وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یادش بخیر! عبدالولی خان نے حیدر آباد ٹریبونل سے مخاطب ہو کر کہا تھا ”می لارڈ! تاریخ بڑے کام کی چیز ہے۔ “ یہ عین ممکن ہے کہ ایک ہی روز رونما ہونے والے پے در پے واقعات میں مقصد اور طریقہ ¿ کار کی مطابقت محض اتفاق ہو لیکن تاریخ کے دو مختلف ادوار میں اور دو مختلف مقامات پر رونما والے واقعات میں مماثلت بڑے کام کی چیز ہے۔ اس سے لکھنے والے کو آج کے دن میں پیدا ہونے والے سلگتے سوالات کی آنچ سے محفوظ رہنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ناول کے صفحہ اول پر لکھ دیا جاتا ہے کہ کہانی میں بیان کیے گئے واقعات اور کردار مصنف کے دماغ کی اختراع ہیں اور کسی حقیقی کردار یا واقعے سے مماثلت محض اتفاق ہو گی۔ تو پھر چھوڑیں کہ آج کل ہمارے ہاں کیا ہو رہا ہے۔ یوں بھی یاں کے سیاہ و سفید میں ہم کو دخل ہی کتنا ہے۔ چلتے ہیں یورپ کے ملک اٹلی اور یہ 1922 ء کا موسم خزاں ہے۔
اٹلی کو پہلی عالمی جنگ میں شکست ہوئی تھی۔ بحران اور بے یقینی کی کیفیت ملک پر طاری تھی۔ معیشت کا برا حال تھا۔ نوزائیدہ جمہوریت کمزور تھی۔ بائیں بازو کے حامی جمہوریت مضبوط کرنے کی بجائے طبقاتی تضادات کو بڑھاوا دے کر انقلاب کی راہ ہموار کرنا چاہتے تھے۔ دوسری طرف جمہوریت کے حامی سیاست دانوں کو بائیں بازو کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے فسطائی ٹولے کے ذریعے تشدد کے استعمال سے عار نہیں تھا۔ روایتی طور پر اقتدار کا سرچشمہ بادشاہ کی ذات تھی جسے قابل فہم طور پر جمہوریت سے پرخاش تھی۔ اس سیاسی خلا میں مسولینی نام کا ایک شخص منظر عام پر آیا جو جارحانہ قوم پرستی، سیاست میں تشدد اور ڈھٹائی کی حد تک بے اصولی کا علم بردار تھا۔
مسولینی نے پہلی عالمی جنگ میں ایک گمنام کارپورل کی حیثیت سے حصہ لیا تھا۔ وہ ماضی میں ایک چھوٹے موٹے اخبار کی ادارت کر چکا تھا اور ذرائع ابلاغ میں نمایاں رہنے کا فن جانتا تھا۔ اس نے خود کو رومن سلطنت کی عظمت کا وارث قرار دے کر اپنے تئیں ڈوچے یعنی ’رہبر‘ کا خطاب اختیار کر رکھا تھا۔ فوج، کاروباری حلقوں اور دائیں بازو کی سیاسی قوتوں کو مسولینی پر اعتماد تھا۔ مسولینی کا سیاسی طریقہ کار نہایت سادہ تھا۔ وہ جمہوری حکومتوں کی نا اہلی اور کمزوری اچھالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا اور یہ تاثر دیتا تھا کہ وہ اپنی فسطائی جماعت کی مدد سے موثر اور مستعد حکمرانی کے ذریعے قومی وقار بحال کر سکتا تھا۔
1919 ء اور 1921 ء کے انتخابات میں مسولینی کو بری طرح شکست ہوئی تھی۔ تاہم وہ سرے سے جمہوریت ہی میں یقین نہیں رکھتا تھا اور پارلیمنٹ کو محض ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتا تھا۔ مسولینی اپنی جماعت کی طاقت بڑھا چڑھا کر بیان کرتا تھا۔ جولائی 1922 ء میں اس نے دعویٰ کیا کہ اس کی جماعت کے سات لاکھ رکن ہیں لیکن تین ماہ بعد روم کی طرف مارچ میں بمشکل تیس ہزار افراد شامل تھے۔ وہ وقفے وقفے سے مختلف جماعتوں کی حمایت کا اعلان کرتا اور پھر اچانک ان سے اتحاد ختم کر کے ان کے نیچے سے زمیں کھینچ لیتا تھا۔ اس نے پہلے اشتراکی جماعت سے اتحاد کیا اور پھر اسے دھتا بتایا۔ پھر اس نے کاروباری افراد کو بھروسے میں لے کر فسطائی گروہ کے انتہا پسند عناصر کا صفایا کیا۔ گویا اپنے ممکنہ حریفوں کو باری باری ٹھکانے لگایا۔
پستہ قد مسولینی زور دار خطیب تھا۔ سیاسی سمجھ بوجھ سے عاری اندھے پیروکار گھنٹوں اس کی لایعنی تقریریں سنتے تھے جن میں ڈرامائی شعبدے بازی کار فرما ہوتی تھی۔ وہ ایک خاص قسم کی وردی پہنتا تھا اور سینہ پھلا کر چلتا تھا۔ اس کے حامی اسے ایک سیاسی رہنما کی بجائے ہیرو کے طور پر دیکھتے تھے یعنی ایک مافوق الفطرت کردار جو اپنی یگانہ روزگار صلاحیتوں سے کام لے کر تمام مشکلات حل کر سکتا ہے۔ جن معاشروں میں سیاسی بلوغت کی کمی ہوتی ہے وہاں سیاسی عمل کی بجائے کرشمہ ساز ہستیوں سے امید باندھنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔
دس جون 1924 ء کو مسولینی نے ایک سیاسی کارکن کے قتل کی آڑ میں باقاعدہ فسطائی آمریت کے قیام کا اعلان کر دیا۔ تمام مخالف جماعتوں کو خلاف قانون قرار دے دیا گیا۔ کاروباری اداروں کو پابند کر دیا گیا کہ وہاں پیداوار اور دوسرے امور میں فسطائی پارٹی کا فیصلہ حتمی ہو گا۔ معاشی استحکام کے مختصر وقفے کے بعد ملک دوبارہ کساد بازاری کی لپیٹ میں آ گیا۔ تاہم اب عوام فسطائیت کی چٹان تلے سسک رہے تھے اور احتجاج کا کوئی راستہ باقی نہیں تھا۔
مخالفین کو درجنوں کے حساب سے قتل کیا جا رہا تھا۔ اٹلی کی فسطائی حکومت مسولینی کی ذات کے گرد گھومتی تھی۔ مسولینی نے لیگ آف نیشنز سے تعلق توڑ ڈالا اور کمزور افریقی نوآبادیوں مثلاً ایتھوپیا پر حملہ کر دیا۔ دوسری عالمی جنگ شروع ہونے پر جرمنی کا اتحادی بن گیا۔ پے در پے شکستوں کے بعد 1942 ءمیں اطالوی سپاہیوں نے اسے معزول کر کے نظر بند کر دیا۔ مگر ہٹلر کے سپاہی اسے چھڑا کر لے گئے۔ بپھرا ہوا مسولینی اپنے وطن واپس آیا۔
اس کا دبدبہ اور وقار ختم ہو چکے تھے لیکن اس کے ہاتھوں اٹلی کی مکمل تباہی یقینی ہو رہی تھی۔ 1945 ءکے اوائل میں شمالی اٹلی کے قصبے میض گرا میں اطالوی حریت پسندوں نے مسولینی کو اس کی داشتہ کے ساتھ گرفتار کر لیا۔ اگلے روز قصبے کے باشندے گھروں سے نکلے تو مقامی سٹیڈیم میں ایک مرد اور ایک عورت کی گولیوں سے چھلنی لاشیں الٹی لٹک رہی تھی۔
فروری 2013
بشکریہ : ہم سب
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
ریاض ہاشمی دی یاد اچ کٹھ: استاد محمود نظامی دے سرائیکی موومنٹ بارے وچار
خواجہ فرید تے قبضہ گیریں دا حملہ||ڈاکٹر جاوید چانڈیو
راجدھانی دی کہانی:پی ٹی آئی دے کتنے دھڑےتے کیڑھا عمران خان کو جیل توں باہر نی آون ڈیندا؟