محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلموں میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے عنوان میں دیا گیا فقرہ سمجھنا مشکل نہیں۔ بھارتی فلموں کے حوالے سے یہ بہت مشہور اور عام جملہ ہے۔ فلمیں نہ دیکھنے والوں یا اردو/ہندی فلموں کوبے وقعت سمجھ کر نظرانداز کرنے والوں کے لئے تھوڑی سی وضاحت کر دیتا ہوں۔ ایک مشہور کامیڈی فلم ہیرا پھیری میں ایک اداکار جب بھی ساتھی اداکار سے بے وقوف بننے لگتا، اس سے کسی غلط کاغذ پر دھوکے سے دستخط کرائے جا رہے ہوں یا اسی طرح کا کوئی اور جھوٹ تو اسے یہ جملہ سنائی دیتا، گونج دار آواز میں …. ”سب گول مال ہے“۔ وہ چونک کر سوالات کرنا شروع کر دیتا، اگرچہ فلم میں ہر بار وہ چرب زبانی کے ہاتھوںبے وقوف ہی بنتا رہا۔ بعد میں گول مال کے نام سے کامیڈی فلموں کی ایک پوری سیریز بنی، روایتی مسالہ فلم جو عقل ومنظق سے عاری مگر پنجابی محاورے کے مطابق” شغل میلے “سے بھرپور تھیں۔
سینٹ میں اگلے روز جو کھیل کھیلا گیا، اسے دیکھ کر وہی بات یاد آئی کہ سب گول مال ہے۔ ہماری قومی سیاست میں الا ماشااللہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کا یہ کردار رہا ہے۔آئین، جمہوریت، سیاسی روایات کا سب نام لیتے ہیں۔ بعض تو باقاعدہ مالا جپتے ہیں، عملی طور پر ان کا کسی چیز سے کوئی تعلق نہیں۔ صرف مفادات کی بنیاد پر سیاست ہو رہی ہے۔حکمران جماعت ہو یا حزب اختلاف ان سب کا مرکزی اصول یہی ہے ۔ہم عوام بے وقوف ہیں کہ ان کی خاطر مرنے مارنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔
سینٹ میں واضح طور پر اپوزیشن جماعتوں نے ملی بھگت کر کے اپنے چند اراکین کو حاضر نہیں ہونے دیا اور یوں سٹیٹ بنک کے حوالے سے ترمیم منظور ہوگئی۔ یوسف رضا گیلانی کے غیر حاضر ہونے کی تو کوئی تک ہی نہیں تھی۔ وہ اپوزیشن لیڈر ہیں، انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ حکومت یہ ترمیم سینٹ سے منظور کرانے کے لئے مجبور ہے اور ترمیم آنے والی ہے۔ وہ دانستہ غیر حاضر رہے ۔ سینٹ میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بڑا معرکہ لڑا جا رہا تھا اور گیلانی صاحب آرام سے ملتان گھر میں آرام فرماتے رہے۔یہی جے یوآئی کے سینیٹر طلحہ محمود نے کیا۔اخباری اطلاعات کے مطابق اے این پی کے بلوچستان سے منتخب سینیٹر بھی عین بحران کے وقت سینٹ سے باہر تشریف لے گئے تاکہ حکومت کے لئے ایک ووٹ کی اکثریت لینا ممکن ہوپائے۔ ویل ڈن سر۔
ایک آدھ بارپہلے بھی یہ بات لکھی تھی،پچھلی صدی کے لیجنڈری ادیب گارشیا مارکیز نے ہمینگوے کے حوالے سے ایک خوبصورت بات کہی کہ بڑے ادب کے لئے صرف بڑا ادیب نہیں بلکہ بڑا قاری بھی ضروری ہے۔ ایسا قاری جو ادیب کو ٹف ٹائم دے ، تب جا کر شاہکار لکھے جاتے ہیں۔ مارکیز اور ہمینگوئے کے کہنے کا مقصد شائد یہ تھا کہ اگرپڑھنے والے اپنے پسندیدہ ادیب کی کمزور تحریر پر بھی واہ واہ کریں گے تو اسے کیا پڑی ہے کہ اپنی جان گھلائے اور زیادہ محنت کر کے لکھے؟ البتہ اگر قاری میچور اور اچھا ذوق رکھتے ہیں تو وہ اعلیٰ ادب کا تقاضا ہی کریں گے ، ادیب کو بھی تب اپنی ہڈیاں گھلانا پڑیں گی۔
سیاست اور جمہوریت کے لئے بھی یہی فارمولا منطبق ہوتا ہے۔ سیاسی کارکن جب تک پختہ خیال، باشعور اور سمجھدار نہ ہو، تب تک سیاسی جماعتوں میں تبدیلی کی خواہش ہی فضول اور بے کار ہے۔ سیاسی قائدین کو کیا پڑی ہے کہ اپنی جماعتوں میں ازخود اصلاحات لے آئیں؟ جب کارکن لیڈروں کو دیوتا سمجھیں، ان کی ہر غلطی ، ہر بلنڈر کا دفاع کریں تو پھر سیاست میں شخصیت پرستی ہی رواج پائے گی۔
اب یہی دیکھ لیں کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ان اراکین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گی، جنہوں نے انہیں سینٹ میں شرمندہ کرایا ہے۔ وجہ یہی ہے کہ انہیں عوام کے سامنے سرخرو ہونے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔جب آئی ایم ایف یا دیگر عالمی اداروں کی بات ہو، اسٹیبلشمنٹ کی کوئی خاص پلاننگ ہو، پھر حزب اقتدار اور حزب اختلاف مزے سے مل کر قانون سازی کر ڈالتے ہیں۔ہوشیاری سے عین وقت پر اسمبلی سے واک آﺅٹ کر دیا جاتا ہے یا پھر کسی حیلے بہانے سے چند اراکین غیر حاضر ہوجاتے ہیں، نہ آنے والوں کے خلاف کبھی کارروائی نہیں ہوتی۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ہر جماعت میں کم وبیش یہی حال ہے۔ پیپلزپارٹی میں تو خیر زرداری صاحب کا اشارہ نہ ماننے والوں کے لئے جگہ ہی نہیں۔ وہاں تو کئی بزعم خود انقلابی بھی ٹسوے بہا کر اپنی مرضی کے خلاف قانون سازی کی حمایت کر ڈالتے ہیں۔ ان میں سے کسی کو جرات نہیں کہ سندھ حکومت کی بدترین کارکردگی اور کرپشن پر آواز اٹھا سکے۔ کوئی یہ تک نہیں پوچھتا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی صاحبزادیوں کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ لاڑکانہ میں آوارہ کتوں کے مارے جانے کی مہم رکوا دیں اور یوں کئی معصوم بچوں کی جانیں ضائع کرانے کا باعث بنیں۔ وہ بے شک بی بی کی بیٹیاں ہیں، بلاول کی بہن، مگر ان کے پاس کوئی اختیار نہیں، وہ رکن اسمبلی تک بھی نہیں۔ کبھی، کسی بھی فورم پر پارٹی کے اندر یہ سوال نہیں اٹھایا جائے گا۔ یہ ممکن ہی نہیں۔ بلاول بھٹو جو مرضی کریں، کیسا بونگا، بچکانہ بیان دے دیں، نہایت مصنوعی انداز میں تقریرفرمائیں، جہاں آنسو ٹپکانے چاہیںوہاں کھلکھلانے کا تاثر دیں، ان پر کوئی تنقید نہیں کرے گا۔ کوئی یہ نہیں کہے گا کہ بھٹو کا نواسا اور بی بی کا بیٹا ہے، اسے اپنی مرضی سے کچھ بولنے دو،جو وہ بول رہا ہے اسے سمجھ تو رہا ہو۔
مسلم لیگ ن میں بھی یہی سب کچھ ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے۔ شریف برادران سے اختلاف کرنے والے پارٹی میں رہ ہی نہیں سکتے۔ وہ جتنا مرضی متضاد بیانیہ چلائیں، انقلابی نعرے لگائیں اور پھر سر جھکا کر پرو گورنمنٹ ، پرو اسٹیبلشمنٹ قانون سازی پر دستخط کر دیں،کوئی مسلم لیگی احتجاج نہیں کرے گا۔ مسلم لیگی کارکن اپنے قائدین سے کبھی یہ سوال نہیں پوچھتے کہ حضور آپ جو کہتے ہیں، اس پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ہمیں انقلاب کی طرف دھکیلتے اور خود ڈیل کر کے مزے سے باہر چلے جاتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کی پوری سیاست مختلف سمجھوتوں، مفاہمتوں اور اپنے مفادات کی خاطر جوڑ توڑ پر مشتمل ہے۔ اسے وہ عملیت پسندی کا نام دیتے ہیں۔ ان کے عقیدت مند اور مداح اس پر واہ واہ کرتے اور انہیں امام سیاست قرار دیتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے دو سال پہلے اپنا نام نہاد آزادی مارچ کیا اور اسلام آباد دھر نا دیا۔ مارچ اور دھرنے سے پہلے بخوبی اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ بری طرح ناکام ہوگا اور مولانا کے ہاتھ شرمندگی اور ندامت کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔ میں نے یہ بات انہی کالموں میں لکھی تو مولانا کے بہت سے حامی اور ان کے کارکن خاکسار سے سخت ناراض ہوگئے، بعض تو ابھی تک برہم ہیں۔ لانگ مارچ اور دھرنا اپنے منطقی انجام پر پہنچا تو اس پر کالم لکھا کہ یہی سب کچھ کرنا تھا تو اتنا شور شرابا کیوں کیا؟ اس پر ان کے حامیوں نے مولانا کے پلان بی اور سی کا حوالہ دیا کہ ابھی بہت کچھ ہے۔ ہر ایک نے دیکھ لیا کہ وہ متبادل پلان بھی کہاں گئے اور دو سال بیت گئے، کچھ نہیں ہوا۔ اس بار بھی اگرلانگ مارچ اور دھرنا مقتدرقوتوں کے ساتھ مفاہمت کے بغیر کیا گیا توپہلے جیسا حال ہوگا۔
تحریک انصاف تو عملی طور پر عمران خان کا فین کلب ہی ہے۔ حکومت میں آ کر انہوں نے ثابت کر دیا کہ خان صاحب جتنی بونگیاں ماریں، جس حد تک غیر ذمہ داری اور نااہلی کا مظاہرہ کریں،پارٹی میں کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں۔ کسی رکن اسمبلی ، لیڈر یا کارکن کی جرات نہیں کہ وہ خان صاحب سے پوچھیں کہ آپ کے فیصلے بار بار غلط کیوں ہوتے ہیں؟ افراد کی سلیکشن میں آپ سے مسلسل بھیانک غلطیاں کیوں ہو رہی ہیں؟آپ اگر مردم شناس نہیں تو اہم تقرر کے لئے الگ سے تجربہ کار لوگوں پر مشتمل کمیٹی بنا دیں۔ خان صاحب جب افسوسناک جرات اور خوفناک حد تک غلط بیانی کی انتہا پر جا کر اپنے وسیم اکرم پلس کی تعریف کرتے ہیں تو کسی نے ان سے نہیں پوچھا ،صاحب آپ کو جو نظر آرہا ہے، وہ پوری قوم کی نظروں سے کیوں اوجھل ہے؟ یہ تو ممکن ہے کہ کسی گلوکار کا گایا نغمہ کسی کو پسند آئے، دوسرے کا ناپسند۔ کوئی فلم یا کتاب ایک حلقے کو پسند، دوسرے کو ناپسند ہوسکتی ہے، انتظامی معاملات میں ایسا نہیں ہوتا۔ اچھی انتظامیہ ہوگی یا نہیں ہوگی۔ کسی جگہ پر صفائی ہوگی یا نہیں ہوگی۔ ایسا نہیں کہ کوئی کہے فلاں سڑک صاف ہے اور دوسرا کہے کہ نہیں یہ گندی ہے۔ بعض چیزیں امر واقعہ ہوتی ہیں، ان سے انکار ہٹ دھرمی اور بے وقوفی کہلاتی ہے۔ اتنی سادہ بات مگر اپنے لیڈر کو کوئی انصافین بتانے کو تیار نہیں۔
اس لئے پیارے پڑھنے والو، یہ بات سمجھ لو کہ اپنی ساخت، مزاج اور عمل میں ہماری بڑی تمام سیاسی جماعتیں ایک سی ہیں۔ ان کے قائدین کا مخصوص سٹائل ہے اور وہ اپنے مفادات کی خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں، ہر قسم کی مفاہمت، ہر جوڑ توڑ، ہر طرح کی ڈیل ۔ یہ بات ہمیں سمجھ نہیں آتی اور ہم لوگ ان کی خاطر لڑنے مارنے پر تیار ہوجاتے ہیں، اپنے برسوں پرانے تعلق خراب کر بیٹھتے ہیں۔ ایک بار یہ بات مان اور سمجھ لو کہ سب گول مال ہے۔ زندگی تب آسان ہوجائے گی۔
سینٹ میں اگلے روز جو کھیل کھیلا گیا، اسے دیکھ کر وہی بات یاد آئی کہ سب گول مال ہے۔ ہماری قومی سیاست میں الا ماشااللہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کا یہ کردار رہا ہے۔آئین، جمہوریت، سیاسی روایات کا سب نام لیتے ہیں۔ بعض تو باقاعدہ مالا جپتے ہیں، عملی طور پر ان کا کسی چیز سے کوئی تعلق نہیں۔ صرف مفادات کی بنیاد پر سیاست ہو رہی ہے۔حکمران جماعت ہو یا حزب اختلاف ان سب کا مرکزی اصول یہی ہے ۔ہم عوام بے وقوف ہیں کہ ان کی خاطر مرنے مارنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔
سینٹ میں واضح طور پر اپوزیشن جماعتوں نے ملی بھگت کر کے اپنے چند اراکین کو حاضر نہیں ہونے دیا اور یوں سٹیٹ بنک کے حوالے سے ترمیم منظور ہوگئی۔ یوسف رضا گیلانی کے غیر حاضر ہونے کی تو کوئی تک ہی نہیں تھی۔ وہ اپوزیشن لیڈر ہیں، انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ حکومت یہ ترمیم سینٹ سے منظور کرانے کے لئے مجبور ہے اور ترمیم آنے والی ہے۔ وہ دانستہ غیر حاضر رہے ۔ سینٹ میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بڑا معرکہ لڑا جا رہا تھا اور گیلانی صاحب آرام سے ملتان گھر میں آرام فرماتے رہے۔یہی جے یوآئی کے سینیٹر طلحہ محمود نے کیا۔اخباری اطلاعات کے مطابق اے این پی کے بلوچستان سے منتخب سینیٹر بھی عین بحران کے وقت سینٹ سے باہر تشریف لے گئے تاکہ حکومت کے لئے ایک ووٹ کی اکثریت لینا ممکن ہوپائے۔ ویل ڈن سر۔
ایک آدھ بارپہلے بھی یہ بات لکھی تھی،پچھلی صدی کے لیجنڈری ادیب گارشیا مارکیز نے ہمینگوے کے حوالے سے ایک خوبصورت بات کہی کہ بڑے ادب کے لئے صرف بڑا ادیب نہیں بلکہ بڑا قاری بھی ضروری ہے۔ ایسا قاری جو ادیب کو ٹف ٹائم دے ، تب جا کر شاہکار لکھے جاتے ہیں۔ مارکیز اور ہمینگوئے کے کہنے کا مقصد شائد یہ تھا کہ اگرپڑھنے والے اپنے پسندیدہ ادیب کی کمزور تحریر پر بھی واہ واہ کریں گے تو اسے کیا پڑی ہے کہ اپنی جان گھلائے اور زیادہ محنت کر کے لکھے؟ البتہ اگر قاری میچور اور اچھا ذوق رکھتے ہیں تو وہ اعلیٰ ادب کا تقاضا ہی کریں گے ، ادیب کو بھی تب اپنی ہڈیاں گھلانا پڑیں گی۔
سیاست اور جمہوریت کے لئے بھی یہی فارمولا منطبق ہوتا ہے۔ سیاسی کارکن جب تک پختہ خیال، باشعور اور سمجھدار نہ ہو، تب تک سیاسی جماعتوں میں تبدیلی کی خواہش ہی فضول اور بے کار ہے۔ سیاسی قائدین کو کیا پڑی ہے کہ اپنی جماعتوں میں ازخود اصلاحات لے آئیں؟ جب کارکن لیڈروں کو دیوتا سمجھیں، ان کی ہر غلطی ، ہر بلنڈر کا دفاع کریں تو پھر سیاست میں شخصیت پرستی ہی رواج پائے گی۔
اب یہی دیکھ لیں کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ان اراکین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گی، جنہوں نے انہیں سینٹ میں شرمندہ کرایا ہے۔ وجہ یہی ہے کہ انہیں عوام کے سامنے سرخرو ہونے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔جب آئی ایم ایف یا دیگر عالمی اداروں کی بات ہو، اسٹیبلشمنٹ کی کوئی خاص پلاننگ ہو، پھر حزب اقتدار اور حزب اختلاف مزے سے مل کر قانون سازی کر ڈالتے ہیں۔ہوشیاری سے عین وقت پر اسمبلی سے واک آﺅٹ کر دیا جاتا ہے یا پھر کسی حیلے بہانے سے چند اراکین غیر حاضر ہوجاتے ہیں، نہ آنے والوں کے خلاف کبھی کارروائی نہیں ہوتی۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ہر جماعت میں کم وبیش یہی حال ہے۔ پیپلزپارٹی میں تو خیر زرداری صاحب کا اشارہ نہ ماننے والوں کے لئے جگہ ہی نہیں۔ وہاں تو کئی بزعم خود انقلابی بھی ٹسوے بہا کر اپنی مرضی کے خلاف قانون سازی کی حمایت کر ڈالتے ہیں۔ ان میں سے کسی کو جرات نہیں کہ سندھ حکومت کی بدترین کارکردگی اور کرپشن پر آواز اٹھا سکے۔ کوئی یہ تک نہیں پوچھتا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی صاحبزادیوں کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ لاڑکانہ میں آوارہ کتوں کے مارے جانے کی مہم رکوا دیں اور یوں کئی معصوم بچوں کی جانیں ضائع کرانے کا باعث بنیں۔ وہ بے شک بی بی کی بیٹیاں ہیں، بلاول کی بہن، مگر ان کے پاس کوئی اختیار نہیں، وہ رکن اسمبلی تک بھی نہیں۔ کبھی، کسی بھی فورم پر پارٹی کے اندر یہ سوال نہیں اٹھایا جائے گا۔ یہ ممکن ہی نہیں۔ بلاول بھٹو جو مرضی کریں، کیسا بونگا، بچکانہ بیان دے دیں، نہایت مصنوعی انداز میں تقریرفرمائیں، جہاں آنسو ٹپکانے چاہیںوہاں کھلکھلانے کا تاثر دیں، ان پر کوئی تنقید نہیں کرے گا۔ کوئی یہ نہیں کہے گا کہ بھٹو کا نواسا اور بی بی کا بیٹا ہے، اسے اپنی مرضی سے کچھ بولنے دو،جو وہ بول رہا ہے اسے سمجھ تو رہا ہو۔
مسلم لیگ ن میں بھی یہی سب کچھ ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے۔ شریف برادران سے اختلاف کرنے والے پارٹی میں رہ ہی نہیں سکتے۔ وہ جتنا مرضی متضاد بیانیہ چلائیں، انقلابی نعرے لگائیں اور پھر سر جھکا کر پرو گورنمنٹ ، پرو اسٹیبلشمنٹ قانون سازی پر دستخط کر دیں،کوئی مسلم لیگی احتجاج نہیں کرے گا۔ مسلم لیگی کارکن اپنے قائدین سے کبھی یہ سوال نہیں پوچھتے کہ حضور آپ جو کہتے ہیں، اس پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ہمیں انقلاب کی طرف دھکیلتے اور خود ڈیل کر کے مزے سے باہر چلے جاتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کی پوری سیاست مختلف سمجھوتوں، مفاہمتوں اور اپنے مفادات کی خاطر جوڑ توڑ پر مشتمل ہے۔ اسے وہ عملیت پسندی کا نام دیتے ہیں۔ ان کے عقیدت مند اور مداح اس پر واہ واہ کرتے اور انہیں امام سیاست قرار دیتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے دو سال پہلے اپنا نام نہاد آزادی مارچ کیا اور اسلام آباد دھر نا دیا۔ مارچ اور دھرنے سے پہلے بخوبی اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ بری طرح ناکام ہوگا اور مولانا کے ہاتھ شرمندگی اور ندامت کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔ میں نے یہ بات انہی کالموں میں لکھی تو مولانا کے بہت سے حامی اور ان کے کارکن خاکسار سے سخت ناراض ہوگئے، بعض تو ابھی تک برہم ہیں۔ لانگ مارچ اور دھرنا اپنے منطقی انجام پر پہنچا تو اس پر کالم لکھا کہ یہی سب کچھ کرنا تھا تو اتنا شور شرابا کیوں کیا؟ اس پر ان کے حامیوں نے مولانا کے پلان بی اور سی کا حوالہ دیا کہ ابھی بہت کچھ ہے۔ ہر ایک نے دیکھ لیا کہ وہ متبادل پلان بھی کہاں گئے اور دو سال بیت گئے، کچھ نہیں ہوا۔ اس بار بھی اگرلانگ مارچ اور دھرنا مقتدرقوتوں کے ساتھ مفاہمت کے بغیر کیا گیا توپہلے جیسا حال ہوگا۔
تحریک انصاف تو عملی طور پر عمران خان کا فین کلب ہی ہے۔ حکومت میں آ کر انہوں نے ثابت کر دیا کہ خان صاحب جتنی بونگیاں ماریں، جس حد تک غیر ذمہ داری اور نااہلی کا مظاہرہ کریں،پارٹی میں کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں۔ کسی رکن اسمبلی ، لیڈر یا کارکن کی جرات نہیں کہ وہ خان صاحب سے پوچھیں کہ آپ کے فیصلے بار بار غلط کیوں ہوتے ہیں؟ افراد کی سلیکشن میں آپ سے مسلسل بھیانک غلطیاں کیوں ہو رہی ہیں؟آپ اگر مردم شناس نہیں تو اہم تقرر کے لئے الگ سے تجربہ کار لوگوں پر مشتمل کمیٹی بنا دیں۔ خان صاحب جب افسوسناک جرات اور خوفناک حد تک غلط بیانی کی انتہا پر جا کر اپنے وسیم اکرم پلس کی تعریف کرتے ہیں تو کسی نے ان سے نہیں پوچھا ،صاحب آپ کو جو نظر آرہا ہے، وہ پوری قوم کی نظروں سے کیوں اوجھل ہے؟ یہ تو ممکن ہے کہ کسی گلوکار کا گایا نغمہ کسی کو پسند آئے، دوسرے کا ناپسند۔ کوئی فلم یا کتاب ایک حلقے کو پسند، دوسرے کو ناپسند ہوسکتی ہے، انتظامی معاملات میں ایسا نہیں ہوتا۔ اچھی انتظامیہ ہوگی یا نہیں ہوگی۔ کسی جگہ پر صفائی ہوگی یا نہیں ہوگی۔ ایسا نہیں کہ کوئی کہے فلاں سڑک صاف ہے اور دوسرا کہے کہ نہیں یہ گندی ہے۔ بعض چیزیں امر واقعہ ہوتی ہیں، ان سے انکار ہٹ دھرمی اور بے وقوفی کہلاتی ہے۔ اتنی سادہ بات مگر اپنے لیڈر کو کوئی انصافین بتانے کو تیار نہیں۔
اس لئے پیارے پڑھنے والو، یہ بات سمجھ لو کہ اپنی ساخت، مزاج اور عمل میں ہماری بڑی تمام سیاسی جماعتیں ایک سی ہیں۔ ان کے قائدین کا مخصوص سٹائل ہے اور وہ اپنے مفادات کی خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں، ہر قسم کی مفاہمت، ہر جوڑ توڑ، ہر طرح کی ڈیل ۔ یہ بات ہمیں سمجھ نہیں آتی اور ہم لوگ ان کی خاطر لڑنے مارنے پر تیار ہوجاتے ہیں، اپنے برسوں پرانے تعلق خراب کر بیٹھتے ہیں۔ ایک بار یہ بات مان اور سمجھ لو کہ سب گول مال ہے۔ زندگی تب آسان ہوجائے گی۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر