نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اڑسٹھ، اکتالیس، انیس، سات||ڈاکٹر مجاہد مرزا

وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کو بھی پنجاب میں کامبابی ملی ہے۔ البتہ مقتدر پارٹی کو بڑے صوبے پنجاب کے علاوہ جہاں اس کی اپنی حکومت ہے باقی تین صوبوں میں بھی ایک یا دو نشستیں ملی ہیں۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ بیسویں یا اکسیویں صدی کے سالوں کی گنتی نہیں ہے کہ 1968 لیپ کا سال تھا۔ 1941 میں جرمنی نے روس پر دھاوا بولا تھا۔ 1919 میں رولٹ ایکٹ منظور ہوا تھا، عورتوں کی تحریک کو بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی تھی یا یہ کہ اکیسویں صدی کا سال 2007 بیک وقت مولانا رومی، ڈولفن اور قطبین سے منسوب سال تھا۔ ارے بھائی یہ اپریل 2015 کے پاکستان میں ہوئے کنٹونمٹ بورڈز کے حلقوں میں جیتنے والی پارٹیوں کے نمائندوں کی تعداد ہے۔ یی ایم ایل این نے اڑسٹھ، تحریک انصاف نے اکتالیس، متحدہ قومی تحریک نے انیس اور بھٹو کی پارٹی نے صرف سات نشستیں حاصل کی ہیں۔
کیا یہ گنتی اتنی اہم ہے کہ اسے کسی مضمون یا کالم کا عنوان بنایا جائے؟ کیوں نہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان میں بنیادی سطح پر کوئی انتخابات ہوئے ہیں، چلو فی الحال چھاؤنیوں کی سطح پر ہی سہی، دوسری بات جو اسے اہم بناتی ہے وہ یہ کہ ان انتخابات میں تحریک انصاف کی حاصل کردہ نشستیں، مقتدر پارٹی کی جیتی ہوئی نشستوں کا تقریبا” دو تہائی ہیں۔ دلچسپ اور اہم ترین بات یہ کہ پاکستان میں آج بھی قومی سطح کی پارٹی کا دعویٰ کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کو کل سات نشستیں حاصل ہوئی ہیں اور وہ بھی صرف سندھ میں۔ یہ تعداد پی ایم ایل این کی حاصل کردہ نشستوں کا نواں اور تحریک انصاف کی حاصل کردہ نشستوں کا چھٹا حصہ بنتا ہے۔ تا حتٰی علاقائی پارٹی (اگرچہ وہ بھی اپنے نام کے ساتھ مہاجر کی بجائے متحدہ کا لاحقہ لگا کے قومی سطح کی پارٹی ہونے کی دعویدار ہے) متحدہ قومی تحریک کی جانب سے حاصل کی گئی نشستوں کی تعداد کا بھی تقریبا” ایک تہائی بنتا ہے۔ ان انتخابت کے نتائج کے آنے کے فورا” بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین اور پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری نے کراچی کے مشہور یا بدنام علاقے لیاری کے ککری گراؤنڈ میں ایک جلسہ عام کیا۔ اپنے خطاب میں کہا کہ وہ نہیں مانتے کہ پنجاب، خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی مقبول نہیں ہے۔ ایسا کہنا اس محاورے کے مصداق ہے جس میں کہا جاتا ہے ‘ کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں "شکست” کے اسباب کا سراغ لگانے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کو بھی پنجاب میں کامبابی ملی ہے۔ البتہ مقتدر پارٹی کو بڑے صوبے پنجاب کے علاوہ جہاں اس کی اپنی حکومت ہے باقی تین صوبوں میں بھی ایک یا دو نشستیں ملی ہیں۔
پاکستان میں 2003 کے اعداد و شمار کے مطابق چھاؤنیوں کی سب سے زیادہ تعداد پنجاب میں ہے جہاں 22 کنٹونمنٹس ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں 10، سندھ میں آٹھ اور بلوچستان میں 7۔ گذشتہ حکومت کے دور میں نیا صوبہ بنائے گئے گلگت بلوچستان میں بھی دو کنٹونمنٹس ہیں۔ کنٹونمنٹ بورڈز فوج کے تحت فوجی علاقے میں زمین و جائیداد اور انفراسٹرکچر کے کاموں کی نگرانی کرنے والا ادارہ ہوتا ہے، جس میں لوکل گورنمنٹ کے انتخابات میں چنے ہوئے غیر فوجی اراکین بھی ہوتے ہیں۔ یہاں 2000 سے انتخابات نہیں ہوئے تھے۔ 2009 میں اس سلسلے میں ہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا تھا۔ عدالتی فیصلے کے مطابق اپریل 2015 میں جماعتی بنیادوں پر یہ انتخابات کرائے گئے۔ پارٹیوں کے نمائندوں کے علاوہ آزاد امیداوار بھی بڑی تعداد میں کامیاب ہوئے جن کی تعداد 51 بنتی ہے۔
کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات کا ملکی سیاست پر براہ راست اثر مرتب نہیں ہوتا لیکن اس کے نتائج، سیاست سے متعلق لوگوں کا رجحان ضرور ظاہر کرتے ہیں۔ ان نتائج کا بالواسطہ اثر ملک بھر میں ہونے والے بنیادی جمہوریت کے انتخابات پر پڑ سکتا ہے جو اسی برس ہونے متوقع ہیں۔ پنجاب میں دو پارٹیاں حاوی ہیں یعنی مقتدر پی ایم ایل این اور تحریک انصاف۔ خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف اور کسی حد تک اے این پی۔ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی مگر سندھ کے ہی دو بڑے شہروں کراچی اور حیدر آباد میں متحدہ قومی تحریک کی جانب لوگوں کا رجحان ہے۔
آصف علی زرداری نے ککری گراؤنڈ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج سے ان کی پارٹی نے 2018 کے قومی انتخابات کے لیے مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ ان کو احساس ہو چکا ہے کہ اگر دوسرے صوبوں اور خاص طور پر پنجاب میں پارٹی کو پھر سے زندہ نہ کیا گیا تو ان کے لیے دوبارہ اقتدار میں آنا ممکن نہیں ہوگا۔ تحریک انصاف کو بھی ڈر ہے کہ حکومت پانے کا اس کا خواب لگتا ہے شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ ان دونوں پارٹیوں کا ردعمل سمجھ میں آتا ہے۔ لوکل باڈیز کے انتخابات چند ماہ بعد ہونے ہیں۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ زرداری صاحب چاہے جتنا زور کیوں نہ لگا لیں وہ پنجاب میں اپنی پارٹی کو مذکورہ بالا دو پارٹیوں کے ہم پلہ بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔
اگرچہ چین کے ساتھ معاشی تعاون کی شروعات زرداری صاحب نے ہی کی تھیں لیکن لوگ نتائج دیکھا کرتے ہیں۔ نواز شریف کی حکومت خوش بخت ہے کہ اسے آئندہ دو سالوں میں چین کے ساتھ کیے گئے حالیہ معاہدوں کے طفیل لوگوں کو دکھانے کے لیے خاصا کچھ مل جائے گا۔
تمام پارٹیوں کا مقامی سطح تک محدود ہونا اور آئین کی اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو بہت حد تک خود مختاری مل جانا، پاکستان کے وفاق کے لیے اچھی بھلی سردردی کا موجب بن سکتا ہے۔ علاوہ ازیں شی جن پنگ کے دورہ اسلام آباد کے موقع پر پنجاب کے وزیر اعلٰی اور وزیر اعظم نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کے علاوہ، خیبر پختون خواہ، سندھ اور بلوچستان کے وزرائے اعلٰی کو وفاق کی جانب سے اس عشائیے میں بھی مدعو نہیں کیا گیا جو معزز مہمان کے اعزاز میں دیا گیا تھا جبکہ "گوادر کاشغر اقتصادی راہداری” کو ان تمام صوبوں میں سے گذرنا ہوگا۔ بہر حال ایک بات حوصلہ افزاء ہے کہ آصف علی زرداری نے کہہ دیا ہے وہ چین کے ساتھ معاشی تعاون پر سیاست نہیں کریں گے۔ عمران خان نے اس ضمن میں ابھی کچھ نہیں کہا لیکن اسفند یار نے کل پارٹی کانفرنس بلا لی ہے۔ چنانچہ اڑسٹھ، اکتالیس، انیس ، سات اتنا اہم ضرور ہے کہ اس پر کچھ لکھا جاتا۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author