا منایا۔ ایک کان پڑی آواز اب یاد ہے کسی نے کہا تھا ’’اے کالجیں سکولیں دے چھوار پیراں تے دین دے باغی تھی گئن‘‘۔ ہمیں پھر ہنسی آئی۔

رفاقت عباسی کے ایک دوست آفتاب حسین کے والد اپنی گاڑی پر سپیکر لگاکر قصبے قصبے شہر شہر شفایاب سرمہ اور خارش کی دوائی بیچا کرتے تھے محمود سٹیڈیم کے باہر وہ بھی اپنی گاڑی لئے موجود تھے اور مائیک پر کہہ رہے تھے ’’آنکھوں کی ہر بیماری کا علاج پیر سپاہی کا دم کیا ہوا سرمہ‘‘۔ لوگ دھڑا دھڑ سرمے کی شیشیاں خرد رہے تھے۔

آفتاب اپنے والد کے ساتھ گاڑی میں ہی بیٹھا تھا ہماری آنکھیں ملیں وہ مسکرایا اور بولا، ابا جی کہہ رہے ہیں کل دوپہر کو دونوں گھر آنا کھانا اکٹھے کھائیں گے۔ دوسرے دن ہم آفتاب کے گھر گئے گلمرگ روڈ پر تعمیر ملت سکول کے قریب اس کا گھر تھا۔

مجھے معلوم تھا کہ اس کے والد آزاد خیال یا یوں کہہ لیجئے مذہب بیزار شخص تھے اسی لئے میں نے کھانے کے دوران ان سے پوچھا چچا یہ آپ نے کیسے سرمہ پیر سپاہی سے دم کروالیا؟ ہنس کر بولے، "شاہ بیٹا کس نے دم کروایا بس لوگ جس کے نام پر خرید رہے تھے میں نے انہیں اس کے نام پر بیچ دیا”۔

چلتے چلتے یہ بھی جان لیجے کہ اس وقت کے فوجی آمر جنرل ضیا الحق نے پیر سپاہی کو خصوصی طیارے کے ذریعے ملتان سے اسلام آباد بلواکر زیارت کی تھی اسے اسلام آباد بلوانے کا مقصد اپنی بیٹی کو پیر سپاہی سے دم کروانا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author