نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا معاشرے میں رائج اعمال سے ہٹ کر خوشحال ہونا ممکن ہے؟||ڈاکٹر مجاہد مرزا

تم فوج میں ہی رہ جاتے، کہتے ہیں۔ ارے بھائی رہ جاتا تو کیا ہوتا، بریگیڈیر ریٹائر ہو جاتا، دو بنگلے مل جاتے، بچے پڑھ کر کسی اچھے کام میں لگے ہوتے۔ مگر میں کیسے سوچتا؟ اس پر وہ مجھے خود غرض کہنے سے بھی نہیں چوکتے۔ میں بیچارہ شرمسار شرمسار سا ان کی باتیں سنتا رہتا ہوں ویسے ہی جیسے شوہر بیویوں کی پرانی ڈائریاں بار بار سنتے ہیں، چپ رہتے ہیں، غیض میں آ جاتے ہیں یا غصہ پی جاتے ہیں۔ مقدر کو ماننے کو کوئی تیار نہیں۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے ایک دوست ہیں، خاصے انسانیت پسند مگر خوشحال ہوتے ہوتے کچھ سنکی ہو گئے ہیں۔ کہتے ہیں غریبوں سے تمہارا واسطہ نہیں پڑا یہ سب سے زیادہ ظالم ہوتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ سبھی معاملات کے بارے میں سوچنا ہمارا کام نہیں یہ مخصوص لوگوں کا کام ہے جیسے مذہبیات، سیاست، معاشرت وغیرہ وغیرہ۔ مجھے ان کا کہا ایسے سمجھ آیا کہ اگر آپ ایر کنڈیشنڈ کار میں سوار ہیں، اگر ایک پوش علاقے میں آپ کا اچھا اور مجہز مکان ہے، اگر آپ کا معیار زندگی بیشتر لوگوں سے بہتر ہے تو ان اشیاء اور اخراجات کو ممکن اور قائم بناتے ہوئے اپنی یعنی اپنے کنبے کی زندگی بہتر بنانے کی لگن ہونی چاہیے اور بس۔ باقی سب سے آنکھیں موند لو کیونکہ آپ اس سب کو بدلنے سے قاصر ہیں۔
انہوں نے اپنے الفاظ میں یوں بیان کیا: دیکھو ہمارے ہاں اٹھانوے فیصد لوگ بشمول میرے بددیانت ہیں۔ سب کسی نہ کسی حد تک اور کسی نہ کسی طریقے سے بددیانتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ سبھی لوگ کسی نہ کسی حوالے سے منافقت سے بھی کام لیتے ہیں کیونکہ معاشرہ بہت متشدد اور عدم روادار ہے چنانچہ اگر آپ اسی اٹھانوے فیصد میں شامل ہو جاتے ہیں تو آپ کو معاشرے میں مقام بھی مل جاتا ہے، آپ دنیاوی سہولیات بھی پا لیتے ہیں، آپ کے بچے بھی بہتر تعلیم حاصل کر لیتے ہیں، آپ کی بیوی، ماں باپ، بہنیں اور بھائی بھی آپ سے خوش اور مطمئن رہتے ہیں اور آپ سکون سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ اگر اس کے برعکس اگر آپ باقی دو فیصد میں شامل ہو کر کچھ "انوکھا” کرنا چاہتے ہیں تو جس طرح اٹھانوے فیصد آپ کی نگاہ میں درست لوگ نہیں اسی طرح ان اٹھانوے فیصد کی نگاہ میں آپ بالکل بھی درست نہیں ہیں۔
میں شاید ان کے بقول انہیں دو فیصد میں شامل ہوں۔ میں جب اپنے لکھنے والے خوشحال دوستوں کی تحریریں پڑھتا ہوں اور انہیں اس ہی معاشرے میں جس کی تمام برائیاں ان کے سامنے اظہر من الشمس ہیں اور وہ اس کو بظاہر مسترد کرتے ہیں مگر اسی معاشرے میں رائج اعمال پر عمل پیرا ہو کر خوشحال بھی ہو جاتے ہیں تو میں حیران ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان بھی ہوتا ہوں کہ آیا یہ لوگ منافق ہیں یا میں دیوانہ۔
28 برس انتہائی سرد ملک میں‌ رہتے ہوئے میں پاکستان کی گرمی کا عادی نہیں رہا۔ ملتان گیا یا لاہور اپنے ان دوستوں کے گھروں میں رہا جو مجھے ایرکنڈیشنڈ کمرہ اور دیگر سہولیات فراہم کرنے کے اہل ہیں۔ اگر میں اپنے طور پر یہ سب کچھ حاصل کرنا چاہوں تو ہرگز نہیں کر سکتا کیونکہ بجلی کا بل بہت زیادہ ہوگا۔ کار تو ویسے بھی پندرہ بیس لاکھ کی آتی ہے۔مجھ جیسے دو فیصد بااہلیت لوگوں نے تو اب جب کہ ہزار سو کے برابر ہو چکے ہیں ، دس لاکھ کبھی اکٹھا نہیں دیکھا۔ خیر، میرے پیارے دوست بار بار، بار بار، ہر بار جب بھی ملتے ہیں تو مجھے سدھرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ الزم دیتے رہتے ہیں کہ میں نے اپنے بچوں کا خیال نہیں رکھا وغیرہ وغیرہ۔ میں بھلا کیا جواب دوں چونکہ مجھے اٹھانوے فیصد کے قدموں پر چلنا نہیں آتا۔
تم فوج میں ہی رہ جاتے، کہتے ہیں۔ ارے بھائی رہ جاتا تو کیا ہوتا، بریگیڈیر ریٹائر ہو جاتا، دو بنگلے مل جاتے، بچے پڑھ کر کسی اچھے کام میں لگے ہوتے۔ مگر میں کیسے سوچتا؟ اس پر وہ مجھے خود غرض کہنے سے بھی نہیں چوکتے۔ میں بیچارہ شرمسار شرمسار سا ان کی باتیں سنتا رہتا ہوں ویسے ہی جیسے شوہر بیویوں کی پرانی ڈائریاں بار بار سنتے ہیں، چپ رہتے ہیں، غیض میں آ جاتے ہیں یا غصہ پی جاتے ہیں۔ مقدر کو ماننے کو کوئی تیار نہیں۔
تو جناب اگر آپ کان نمک میں رہ کر نمک نہیں ہوتے تو نمک کی کان آپ کو قبول نہیں کرتی آپ کو باہر نکال دیتی ہے۔ دیکھیے اس ملک میں مڈل کلاس سکڑ رہی ہے، اپر مڈل کلاس بڑھ رہی ہے البتہ ان کی تعداد کم ہے۔ جس ملک میں عام درمیانہ طبقہ مطمئن زندگی بسر نہیں کر سکتا وہاں منڈی بھی مستحکم نہیں ہو سکتی۔ اگر لاہور میں دس شاپنگ مال ہیں تو ہر شہر میں ایسا شاید ایک بھی نہ ہو۔ اس کے برعکس اگر آپ یورپ امریکہ یا چاہے روس ہی کیوں نہ چلے جائیں آپ کو عالمی چین سٹورز چھوٹے چھوٹے قصبات میں بھی ملتے ہیں کیونکہ لوگوں میں قوت خریداری ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہاں کی منڈی مستحکم ہے۔وہاں بھی اٹھانوے فیصد لوگ اپنے ملک میں رائج اعمال پر عمل کرتے ہوئے خوشحال ہوتے ہیں۔ یہ اعمال قانون کی پاسداری، دیانت داری، رواداری جیسے اصولوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ یہ اٹھانوے فیصد شاید ملک کی پوری آبادی کا اٹھانوے فیصد ہوتے ہوں۔ مگر پاکستان کے جن 98 فیصد بددیانت لوگوں کا اندازہ ہمارے دوست نے لگایا ہے غالبا” وہ بھی پاکستان کی پوری آبادی کا اٹھانوے فیصدہیں مگر بددیانتی اور منافقت کی حد تک ، رہی خوشحالی تو وہ اس اٹھانوے فیصد کے کہیں پانچ فیصد کے حصے میں آتی ہوگی۔
دولت کمانے کا فارمولا بہت سادہ ہے کہ اگر کل دولت ایک ارب روپے ہے اور لوگ ایک ہزار ان میں چالاک اور ہوشیار دس ہی ہونگے جو ساٹھ کروڑ ہتھیا لیں گے۔ ان کے بعد جو مزید بیس لوگ کم چالاک ہونگے وہ سینتیس کروڑ پر دسترس حاصل کر لیں گے۔ باقی تین کروڑ پر 970 لوگ جھوجھیں گے جس کے پاس جتنا آ جائے مگر بیشتر کے پاس اس کا بہت کم حصہ آئے گا۔ دولت آسمان سے نہیں برستی۔ وسائل سے حاصل ہوتی ہے ، اگر نظام درست نہ ہو تو پھر چھینا جھپٹی ہوتی ہے۔
البتہ یہ بات بالکل درست ہے کہ معاشرے میں مروج اعمال پر چلے بغیر آپ ملک کے معززین میں شامل نہیں ہو سکتے۔ اور ہمارے ہاں معزز وہی ہوتا ہے جس کی کوٹھی بلکہ کوٹھیاں، کار بلکہ کاریں اور کمانے کے کئی ٹھکانے ہوتے ہیں۔ جس ملک میں دل دل پاکستان لکھنے والا نثار ناسک کسمپرسی میں مبتلا ہو اسے ہم دوفیصد میں شامل جان کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author