وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قدوسی صاحب خدا کے فضل سے ابھی بقید حیات ہیں، نبض کی ضرب برابر سنائی دیتی ہے مگر اوبھی اوبھی سانسیں لے رہے ہیں۔ وقت کے جوار بھاٹے سے کس کو رستگاری ہے۔ جرس رخصت کی صدا کاتک کے کہر زدہ چاند کی طرح بالیں پہ لرز رہی ہے، بات کرتے میں گلا رندھ جاتا ہے۔ ستر سے کیا کم رہے ہوں گے مگر ابھی چند ہفتے پہلے تک الہڑ بچھیرے کی طرح کدکڑے لگاتے پھر رہے تھے۔ خدا رکھے، دو درجن سے زائد خوش گو طوطیان زودیاب، وظیفہ یاب در خدمات سررشتہ خفیہ، تو اپریل 2019 سے بمطابق فرمان شاہی انگنائی میں رونق دے رہے تھے۔ صحافتی حرم سرا کی گلگشت کے قصے گزری صدی تک جاتے ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں سے جس جواں سال نے شہر پناہ پر قلم کی کمند ڈالنا چاہی، قدوسی صاحب کی مدح میں قافیہ پیمائی سے مشق شروع کی۔ اسلام آباد کے ڈھابے سے میڈیا کے اوج ثریا تک کا سفر ایک فون کال میں طے پا گیا۔
نامعلوم کس ناشدنی کی آہ سرد نے کام دکھایا۔ جولائی 2018 سے اکتوبر 2021 تک مورخ تاریخ فرشتہ لکھتا تھا۔ اب دربار عزازیل کا قصہ درپیش ہوا۔ 2022 بمطابق سال چہارم جلوس دودمان پوٹھوہار سایہ زوال میں نمودار ہوا۔ سابق آموختہ واضح تھا۔ جمہوریت میں کیڑے ڈالو۔ سیاست دان کو گالی دو۔ کرپشن ایک سکہ خام مگر مقبول در عوام تھا۔ مغرب کی ہجو کہو۔ دیار مغرب میں گل چھرے اڑاتی اپنی ذریات کا ذکر ذنہار نہیں کرنا۔ تنور شکم میں تراتر اترتے نان جویں موسوم بہ پاپا جونز سے کان لپیٹے رہو۔ پیپسی کولا کا ذکر کرنے سے پہلے کوزہ پشت صحافیوں سے پوچھ لو کہ مغربی جریدے ٹائم کے کس شمارے کی فروخت پر ان کے مدوران عقبی امرتسری تنور سے نکلتی باقر خانی جیسے تند رو ہو جاتے تھے۔ ابراہام لنکن کا ’منقسم مکان‘ والا قول سب جانتے ہیں۔ ہم نے اپنے ملک میں منقسم بیانیہ ہی نہیں، منقسم بیان کی افتاد بھی جھیلی۔ منظور شدہ بیانیے نے جارحانہ طرز بیان اختیار کیا۔ منظور نظر صحافیوں کے قلم کی روانی اور زور گفتار کے پس پشت کوتوال سے گٹھ جوڑ کارفرما تھا۔ کھل کے لکھو اور سینے پر ہاتھ مار کے بولو کہ ریاستی موقف سے اختلاف اور نظریاتی لکیر سے انحراف کی جسارت کرنے والے صحافی شرپسند، ملک دشمن، دین بیزار، بد کردار، طرز مغرب سے مرعوب اور بیرونی قوتوں کے زرخرید طفیلی ہیں۔ اس منہ زور بیان کے مقابل طرز فغاں کی مثال دیکھنا ہو تو درویش کی کج مج بیانی دیکھ لیجئے۔ کہیں ادب کی آڑ لی تو کہیں اساطیری اشاروں سے کام چلایا۔ کہیں فراموش شدہ تاریخ کی پناہ لی تو کہیں تجرید کی اوٹ سے بات کی۔ آسان فہم لغت میں چند در چند مشکلات تھیں سو ایسا طرز کلام اپنایا کہ بھلے ابلاغ کی پرواز میں کوتاہی آئے مگر قلم کے قدم کٹنے نہ پائیں۔ کہتے چلو فسانہ ہجراں / اب بھی رات کی رات پڑی ہے۔
اب اس اجمال کی کچھ پرتیں بیان ہو جائیں۔ ریاست اور حکومت دو مختلف مظاہر ہیں۔ ریاست دستور سے جنم لینے والی وہ قائم بالذات اکائی ہے جس سے وفاداری ہر شہری کا فرض ہے۔ دوسری طرف حکومت سیاسی عمل کے نتیجے میں قائم ہونے والا میعادی بندوبست ہے۔ سیاست پالیسی کی ترجیحات میں اختلاف رائے کا نام ہے۔ تحکمانہ ریاست مخصوص مفادات کے تحفظ اور وسائل پر ناجائز اجارے کی غرض سے نظریاتی مفروضے گھڑ کے انہیں واحد قابل قبول سیاسی موقف قرار دیتی ہے۔ گویا ریاست اور حکومت کے درمیان امتیازی لکیر مٹا دی جاتی ہے۔ منظور شدہ سرکاری بیانیے سے اختلاف کرنے والے ریاست دشمن قرار پاتے ہیں۔ درحقیقت ریاست دشمنی کے نام پر سیاسی اختلاف کا دستوری حق سلب کر لیا جاتا ہے۔ انحرافی آواز کو محض ریاستی طاقت کا سامنا نہیں ہوتا بلکہ یہ دشواری بھی درپیش ہوتی ہے کہ ریاستی موقف سے اختلاف کی سچائی ثابت کرنے کے لیے تاریخ کے فیصلے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ حالیہ عشروں میں ہمارے ریاستی بیانیے کے کچھ زاویے دیکھئے۔ افغانستان میں مداخلت کے مخالف راندہ درگاہ قرار پائے۔ اب چالیس برس بعد معلوم ہوا کہ مغربی سرحد پر بیٹھے بٹھائے ایک غیر ضروری محاذ کھل گیا ہے۔ ریاست نے مذہبی تشخص اختیار کیا تو اس کے نتائج سے بار بار آگاہ کیا گیا۔ اب معلوم ہوا کہ ریاست منہ زور مذہبی عناصر کے ہاتھوں یرغمال ہو چکی ہے۔ ریاست نے غیر ترقیاتی شعبوں پر ملکی وسائل خرچ کئے۔ نتیجہ یہ کہ قومی معیشت کی بدھیا بیٹھ گئی۔ پیداواری حجم سکڑ گیا اور عوام کا معیار زندگی ہم عصر دنیا سے پیچھے رہ گیا۔ غیر جانب دار اور باوقار خارجہ پالیسی سے انکار ممکن نہیں لیکن ہمارے معاشی، تمدنی اور علمی مفادات مغرب سے بندھے ہیں۔ ہم نے کوتاہ نظر مقامی مفادات کے لیے مغرب دشمنی کو ہوا دی۔ نتیجہ یہ کہ ملکی وقار زمیں بوس ہو گیا اور معاشی گرداب سے نجات کا راستہ نظر نہیں آتا۔ 1989ءمیں ایئر مارشل ذوالفقار علی خان نے خفیہ اداروں کی سیاسی عمل میں مداخلت سے گریز کا مشورہ دیا تھا۔ اس تجویز کو پذیرائی نہیں مل سکی۔ پرانے قصے ایک طرف رکھیے۔ اکتوبر 2011ءسے ایک سیاسی جماعت کی اندھا دھند حمایت سے سیاسی عمل کا نامیاتی ارتقا مفلوج ہوا۔ سر دھڑ کی بازی لگا کر جولائی 2018ء میں جو حکومتی بندوبست قائم کیا گیا، اب وہ اوندھے منہ پڑا ہے۔ ایک صفحے کی گمراہ کن اور غیر دستوری اصطلاح میں مضمر ناگزیر پیچیدگیوں کا ادراک نہیں کیا گیا۔ عمران خان کی تحریک انصاف تو نادیدہ ہاتھوں سے تعمیر کیا گیا ریت کا قلعہ تھی۔ موجودہ سیاسی صورت حال عمران خان کی ناکامی نہیں، سیاست میں ریاستی مداخلت کی شکست ہے۔ ایسی مداخلت 1969ء، 1971ء، 1988ء، 1999ء اور 2008ء میں بھی ناکام ہوئی۔ تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارض وطن…. جھوٹ، مبالغے، غیرحقیقت پسندی اور سازش کے اجزا سے تیار کردہ بیانیہ پھر سے لاوارث ہو چکا ہے اور قدوسی صاحب کی مدح میں قرطاس اور فرد عمل کو سیاہ کرنے والی صحافت پریشان مو اور سربزانو لب سڑک بیٹھی ہے۔
بشکریہ : ہم سب
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر