نومبر 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

زاویہ نگاہ تبدیل کیجیے||ڈاکٹر مجاہد مرزا

رہی بات جارحیت و جبرو تشدد کی تو کمیونسٹ حکومتوں ( سوویت یونین، چین اور دوسرے) نے اپنے ملکوں کے اندر انسانوں کے خلاف جارحیت و جبرو تشدد روا رکھا جبکہ سرمایہ دار ملکوں نے دوسرے ملکوں کے انسانوں کے خلاف۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں جب سوویت یونین اور اس سے وابستہ اشتراکی نظام کی بات کی جاتی ہے تو اس پر بہت تاسف کا اظہار کیا جاتا ہے کہ سوویت یونین نے مشرقی یورپ کے ملکوں میں اشتراکیت کو رواج دیے جانے، اس کی برقراری اور استحکام کی خاطر جارحیت اور جبرو تشدد اختیار کیا تھا۔
شاید ایسی بات کرنے والے یہ نہ بھولتے ہوں کہ سرمایہ دار ملکوں امریکہ ، برطانیہ، فرانس، اٹلی ، بلجیم وغیرہ نے بھی دوسرے ملکوں میں اپنی سربراری کی خاطر کبھی جارحیت اور جبرو تشدد کی راہ اختیار کرنے سے گریز نہیں کیا، جس کی تازہ مثالوں میں افغانستان، عراق اور لیبیا کی حالت زار کو پیش کیا جا سکتا ہے مگر بات کرنے والوں کو سوویت یونین کے حکام کے اعمال غیر انسانی لگتے ہیں، البتہ انہیں چین کے واقعات تقریبا” بھول جاتے ہیں۔
اشتراکیوں کی مذموم حرکات پر پردہ ڈالے جانے یا سرمایہ دار ملکوں کے حکمرانوں کی انسان دشمنی کا پرچار کیے جانے کا معاملہ نہیں ہے، معاملہ ہے تو سوویت یونین کے انہدام کو تیس برس گذر جانے کے بعد بھی پاکستان میں، قریبا” صدی پیشتر ایوسف ستالن کے دور حکومت کے انسانیت سوز واقعات کو یاد کرایا جانا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ سوویت ریاستوں خاص طور پر روسیوں کے الحاد کا ذکر کرنا بھی نہیں بھلایا جاتا۔ اگرچہ بات کرنے والے روس، یوکرین اور بیلا روس میں رائج قدامت پسند کلیسا کے ساتھ اشتراکی حکام کی معاندت کو عموما” فراموش کر دیتے ہیں۔ بات کرنے والے سبھوں کو دو چیزیں یقینا” یاد ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ "مذہب افیون ہے”، اس پر بھلا اب کیا بات کی جائے۔ اب تو "وکی پیڈیا” سبھی کو دستیاب ہے، کھول کر دیکھ لیں کہ کارل مارکس کے اس "مقولے” کے سیاق و سباق کیا ہیں اور اس فقرے سے اصل مراد کیا ہے۔ منفی پرچار ایک اہم انداز ہے جیسے پاکستان کے کمیونسٹ بھی ایک زمانے میں مولانا مودودی کی تحریروں سے وہ فقرہ اچک لیا کرتے تھے جس کے ان کے حساب سے منفی معانی نکلتے ہوں، سب جانتے ہیں کہ کس کو کیا پڑی کہ تحقیق کرتا پھرے۔ اگر بات اپنی سوچ سے لگا کھاتی ہو تو اسے مزید پھیلایا جائے۔ کسی کے خلاف منفی پرچار کرنے کا مطلب اپنے حق میں مثبت پرچار کرنا ہوتا ہے۔
دوسری بات جو متکلمین کو یاد ہوتی ہے وہ یہ کہ مساجد و مدارس بند کر دیے گئے تھے البتہ ٹیڑھے منہ سے یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ کلیسا بھی بند کیے گئے تھے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ ماسکو کی جامع مسجد ایک سو سال سے زیادہ عرصہ قبل اپنی تعمیر کے بعد سے اب تک ایک لمحے کے لیے بھی بند نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس ماسکو کے ” مسیح منجّی گرجا گھر” یعنی کرائسٹ دی سیویر کیتھیڈرل یا روسی زبان میں ہرام ہرستا سپاسیتیلیا کو ملیا میٹ کر دیا گیا تھا جس کے مقام پر بنائے گئے عوامی گرم تالابوں میں میں نے بھی ڈبکیاں لگائی تھیں۔ اس عالیشان گرجا گھر کو اس کی اپنی پرانی بنیادوں پر 1995 سے 2000 تک دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا۔
معاملہ الحاد سے بڑھ کر سیاسی تھا۔ مذہبی لوگوں نے انقلاب کے بعد "سیکیولر” حکام کے خلاف ملحد ہونے کا پراپیگنڈا کرتے ہوئے عام لوگوں میں اشتراکی نظام کے خلاف نفرت پھیلانے کا کام شروع کر دیا تھا۔ مذہبی عمال کو ان کی معاندانہ کارروائیوں کی پاداش میں گرفتار کیا گیا تو عبادت گذاروں کی تعداد جو بالعموم عام آبادی سے کئی سو گنا کم ہوا کرتی ہے، کم سے کمتر ہونا شروع ہو گئی تھی کیونکہ عام آدمی ایک تو ڈرپوک ہوتا ہے دوسرے وہ ریاست کی طاقت اور قہر دونوں ہی کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس طرح بہت زیادہ کلیسا اور کئی مساجد و مدارس کو بند کر دیا گیا تھا جنہیں بعد میں دوسرے کاموں میں لایا گیا تھا۔ مگر دوسری جنگ عظیم کے بعد کلیسا و مساجد کو بتدریج کھولا جانے لگا تھا۔ سٹالن کی موت کے بعد یہ عمل تیز تو نہ کیا گیا مگر جاری ضرور رہا تھا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے اب تک مذاہب اور مذہبی لوگ اسی طرح آزاد ہیں جس طرح باقی سب۔
رہی بات جارحیت و جبرو تشدد کی تو کمیونسٹ حکومتوں ( سوویت یونین، چین اور دوسرے) نے اپنے ملکوں کے اندر انسانوں کے خلاف جارحیت و جبرو تشدد روا رکھا جبکہ سرمایہ دار ملکوں نے دوسرے ملکوں کے انسانوں کے خلاف۔
حساب لگانا باقی ہے کہ سرمایہ داری کی مسلط کردہ دو عالمی جنگوں کے نتیجے میں زیادہ انسان مارے گئے یا اشتراکی نظام کو برقرار اور مستحکم رکھے جانے کے نتیجے میں ۔
مسلمانوں کے احزاب و غزوات اور عیسائیوں کی صلیبی جنگوں میں مارے جانے والوں کے اعداد و شمار بھی لینے ہونگے۔
محض توسیع پسندی و ہوس جہانگیری کی خاطر اسکندر مقدونی، چنگیز خان، ہلاکو خان، تیمور لنگ کی انسان کشی کا حساب بھی درکار ہے۔
تاہم پاکستان میں دانشوری کا شوق رکھنے والوں کو سوویت حکام کے مظالم کے علاوہ کسی اور کی جبروتیت و قہر روائی میں کوئی دلچسپی نہیں ۔
دانشوری کا شوق رکھنے والوں کی اصطلاح اس لیے برتی گئی ہے کہ ایسے لوگ بات کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی مشقت میں مبتلا ہوتے ہیں کہ شریک گفتگو پر اپنی علمیت ثابت کر سکیں جبکہ اگر جس سے گفتگو کی جا رہی ہو وہ متبادل ذرائع سے بھی شناسا ہو تو اس کی بات سے عموما” متفق ہونے کی بجائے ” نہیں دیکھیں نہ جی” ” پھر یہ تو انسانیت نہ ہوئی جی” قسم کے فقرے استعمال کرکے اپنی سوچ کو منجمد رکھے جانے کی سعی کی جاتی ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ کیا یہ ” کمیونزم کو محدود کرو” کی مغربی پالیسی کے تحت کی جانے والی مغز شوئی Brain washing کا نتیجہ نہیں۔
دنیا میں یہ کم و بیش طے ہو چکا ہے کہ آئندہ سوشلزم یا کمیونزم رائج کیے جانے کا طریق مسلح انقلاب کے ذریعے مسلط کیے جانے کا نہیں بلکہ کسی اور طریقے سے سماجی جمہوری رویے اپناتے ہوئے مقبول بنائے جانے کا ہوگا۔ یہ اور بات ہے کہ عقیدہ پرست ہر نظریے اور ہر مذہب میں پائے جاتے ہیں جو اپنی طرز فکر کو کسی بھی طریقے سے عام لوگوں پر ٹھونسنے کے لیے تلے ہوتے ہیں۔ طالبان اور داعش پرانی مثالیں نہیں۔
جب ایک ایسا نظریہ جو ملک کی اکثریتی بدحال آبادی کو اقلیتی خوشحال آبادی کے مقابلے میں بہتر سہولیات زندگی دینے کا دعویٰ کرے تو باوسائل اقلیت عام لوگوں کو مذہب کے نام پر اکسا کر انہیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتی ہے جس کی وجہ سے نظریے پر کاربند ان لوگوں کو جو ایک زمانے میں مسلح انقلاب کے ذریعے برسر اقتدار آئے تھے، دبانے کی خاطر سخت اور بعض اوقات سخت تر اور سخت ترین رویے اختیار کرنے پڑے تھے۔
ماضی ماضی ہو چکا۔ بائیں بازو کی سوچ رکھنے والوں کے رویے بھی بدل چکے ہیں اور دائیں بازو کی معتدل سوچ رکھنے والوں کے رویے بھی مزاحمتی کی بجائے مصالحتی ہو چکے ہیں اس لیے انسانیت کی بھلائی کی خاطر سوچوں کو ہم آہنگ کیے جانے اور کثیر انسانوں کی فلاح کے لیے کوئی مشترکہ اور بہتر انداز وضع کیے جانے سے گریز نہیں کیا جانا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author