ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیراعظم کے حالیہ دورہ روس کے حوالے سے الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث جاری ہے۔ ایک موقف یہ ہے کہ ان حالات میں پہلے سے طے شدہ دورہ منسوخ کر کے اقوام عالم میں متنازعہ ہونے سے بچا جاسکتا تھا جبکہ ایک موقف یہ ہے کہ یہ دورہ کافی پہلے سے طے شدہ تھا لہذا اس دورے کو منسوخ کرنا ممکن نہیں تھا اور اس دورے سے ملک و قوم کو بہت فائدہ ہونے جا رہا ہے۔ یہ بحث تو جاری رہے گی تاہم اس دورے کے مثبت یا منفی اثرات سامنے آنے میں کچھ وقت لگے گا۔ تاہم یہ طے ہے کہ روس یوکرائن تنازعہ سے دنیا ایک بحران کی طرف بڑھ رہی ہے لامحالہ اس کے اثرات پوری دنیا پر اپنا منفی اثر چھوڑیں گے۔
منفی اثر تو پیکا آرڈیننس نے بھی آزادی اظہار رائے پر ڈالا ہے نتیجہ یہ کہ سوائے حکومتی اراکین کے باقی تمام طبقے اس آرڈیننس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اپوزیشن کی جماعتوں نے اس کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے جبکہ صحافتی تنظیموں نے اس آرڈیننس کے خلاف مارچ کا اعلان کیا ہوا ہے۔ بارہا عرض کی ہے ایک بار پھر کہہ رہا ہوں کہ اقتدار کے مزاج اور رویے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ نون لیگ نے یہ قانون بنا کر ابتدا کی تو تحریک انصاف اس کو انتہا تک لے کے جا رہی ہے نتیجہ یہ کہ اگر یہ قانون موجود رہا تو کل یہ دونوں جماعتیں روئیں گی۔ مکافات عمل ہے کہ جو کچھ نون لیگ نے اپنی اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی کے قائدین کی جس طرح کردار کشی کی وہی کچھ تحریک انصاف نے نون لیگ کے ساتھ کیا۔ اب موجودہ حالات اور مستقبل میں تحریک انصاف کے ساتھ کیا ہو گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے
بات اگر اندازوں کی کی جائے تو کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ گزشتہ عام انتخابات میں برسراقتدار آنے والی تبدیلی سرکار ملک کی معیشت کو محض چار سال میں اس مقام پرلے آئے گی کہ عام آدمی کا جینا دو بھر ہو جائے گا۔ بجلی، گیس، پٹرول اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ نے تبدیلی کے تمام نشے ہرن کر دیے ہیں۔ روزانہ کی دیہاڑٰی یا پھر مہینے بھی کی تنخواہ وہ چھوٹی چادر بن گئی ہے جس سے سر ڈھانپیں تو پیر ننگے ہوتے ہیں اور پیر ڈھانپیں تو سر ننگا ہوتا ہے۔ مہنگائی کے سونامی نے تباہی مچا دی ہے۔ ابھی بھی کچھ بچت تھی اب خیر سے گرمیوں کا سیزن شروع ہونے جا رہا ہے اور بجلی کے بلوں نے رہی سہی کسر پوری کر دینی ہے۔ ان گرمیوں میں عوام تکلیف پہنچے گی بجلی کے بل حقیقی معنوں میں عوام کو رلائیں گے۔
اس سے قبل گندم کا بحران پیدا ہونے والا ہے جلد ہی گندم کی فصل اترنے والی ہے اور اس بار گندم حکومت کی مقرر کردہ امدادی قیمت پر کسان فروخت کرنے کو تیار نہیں ہیں مہنگی ترین کھاد اور ڈیزل کے بعد گندم کے نرخ میں اضافہ کسان کی منافع کی ہوس نہیں بلکہ اخراجات پورے کرنے کی کوشش ہوگی لہذا گندم کی مصنوعی قلت ہوگی نرخ بڑھیں گے اور پھر مہنگے داموں گندم فروخت ہوگی اور یوں عام دیہاڑی دار آدمی پس کر رہ جائے گا۔ دو وقت کی روٹی کی خاطر ہلکان ہونے والی جنتا کو شاید دو وقت کا پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہی نا ہو۔ ایک زرعی ملک کی عوام اگر مہنگا اناج خریدے گی تو یہ کس کی نا اہلی ہوگی کون ذمہ دار ہو گا اس کا اور اس نالائقی کی سزا کیا ہونی چاہیے یہ فیصلہ عوام نے ہی کرنا ہے
اور شاید عوام حکومتی نالائقیوں اور نا اہلیوں پر فیصلہ کرچکی ہے بس اس پر عمل درآمد ہونا باقی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جتنے ضمنی الیکشن ہوئے سوائے ایک دو نشستوں کے حکومتی امیدوار برے طریقے سے ہارے ہیں۔ کے پی کے میں پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابی نتائج بھی حکومت کے لیے حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ دوسرے مرحلے کے نتائج بھی پہلے سے مختلف نہیں ہوں گے۔ اس کے بعد مئی میں پنجاب میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات بھی حکومتی امیدواروں کے لیے کسی سرپرائز سے کم نہیں ہوں گے۔ اور اگر حکومتی معاشی کارکردگی اسی طرح رہی تو آئندہ سال کے عام انتخابات تحریک انصاف کے لیے قطعی خوشگوار نہیں ہوں گے
اسی مہنگائی کے خلاف پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو آج کراچی سے عوامی مارچ شروع کر رہے ہیں۔ یہ مارچ سات یا آٹھ مارچ کو اسلام آباد پہنچ کر اختتام پذیر ہو گا۔ ایک اندازے کے مطابق یہ ایک کامیاب لانگ مارچ ہو گا جس میں عوام کی ایک بڑی تعداد شرکت کرے گی۔ مارچ میں سندھ کے عوام کی شرکت قابل فہم ہے دیکھنا یہ ہے کہ جب یہ مارچ پنجاب میں داخل ہو گا تو پنجاب کی کتنی عوام نکلتی ہے۔ توقع یہی کی جا رہی ہے کہ مہنگائی سے تنگ آئے ہوئے عوام اس مارچ میں بھرپور شرکت کریں گے اور عوام کی حاضری کی بنیاد پر یہ ایک کامیاب لانگ مارچ ہو گا۔
سوال پھر بھی وہی ہے کہ کیا اس کے بعد مہنگائی کم ہو جائے گی کیا روزگار کے مواقع بڑھ جائیں گے اگر ہاں تو پھر ٹھیک ہے اگر نہیں تو پھر عوام کو اس اذیت سے نجات دلانے کے لیے لانگ مارچ کے علاوہ بھی کچھ ہونا چاہیے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اپوزیشن لانگ مارچ کے اختتام پر متفقہ طور پر وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تاریخ دے اور پھر بھرپور تیاری کے ساتھ اس عدم اعتماد کو کامیاب کرائے۔ اگر یہ عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوتی اور موجودہ حکومت مزید ایک ڈیڑھ سال حکومت کرتی ہے تو یاد رکھیں عام آدمی کی حالت مزید ابتر ہو جائے گی۔
ایسی حالت میں صرف حکومت کی ہی ساکھ خراب نہیں ہوگی بلکہ اپوزیشن کی ساکھ کو بھی دھچکا لگے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست ضرور کی جائے تاہم عام آدمی کے زندہ رہنے کی بھی تدبیر کی جائے۔ طے شدہ امر ہے کہ اس مہنگائی میں عام آدمی کا جینا اور مطمئن زندگی بسر کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو چکا ہے۔ حکومت وقت کو بھی چاہیے کہ ہوش کے ناخن لے اور عوام پر اتنا بوجھ ڈالے جتنا وہ اٹھانے کی سکت رکھتے ہوں
————————————————————-
مصنف سے رابطے کیلئے
رابطہ نمبر 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر