حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سارے دوستوں (سیاسی کارکنوں، اہل دانش اور صحافیوں) کا خیال ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کے نام پر طبقاتی نظام مسلط رہا اور ہے پھر کیوں اس نظام کے شراکت داروں میں سے ایک طبقے کی حمایت کرتے ہو؟ اپنے ان دوستوں کی بات سے کسی حد تک متفق ہوں لیکن دو باتیں مدنظر رکھنا ہوں گی
اولاً یہ کہ جمہوریت غیرطبقاتی نظام نہیں ہے اس میں سارے طبقات شریک ہوتے ہیں ہاں یہ ضرور دیکھا جاناچاہیے کہ معاشرے کے اکثریتی طبقات کا حصہ کتنا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ عوامی جمہوریت جس کے ہم ایسے طالب علم خواہش مند اور حامی ہیں اس کا راستہ اسی طبقاتی نظام کے کوچے سے نکلے گا۔
اس بات سے بھی متفق ہوں کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انتخابی عمل کو اس قدر مہنگا کردیا گیا کہ اب کونسلر کا الیکشن بھی پیسے کی طاقت سے ہی لڑا جاسکتاہے۔
دو ساعتوں کے لئے سیاسی نظام کے مختلف حصوں کے انتخابی عمل کو ایک طرف اٹھارکھئے آپ ملک میں قانون کا چہرہ سمجھی جانے والی بار ایسوسی ایشنوں کے انتخابی عمل کو دیکھ لیجئے کیسے پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتاہے۔ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی صدارت ا ور سیکرٹری شپ کے انتخابی اخراجات کسی بھی طرح صوبائی اسمبلی کے امیدوار سے کم نہیں اسی طرح صوبائی بار کونسلوں اور پاکستان بار کونسل کے ارکان کی انتخابی مہم کا بغور جائزہ لیجئے۔
دوسروں کو چھوڑیے، خود اہل صحافت کے پریس کلبوں کے انتخابات کا مشاہدہ کیجئے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انتخابی عمل پیسہ پھینک تماشا دیکھ والی مثال کی عملی تصویر ہے۔
سیاسی عمل میں پیسہ اس وقت داخل ہوا جب سیاسی جماعتوں کی نچلی سطح تک باگ دوڑ ٹھیکیدار مزاج لوگوں کے میں چلی گئی۔ آپ دستیاب سیاسی جماعتوں (ان میں مذہبی سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں) کے منتخب اداروں میں موجود ارکان کو دیکھ لیجئے۔ طبقاتی تناسب واضح ہوجائے گا۔ اب اس بات پر غور کیجئے کہ مالی طور پر آسودہ طبقات سیاسی عمل پر قابض کیسے ہوئے؟
اس کی چند وجوہات ہیں اولاً یہ کہ ہمارے یہاں ہمیشہ سے اس سوچ کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ سیاست ارے چھوڑیئے یہ تو بڑے لوگوں کا کام ہے۔ کیوں بڑے لوگوں کا کام ہے وہ عرش سے لکھواکر لائے ہیں کیا ؟
سیاسی عمل میں سیاسی کارکن کی جگہ نالی موری کے ٹھیکیداروں کا تسلط غیرجماعتی انتخابات کی بدولت ہوا۔ یہ غیرجماعتی بلدیاتی انتخابات ہوں یا قومی و صوبائی اسمبلیوں کے۔
ایک طالب علم کی حیثیت سے میری رائے یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کو 1985ء والے غیرجماعتی قومی انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ قبل ازیں دو غیرجماعتی بلدیاتی انتخابات کی وجہ سے فوجی حکومت جمہوریت دشمن سیاسی پنیری لگاچکی تھی اسی پنیری میں لوگ بالائی سطح پر یعنی قومی و صوبائی اسمبلیوں میں پہنچے ان میں سے مشکل سے چند لوگ آگے چل کر خود کو جمہوری عمل کا حصہ بناسکے۔ اکثریت کی دوسری یا تیسری نسل کی سوچ آج بھی یہی ہے کہ انہیں خلق ہی اقتدار کے ایوانوں کے لئے کیا گیا ہے۔
سیاسی عمل میں تربیت یافتہ کارکنوں کی عدم موجودگی کی ایک اور وجہ طلبا یونینوں کا نہ ہوناہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دورمیں طلباء یوننوں پر پابندی لگی تھی۔ 2008ء میں سید یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی میں طلبا یونینوں پر سے پابندی کے خاتمے کا اعلان کیا تھا مگر اس کے لئے قانون سازی نہ ہوسکی۔ اب ہفتہ بھر قبل سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے طلبا یونینوں کی بحالی کے لئے باقاعدہ قانون سازی کی ہے۔
جمہوری عمل میں طبقاتی بالادستی کی ایک اور وجہ مارشل لائی حکومتیں ہیں۔ گیارہ برس جنرل ضیاء الحق اور 10برس جنرل پرویزمشرف اقتدار میں رہے۔ تقریباً 21برسوں کے دوران کے معاملات کا تجزیہ کیجئے۔ ایک تیسری بات جسے عمومی طور پر ہم نظرانداز کرتے ہیں وہ یہ کہ اس ملک میں جب بھی آئین سے ماورا کوئی اقدام ہوتاہے تو اس کی تحسین شروع ہوجاتی ہے۔ لُولی لنگڑی جمہوریت جسے ہم طبقاتی جمہوریت کہتے ہیں جب آتی ہے تو اس کے خلاف پروپیگنڈہ شروع ہوجاتاہے۔
کبھی غور کرنے کی زحمت کیجئے کہ جمہوریت کو منہ بھر کر گالیاں دینے والوں کی شعوری سطح کیا ہے۔ مزید وضاحت سے عرض کردوں یہ لشکر پسندوں کے وارث ہیں ان کے خیال میں یہ ملک آئین، جمہوریت اور نظام سے نہیں بلکہ کسی کی طاقت کی وجہ سے قائم ہے۔
کیا ہم انسانی تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھنا چاہیں گے کہ طاقت سے قائم ریاستوں اور انکے دیوانوں کا انجام کیا ہوا؟
مکرر عرض ہے عوامی جمہوریت کا راستہ طبقاتی جمہوریت سے ہی نکل سکتاہے۔ سیاسی عمل اور نظام پر بڑے طبقات کی گرفت پر شاکی لوگوں کو آگے بڑھ کر سیاسی عمل کا حصہ بننا ہوگا۔ باہر بیٹھ کر تنقید کرتے رہنے اور محرومیوں کا رونا رونے سے بہتر ہے کہ اپنی اپنی پسند کی سیاسی جماعت کا عملی طور پر حصہ بنیں۔
یہی ایک راستہ ہے جس سے اس نظام میں جو موجود ہے توازن لانے کا۔ یہ بھی یاد رکھئے کم از کم مجھ ایسے طالب علم اپنے مطالعہ کی بنا پر یہ سمجھتے ہیں کہ غیرمتوازن نظام کوئی بھی ہو بالآخر اس کی عمارت زمین بوس ہوتی ہے۔
ایک دو نہیں درجنوں مثالی موجود ہیں۔ آپ سوویت یونین کی تحلیل کا تجزیہ کرکے دیکھ لیجئے، سارا ملبہ سامراجی قوتوں پر ڈالنے کی بجائے کمیونسٹ سوویت یونین کے نظام کا تجزیہ بہت سارے سوالات کا جواب دے دے گا۔ ایک کمیونسٹ سوویت یونین ہی کیوں۔ ہر وہ نظام جو بھلے مذاہب کی تشکیلِ ریاست کی خواہشوں سے کشید کیا گیا ہو یا انسانی نظریہ سازی سے جب بھی عدم توازن کا شکارہوا تاریخ کا حصہ ہوگیا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ نظام ، مذاہب کی ریاستی تشکیل کی خواہش سے عبارت ہو یا انسانی نظریہ سازی سے دونوں نے ابتدا میں ایک ایسے نظام کے خواب دیکھائے جس میں سماجی مساوات کے قیام کے ساتھ طبقاتی خلیج کو کم سے کم کرنے کی نوید دی گئی مگر عملی طور پر کیا ہوا۔ ہر دو طرح کے نظاموں نے نئے استحصالی طبقات کو جنم دیا۔
اب آیئے یہاں دستیاب نظام پر بات کرتے ہیں۔ یہ موقف سو فیصد درست ہے کہ موجودہ نظام چند بڑے طبقات کے مفادات کا محافظ ہے۔ ایک نہیں سینکڑوں مثالیں دی جاسکتی ہیں لیکن کیا اس استحصالی نظام کے نعم البدل ’’لشکری جمہوریت‘‘ ہوگی۔ یہ تو ہم چار بار براہ راست بھگت چکے ہیں
ایک ایسا نظام جس میں سماجی مساوات اور انصاف کا دور دورہ ہو تبھی ممکن ہے جب خود اس معاشرے کے تمام طبقات نظام کے قیام اور اسے آگے بڑھانے میں ذاتی دلچسپی لیں۔
ہمارے یہاں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سیاست کو کاروبار بنایا گیا۔ مذہبی (فرقہ وارانہ) شدت پسندی کو ہوا دی گئی۔ ایک خاص طبقے کو کعبہ کی کٙڑیوں کے طور پر پیش کیا گیا۔
احتساب کا مطلب صرف سیاسی عمل میں شریک لوگوں کا احتساب ہے، دیگر طبقات کا احتساب کون کرے گا؟ جواب ملتا ہے ان محکموں کے اندر احتساب کا اپنا نظام موجود ہے۔ اس "اپنے اندرونی نظامِ احتساب ” کی برکات گنوانا شروع کردوں توہین مقدسات کے ساتھ غداری کا فتویٰ تو کہیں نہیں گیا،
کم از کم میں یہ سمجھتاہوں کہ طبقاتی نظام میں سے متوازن عوامی جمہوریت کا راستہ نکال کر اور منزل پر پہنچ کر ہی اسے مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے پھر احتساب کا ایسا نظام بن سکتاہے جس میں سب کی جوابدہی ممکن ہو۔
ادارہ جاتی احتساب کے فراڈ کا خاتمہ اسی صورت ہوگا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ انتخابی عمل کو کاروبار بنانے کی حوصلہ شکنی سیاسی جماعتوں اور الیکشن کمیشن کو کرنا ہوگی۔ طریقہ کار وضع کیاجاسکتاہے کہ معاشرے کے عام فرد کو اگر کوئی سیاسی جماعت اس کی اہلیت پر نامزد کرتی ہے تو وہ صرف اس بات سے مار نہ کھائے کہ اس کے پاس پیسہ نہیں ہے۔
یہ بھی عرض کردوں کہ پارلیمانی جمہوریت 1973ء کے دستور کی روح کے مطابق نظام ہے افراد کی کجیوں اور دوسرے معاملات کا ملبہ نظام پر اس لئے پڑتا ہے کہ اصلاح احوال کی فوری صورت کوئی نہیں ہوتی۔
ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک بار پھر دو کام کریں، کارکن سازی اور جماعتوں کے اندر نظام احتساب کو یقینی بنائیں اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔
البتہ ہمیں سمجھناہوگا کہ جب ہم دستیاب جمہوری نظام کو کوستے ہیں تو اصل میں ہم ان قوتوں کے منصوبے کو کامیاب کرنے میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں جو جمہوریت کو اپنی بالادستی اور لوٹ مار کے راستے میں رکاوٹ سمجھتے ہیں وہ کون ہیں ایک نگاہ چاراور دوڑایئے، خود ہی سمجھ جائیں گے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر