ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفرآباد کے قریب ایک نایاب تیندوا دریا کنارے زخمی حالت میں ملا۔ اہل علاقہ نے وائلڈ لائف کو اطلاع دی اور انہوں نے آکرتیندوے کوتحویل میں لے لیا۔اس سے قبل اہل علاقہ نے اس تیندوے کو دم سے پکڑ کر پتھروں پر گھسیٹا جس سے اس تیندوے کی ٹانگیں ناکارہ ہوگئیں اور کھال اتر گئی ۔تیندوے پر فائرنگ بھی ہوئی اور ایک گولی سے اس کی ریڑھ کی ہڈی شدید متاثر ہوئی ۔تیندوے کی جان بچانے کی کوشش کی گئی مگر تیندوا دوران علاج مرگیا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ لوگوں کے لیے عام سی بات ہو مگر اس میں قابل غور وہ انسانی رویہ ہے جو اس جانور سے روا رکھا گیا۔
ایک جنگلی جانور اگر غلطی سی اشرف المخلوق کی بستی کی طرف آبھی گیا تھا تو کسی کو نقصان پہنچائے بغیر واپس بھاگ رہا تھا کہ اس پر فائرنگ کی گئی ۔اس کو پتھروں پر گھسیٹا گیا بالکل یہی رویہ ہم نے انسانوں کے ساتھ بھی روا رکھا ہے ۔ماڈل ٹاون ہو ساہیوال ہو یا پھر سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کا قتل ہو اسی چیتے کی طرح دن دیہاڑے فائر کرکے اور تشدد سے جیتے جاگتے انسانوں کو مار دیا گیا۔حالانکہ ہماری دینی تعلیمات میں شامل ہے کہ ایک انسان کا قتل گویا پوری انسانیت کا قتل ہے ۔مگر ہم نسیان کے مرض میں مبتلا کب یاد رکھتے ہیں۔
ایک ایسی عجیب وغریب قوم جو انسانوں اور جانوروں سے ایک جیسا رویہ رکھتی ہے ایک جیسا سلوک کرتی ہے ۔سوچنے کی بات ہے کہ ہمارے ہاں انسان اور جانور کو مارنے کے طریقے میں فرق ہی نہیں ہے ۔بس جوانسان ہمیں پسند نہیں ہے یا ہمارے مفادات کی راہ میں حائل ہے اس کو جانور کی طرح ماردینا اپنا اولین مقدس فریضہ سمجھتے ہیں اور جس جانور کو ہم کھا نہیں سکتے اس کو بیچ سڑک انسانوں کی طرح ماردینے کی ہماری روایت بہت پرانی ہے ۔ہم تو اتنے بے حس ہیں کہ معصوم زینب کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر جان سے مار دیتے ہیں ۔اے پی ایس کے بچوں کی خون کی ہولی کھیلتے ہیں
شعوری طورپر کیئے گئے اپنے گناہوں سے چھٹکارہ پانے کے ہر سال عمرہ اور حج کی ادائیگی کرتے ہوئے یہ بھول جاتےہیں کہ اپنے گردوپیش رہنے والوں کی کسمپرسی سے بے خبری کی معافی نہیں ملے گی۔کیسے ممکن ہے کہ ہمارا ہمسایہ دو وقت کی روٹی ناملنے پر بھوک سے مر جائے اور ہمیں کھانا ہضم بھی ہوجائے اور سکون کی نیند بھی آجائے ۔وسیع وعریض دسترخوان کو ہذا من فضل ربی کہنے والوں سے سوال تو بنتا ہے کہ اللہ کی رحمت سے دوسرے کیوں محروم ہیں ۔کوئی انسان دووقت کی روٹی کو کیوں ترس رہا ہے ۔ کیوں تن ڈھانپنے کو پریشاں ہے ۔
ایسے حالات میں سوال تو ہر دل میں پیدا ہوگا کہ کیا یہ میرے کریم رب کی تقسیم ہے۔ستر ماوں سے زیادہ پیار کرنے والا انسان کو اس حالت میں کیسے دیکھ سکتا ہے ۔ کیا یہ امارت اور غربت مقدر کا لکھا ہے اور اٹل ہے ۔یا پھر یہ انسانوں کی تقسیم ہے ۔وسائل اور دولت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز کوئی خدائی حکم نہیں بلکہ یہ انسانوں کی اپنی بندر بانٹ ہے ۔ضرورت مند کو کلہاڑی میں دستہ لگا کر روزگار کمانے کی ترغیب دینے والی کائنات کی عظیم ترین ہستی کے پیروکار ہوکر بھی ہم لنگر خانے کھول کر من وسلویٰ کھلانے کے دعویدار ہیں۔
خلیفہ کا رات کو آٹے کی بوری کندھے پر رکھ کر غریب کے گھر خاموشی سے پہنچانے کے واقعہ کو بطور دلیل پیش کرنے والوں نرم دل حکمرانوں کو احساس کفالت کارڈ کے زریعے بھرے بازاروں میں لائن میں لگنے پر مجبور کردیا ہے ۔گویا اگر انسانوں کے قاتل نہیں ہیں تو انسان کی عزت نفس کے قاتل ضرور ہیں۔غیر محسوس طریقے سے قوم کو بھکاری بنا دیا گیا ہے سیاسی اشرافیہ ملک کو اس نہج پر لے آئی ہے کہ یہاں پر بسنے والے انسان زلت کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
دین کی بنیادی تعلیمات سے انحراف کرتے ہوئے گناہ و ثواب کے اپنے معیار مقرر کرلیئے ہیں ۔ اخلاقیات کے پیمانے اپنے ہیں اور بات صرف وہی درست ہے جو ہمارے منہ سے نکلے ۔ نتیجہ یہ کہ ناتو اچھے انسان بن سکے اور نا ہی اچھے مسلمان کہلائے جانے کے حقدار ہیں ۔ملاوٹ ، زخیرہ اندوزی ، ناپ تول میں کمی ہمارے روزمرہ کے معمولات ہیں ۔جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا اور دھوکہ دینا اب اخلاقی جرم نہیں بلکہ اس عہد جدید کا ایک آرٹ ہے ۔دوسروں کے گریبانوں میں جھانکنے میں اس قدر مصروف ہیں کہ اپنے تار تار دامن کی نا خبر ہے نا کچھ ہوش ہے ۔
اگر ہمیں انسانوں میں شمار ہونا ہے تو رویے بھی انسانوں والے اپنانے ہوں گے۔ اپنے گناہ و ثواب کے تصورات کو درست کرنا ہوگا ۔انسان کو اہمیت دینی ہوگی ۔ سماجی شعور کو پروان چڑھانا ہوگا۔دوسروں کے نہیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا۔حقوق العباد کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوگا اس کی نئے سرے سے تشریح کرنی ہوگی اور وضاحت کے ساتھ سمجھانا ہوگا۔نئی نسل کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر توجہ دینی ہوگی ۔ دوسروں کی اصلاح سے قبل ابتدا خود سے کرنی ہوگی۔
اگر ایسا نا کیا تو حالات مزید خراب ہوتے جائیں گے ۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے لہجے سخت اور رویے کھردرے ہوتےجائیں گے ۔بے حسی کا یہی عالم رہا تو تیندوے کا مرنا تو عام سی بات ہے ہماری سردمہری اور بے حسی کی ٹھنڈک سے لوگ مرنا شروع ہوجائیں گے اور یہ اموات مری کی برفباری میں ہونے والی اموات سے کہیں زیادہ اور بھیانک ہوں گی ۔ قصہ مختصر یہ کہ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ہم سب حقیقت میں مری والے ہی ہیں بس زرا برف پڑنے کی دیر ہے۔
مصنف سے رابطہ کیلئے 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر