نذیر ڈھوکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے بچپن کے نصاب میں شیر آیا کا سبق پڑہا تھا سبق یہ تھا کہ ایک چرواہا جو بکریاں چراتے تھے جب ان کا دل مخول کرنے کو کرتا وہ زور زور سے چلاتے کہ شیر آیا ہے بکریاں لے جائے گا میری مدد کی جائے چرواہے کی آواز پر لوگ لاٹھیاں اور ہتھیار لے کر وہاں پہنچ جاتے تو چرواہا قہقہے لگا کر کہتے کہ میں نے مذاق کی ہے ایک دن واقعی شیر آگیا وہ ایک ایک بکری کو شکار کرتا رہا اس دوران چرواہا زور زور سے چلاتا رہا مگر کوئی گاوں والا مدد کیلئے نہیں آیا وہ سمجھے کہ چرواہا مخول کر رہا ہے ۔
ہمارے پیارے ملک میں ماضی میں کرپشن کا بڑا شور مچایا گیا تھا کہ تھا نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی نوجوان کو ملازمتیں دینے پر بھی محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے خلاف کرپشن کا مقدمہ بنایا گیا تھا ، بجلی کی کمی ختم کرنے کیلئے نجی پاور پراجیکٹ لگانے والوں کی زندگی تنگ کرکے کرپشن تلاش کی گئی ، کرپشن کا ایسا ڈھنڈورا پیٹا جاتا رہا کہ ہمارا ملک دنیا میں تماشا بن گیا ، یہ سوال تشنہ جواب ہے کہ ہمارا ملک ہے یا لمیٹڈ کمپنی ؟ ہمارے قومی صنعتی ادارے پاکستان اسٹیل ملز کی اینٹ سے اینٹ بجائی گئی ہے کیونکہ سرمایہ داروں کو یہ قومی ادارہ پسند نہیں تھا ،دنیا بھر میں میں ایسے ادارے ملک کی مدد سے چلتے ہیں حکومت ان کا خسارہ پورا کرتی ہے تاکہ ادارہ بلا کسی رکاوٹ کے کام کرتا رہے اور پراڈکٹس جاری رکھے تاکہ نجی سیکٹر من مانی کا موقع نہ ملے ، اس طرح پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن بھی ایک قومی ادارہ ہے جعلی ڈگری رکھنے والے وزیر نے اس کی جس بے شرمی سے اس کی ساکھ ختم کی ہے اس کا خمیازہ مدتوں تک یہ قومی ادارہ ازالہ کرے گا ۔ کوٸی مانے یا نہ مانے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کی خارجہ پالیسی کسی بیواہ کی ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کی طرح دکھائی دیتی ہے رہی بات معیشت کی تو وزیراعظم نے خودکشی کرنے کی بجائے ملک کی معیشت ہی آئی ایم ایف کے حوالے کردی ہے اب تو ملک کا اسٹیٹ بنک بھی آزاد ہے ، ایسے میں صحت کارڈ کے نام پر ساڑھے چار سو ارب روپے کی مالی سہولت کاروں میں بندر بانٹ کی جائے تو ایک معمولی چوری ہی قرار پائے گی ۔ ویسے ماننا پڑے کا عمران خان اینڈ کمپنی دھیلے کی کرپشن کی بجائے سیکڑوں ارب کی چوری کرنے کی غضب کی مہارت رکھتی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ حکومت سے پوچھے گا کون کہ صحت کارڈ کے نام پر اس تاریخی ڈکیتی کا حساب کون دے گا ؟
میری درجنوں مایہ ناز ڈاکٹروں سے بات ہوئی ان کا کہنا تھا کہ 10 ارب روپے سے ایک بہت بڑا سرکاری ہسپتال بن سکتا ہے دو ارب روپے سے ہسپتال اور ڈاکٹر کالونی اور اسٹاف کی رہائش کی تعمیر، دو ارب سے جدید مشینری نصب ہو سکتی ہے ، مریضوں کے ساتھ آنے والے لواحقین کی رہائش کیلئے پچاس کروڑ سے عمارت بنائی جائے اور پانچ ارب بنک میں رکھے جائیں جس سے ماہانہ پانچ کروڑ آمدنی ہو سکتی ہے جس سے نہ صرف یوٹیلیٹی بلز ، ڈاکٹروں اور اسٹاف کی تنخواہ دیگر اخراجات کے ساتھ مریضوں کا مفت علاج ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد ادویات مہیا ہو سکتی ہیں یعنی 45 سرکاری ہسپتال بنائے جا سکتے ہیں جو اپنے تمام اخراجات میں خود کفیل ہونگی اگر ہر صوبے میں صرف دس ہسپتال بنائے جائیں تو عوام کو سرکاری طور علاج کی مفت سہولیات میسر ہو سکتی ہیں ان ہسپتال کو مزید سرکاری فنڈنگ کیضرورت بھی پیش نہیں آئے گی اور مخیر حضرات بھی اپنا حصہ ڈال کر انسانی خدمت سر انجام دینے کیلئے پیش پیش ہونگے جیسے سندھ میں ہے سندھ میں این آئی سی وی ڈی کے ذریعے دل اور دیگر امراض کا مفت علاج ہوتا ہے ، سندھ کے ایک شہر گمبٹ میں جگر اور دیگر امراض کا مفت علاج ہوتا ہے جہاں نہ صرف ملک کے کونے کونے بلکہ بیرون ملک سے لوگ مفت علاج کیلئے گمبٹ آتے ہیں جہاں ایک درویش انسانیت کے علمبردار ڈاکٹر پروفیسر بھٹی خلق خدا کا مسیحا دن رات خلق خدا کی خدمت کیلئے موجود رہتا ہے ، میں ڈاکٹر پروفیسر رحیم بھٹی کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جو محض نمائش کے لیئے نہیں مگر حقیقت میں انسانیت کے عظیم علمبردار ہیں ، رہی بات ڈاکٹر ڈاکٹر ادیب رضوی کی جو گردوں کے علاج اپنا ثانی نہیں رکھتے وہ ہیں ہی غریبوں کے مسیحا ، ڈاکٹر ادیب رضوی اللہ پاک کی طرف سے سندھ کیلئے ایک نعمت سے کم نہیں ہے ۔
سندھ میں این آئی سی وی ڈی کے ذریعے ملک بھر سے ہزاروں کی تعداد میں مریض آتے ہیں جہاں ان کا سو فیصد مفت علاج ہوتا ہے کراچی میں ایشیا کا سب سے بڑا ٹراما سینیٹر ہے ،ویسے آپس کی بات ہے کہ اگر سندھ میں کینسر ،دل، جگر اور گردوں کا مفت علاج ہو تو لازمی طور عمران خان کو تکلیف ہوگی کیونکہ ان کے کاروبار کا نقصان ہوتا ہے یہ ہی وجہہ ہے کہ نیب این آئی سی وی ڈی کے خلاف سرگرم رہا ہے ۔ غور طلب بات یہ ہے صحت کارڈ کے لیئے ہر سال 450 ارب رکھے جائیں گے جو ناقابل آڈٹ ہیں کیونکہ اس کارڈ کے ذریعے صرف نجی ہسپتالوں میں علاج ہوگا در اصل اس کو ایک طرح سے جدید کرپشن ہی کہا جا سکتا ہے اس کارڈ کے ذریعے ادویات بھی نہیں مل سکیں گی، شوگر ،کھانسی اور بخار کا علاج بھی نہیں ہوگا ۔
دوسری اہم بات یہ ہے سرکاری ہسپتالوں کو غیر موثر کرنے کی بھی ایک سازش کہا جا سکتا ہے ۔ ویسے بھی ملک کو جادو کے ذریعے چلانے کی مشق ہو رہی ، ایمانداری کا ڈھنڈورا پیٹنے کا خمیازہ قوم بھگت رہی ہے اب کرامات نے اپنا اثر دکھانا ہے کل صرف یہ کہا جائے گا کہ وہ اقتدار میں لائے گئے ،انہوں نے تباہی کی اور چلے گئے۔
۔یہ بھی پڑھیں:
لیڈر جنم لیتے ہیں ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
شاعر اور انقلابی کا جنم۔۔۔ نذیر ڈھوکی
نیب یا اغوا برائے تاوان کا گینگ ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
ڈر گئے، ہل گئے، رُل گئے، جعلی کپتان ۔۔۔نذیر ڈھوکی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ