دسمبر 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کہانیوں اور افواہوں کی گونج سے جنم لیتے خطرات ||حیدر جاوید سید

خدا کرے یہ افواہیں ہی ہوں ان میں رتی برابر صداقت نہ ہو۔ مکرر عرض ہے کہانیوں اور افواہوں اور نئے نظام کے قصوں ان تینوں کی تردید ہوسکتی ہے صرف ایک بات سے وہ یہ کہ عوام کو سفارتی کیبل کی بنیاد پر لگائے جانے والے سنگین الزامات کی حقیقت سے آگاہ کیا جائے، یہ کام کس نے کرنا ہے یہ سب جانتے ہیں۔ ایسا نہ ہوا تو جو زہر بھرا جارہا ہے اس کا خمیازہ سبھی کو بھگتنا ہوگا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلاول بھٹو سمیت اپوزیشن کے دوسرے رہنمائوں کا یہ مطالبہ درست ہے کہ "مبینہ دھمکی آمیز اور غداری کے ثبوت والے خط (سفارتی کیبل) کے حوالے سے منعقد ہوئی نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس کی کارروائی کے منٹس سامنے لائے جائیں یا پھر عسکری حکام وضاحت کریں کہ کیا سفارتی کیبل میں یہی سب کچھ ہے جو عمران خان تکرار کے ساتھ دہرارہے ہیں؟ ”
بلاول نے ایک قدم آگے بڑھ کر بہت مناسب بات کی وہ یہ کہ "اگر عسکری حکام عمران خان کے موقف کو درست سمجھتے ہیں تو پھر اب تک غداری کے مقدمات درج کیوں نہیں ہوئے؟”
دونوں باتیں موجودہ حالات اور یکطرفہ پروپیگنڈے کے تناظر میں بالکل درست ہیں۔
اگلے روز رابط ہوجانے پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں عسکری ترجمان یہ کہہ کر پتلی گلی سے نکل گئے کہ "معاملہ عدالت میں ہے ہم اس پر کچھ نہیں کہہ سکتے”
لاریب معاملہ عدالت میں ہے وہاں آئینی سوالات پر بحث ہورہی ہے یقیناً ان کا تعلق بھی اس مبینہ دھمکی آمیز خط، غداری کے الزام سے ہے۔ عدالت کے فیصلے تک اگر ان الزامات کی بنیاد پر کوئی المیہ رونما ہوا تو کون ذمہ دار ہوگا؟
ایسا ہوا تو اس کے نتائج کیا ہوں گے یہ قبل از وقت مدنظر رکھنا ہوگا۔ اس کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ مارکیٹ میں افواہوں اور سازشی تھیوریوں کا بازار گرم ہے۔
نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے اجلاس میں سفارتی احتجاج کی منظوری کو اپنے موقف کی تائید میں پیش کرکے عمران خان اور ان کے رفقا جو بیانیہ تشکیل دے رہے ہیں وہ ایسی آگ بھڑکائے گا جو بجھائے نہیں بجھے گی۔
غداری کا منہ بھر کر لگایا جانے والا الزام ایک دو افراد پر نہیں یہ متحدہ اپوزیشن اب اس میں سابق حکمران اتحاد کے کچھ پرانے اتحادی جنہوں نے حکومت کے ہوتے ہوئے الگ ہوکر اپوزیشن سے اتحاد کرلیا تھا ان سب پر ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ 197ارکان قومی اسمبلی اور ان کی جماعتیں ملکی سالمیت کے خلاف ’’سازش‘‘ کا حصہ تھیں۔ ایسا ہے تو پھر نیشنل سکیورٹی کمیٹی نے سفارتی احتجاج کے ساتھ داخلی کارروائی کی منظوری کیوں نہ دی۔
کم از کم نیشنل سکیورٹی کمیٹی کو اپنے جاری کردہ اعلامیہ میں کھل کر بات کرنی چاہیے تھی۔ نہیں کی تو اب موقف دیں عسکری ترجمان کی خاموشی سے مسائل بڑھ رہے ہیں اور خطرات بھی۔

یہ دہی بھلے فروخت کرنے کی اجازت دینے کا معاملہ ہرگز نہیں ملکی سلامتی کا معاملہ ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ محض دو اڑھائی سو افراد تک ہی محدود نہیں۔ متحدہ اپوزیشن میں اس وقت 13 جماعتیں شامل ہیں ان 13 جماعتوں نے 2018ء کے انتخابات میں کل ملاکر تحریک انصاف سے کہیں زیادہ ووٹ لئے تو اب کیا نصف سے زیادہ آبادی غدار ہوگئی؟
جس خط (سفارتی کیبل) پر سارا تنازع اٹھااس کے حوالے سے اب ایک نئی بات سامنے آئی ہے وہ یہ کہ پاکستانی سفیر اسد مجید کو باضابطہ طور پر امریکی دفتر خارجہ بلایا گیا اور انہیں پاکستان کے وزیراعظم کے ان چند بیانات اور تقاریر پر تشویش سے آگاہ کیا گیا جو انہوں نے روس کے دورہ کے بعد روس یوکرائن جنگ کے حوالے سے دیئے۔
سفیر سے کہا گیا کہ ’’امریکہ سمجھتا ہے کہ پاکستانی وزیراعظم کے بیانات غیرجانبدارانہ پالیسی کی نہیں بلکہ امریکہ مخالف پالیسی کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایسا ہے تو دو طرفہ تعلقات متاثر ہوں گے‘‘۔
اس طرح کے بلاوے احتجاج، شکوئوں سے آگاہی یا تبادلہ خیال دنیا بھر کے سفارتخانوں اور دفتر خارجہ کے درمیان روزمرہ کا معمول ہیں۔
اس نئی کہانی کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ امریکہ میں ہمارے اس وقت سفیر (نیا سفیر تعینات ہوچکا) اسد مجید نے اس ملاقات کے چند دن بعد انہی صاحب کو (امریکی دفتر خارجہ کے اس آفیشل) جس پر بظاہر دھمکی دینے اور اپوزیشن کی سرپرستی برائے تحریک عدم اعتماد کا الزام لگایا ہے کہ پاکستانی سفارتخانہ کی تقریب میں خطاب کی دعوت دی۔
دعوت کی قبولیت اور خطاب ہر دوکا انہوں نے باضابطہ شکریہ ادا کیا یہی نہیں بلکہ اپنی یورپی ملک میں تقرری کی اطلاع ملنے پر سفیر اسد مجید نے اسی آفیشل کے اعزاز میں ہائی ٹی کا اہتمام کیا اور سوشل میڈیا پر اپنے اکائونٹ سے اس کی باقاعدہ تعریف کرتے ہوئے مربیانہ برتاو اور تعاون پر نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

کہانی کے ان دو حصوں کی باقاعدہ دستاویزی بنیادوں پر تصدیق ہورہی ہے۔ تیسرا حصہ جوکہ خطرناک اور تصدیق طلب ہے وہ یہ ہے کہ سفارتی کیبل جسے مبینہ دھمکی آمیز خط کے طور پر پیش کرکے عمران خان اور ان کے ساتھی 27 مارچ کی شام سے غدار غدار کھیل رہے ہیں اور گزشتہ سپہر مخدوم شاہ محمود قریشی نے بلاول بھٹو کو دھمکی آمیز انداز میں کہا ’’اپنی زبان بند رکھو ورنہ بات بہت دور تک جاسکتی ہے‘‘۔
اس سفارتی کیبل میں اسلام آباد کے دفتر خارجہ میں ردوبدل کی گئی۔ یعنی تحریف ہوئی۔ یہ کس نے کی اور مقصد کیا تھا۔ اس سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا اب اس بات کی اہمیت بڑھ نہیں گئی کہ فوری طور پر امریکہ میں پاکستانی سفارتخانے میں موجود سفارتی کیبل کی نقل اور دفتر خارجہ کی فراہم کردہ سفارتی کیبل دونوں کا موازنہ کیا جائے۔
یہ موازنہ اس لئے ضروری ہے کہ معاملہ صرف ان دوسوا دوسو خاندانوں کا نہیں جن سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن کی جماعتوں کے رہنما ارکان قومی اسمبلی یا ا پوزیشن کے حامی ارکان اسمبلی و رہنما ہیں بلکہ معاملہ یہ ہے کہ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ عمران خان اور ان کے ساتھی غداری کا جو بیانیہ تشکیل دے کر لوگوں کو اُکسارہے ہیں اس سے کسی وقت بھی کوئی تماشا (اصل لفظ احتیاطاً نہیں لکھا) لگ سکتا ہے۔
آگ اور نفرت سے بھرا تماشا ایک بار لگ گیا تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا اسے سمجھنے کے لئے بہت زیادہ غوروفکر کی ضرورت نہیں۔
مذہب اور حب الوطنی کے ہتھیاروں سے مخالفین کے ساتھ کیا کیا جاسکتا ہے اس کی ایک نہیں درجنوں مثالیں موجود ہیں۔ بالائی سطور میں نئی کہانی کے تین حصے عرض کردیئے اب آیئے ان کہانیوں کی طرف جنہیں پر لگے ہوئے ہیں ابھی تک تو یہ کہانیاں افواہوں سے زیادہ کچھ نہیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ان میں ’’دم‘‘ بڑھے گا۔
کیا ہم ان کہانیوں کو اس طور سمجھ لیں کہ خطے میں بدلتی صورتحال اور دیگر مسائل کی وجہ سے یہ سارا ڈرامہ سابق حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے کسی ایک حصے کا مشترکہ چائلڈ بے بی ہے اور ریاست کے دوسرے ستون اس سے پیشگی آگاہ تھے؟

پیشگی آگاہ کا مطلب وہ اعتماد کے ساتھ اس میں شامل ہیں۔ ذاتی طور پر ہمیں اس پر کچھ تحفظات یا یوں کہہ لیجئے خوش فہمی سی ہے مگر جوں جوں وقت گزر رہا ہے اس موقف کو نہ صرف پذیرائی مل رہی ہے بلکہ اب یہ کہا جانے لگا ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کو دیس نکالا دینے کے لئے باقاعدہ منصوبہ بنایا گیا اور اس منصوبے کے سارے فریق اب تک اپنا اپنا کردار خوش اسلوبی سے نبھارہے ہیں
اس لئے کسی کو فکر نہیں کہ اتوار 3اپریل کو جنم لینے والے آئینی بحران کی سنگینی میں اضافے کے باوجود کئے جانے والے ’’ٹچخرے‘‘ منصوبے کے مطابق ہی ہیں۔
ہم وضاحت کے ساتھ سادہ لفظوں میں عرض کئے دیتے ہیں۔ کہا یہ جارہا ہے کہ کہیں اس امر پر اتفاق رائے موجود ہے کہ پارلیمانی جمہوری نظام اور 1973ء کے دستور کو چلتا کیا جائے تاکہ طبقاتی جمہوریت سے بھی جان چھوٹے اور سیاسی جماعتوں سے بھی
ملک میں بس دو قوتیں ہوں اولاً اسٹیبلشمنٹ اور ثانیاً اس کی تابعدار سیاسی قیادت۔ ایک ریفرنڈم کے ذریعے 1973ء کے دستور کی جگہ صدارتی نظام (اسے اسلامی صدارتی نظام کہہ لیجئے) کا ڈول ڈالا جائے۔
امریکہ یورپ مخالف فضا اسی لئے بنائی جارہی ہے۔
اگر ایسا ہے تو یہ عرض کرنے میں رتی برابر بھی تامل نہیں ہے کہ آگ سے کھیلنے کے شوق میں سب کے دامن جلیں گے۔
1973ء کا دستور جغرافیائی وحدت کی واحد ضمانت ہے۔ پارلیمانی جمہوریت میں پھر بھی اکائیوں کو کچھ حقوق حاصل ہیں۔
اسلامی صدارتی نظام کا مطلب ایک اکائی کے بڑے حصے کو مستقل طور پر ریاست کی باگ ڈور تھمادی جائے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ عارضی بندوبست اصل میں ان قوتوں کو بلیک میل کرنے کے لئے ہے جو پچھلی نصف صدی سے ہمارا خرچہ اٹھارہی تھیں۔
خدا کرے یہ افواہیں ہی ہوں ان میں رتی برابر صداقت نہ ہو۔ مکرر عرض ہے کہانیوں اور افواہوں اور نئے نظام کے قصوں ان تینوں کی تردید ہوسکتی ہے صرف ایک بات سے وہ یہ کہ عوام کو سفارتی کیبل کی بنیاد پر لگائے جانے والے سنگین الزامات کی حقیقت سے آگاہ کیا جائے، یہ کام کس نے کرنا ہے یہ سب جانتے ہیں۔ ایسا نہ ہوا تو جو زہر بھرا جارہا ہے اس کا خمیازہ سبھی کو بھگتنا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author