ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جام پور کے دانشور اسلم عزیز درانی لکھتے ہیں کہ”1965ء میں گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خان کی بزم ادب کا میں جنرل سیکرٹری تھا ور اس بزم کے صدر محسن نقوی تھے۔ایک دن کالج کی کینٹین پر چائے پی رہے تھے کہ ہم نے کالج کی بزم ادب کی طرف سے سرائیکی مشاعرہ کرانے کا پروگرام بنایا میں نے محسن سے پوچھا کہ اس مشاعر ے کا مہمان خصوصی کون ہوگا؟ تو محسن نے فورا جواب دیا کہ ”بھئی سائل ؔ صاحب سے زیادہ اس کا حقدا ر کون ہوسکتا ہے“۔محسن نے یہ نام اسقدر عقیدت اور احترام سے لیا کہ میں سائل ؔ کے نام سے مرعوب ہوگیااس پر میں نے محسن نقوی سے کہا کہ جب بھی سائل صاحب کو دعوت دینے جاو تو مجھے بھی ساتھ لے چلنا میں ان سے ملنا چاہتا ہوں تو اس پر محسن نقوی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ابھی ملاقات کرادیتا ہوں اور میرا ہاتھ پکڑ کر چل پڑا ہم کالج کے ایک گراونڈ میں باغیچے میں گئے تو وہاں پر ایک سفید ریش بزرگ جو کہ کالج کے مالی تھے پودوں کی گوڈی کررہے تھے میں حیران ہوکے ان کی طرف دیکھنے لگا اور سوچنے لگا کہ میں نے سائل صاحب سے ملنا تھا مگر یہ محسن مجھے کہاں لے آیا۔اس دوران محسن نے میری طرف دیکھا اور پوچھا ان کو پہچانتے ہو تو میں نے جواب دیا کہ یہ بابا نور محمد ہیں اور کالج کے مالی ہیں تو محسن نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہی تو نورمحمد سائل ؔ صاحب ہیں اس دوران بابا نور محمد کی نظر محسن پر پڑی تو انہوں نے کام چھوڑ کر کہا ”آو آو شاہ صاحب“۔محسن آگے بڑھا اور انتہائی محبت، عقیدت اور احترام سے سائل صاحب کے گلے لگ گیا۔او روہ دونوں باتیں کرنے لگے“یہ تھا وہ محسن نقوی جس کی عقیدت اور محبت بتا رہی تھی کہ نورمحمد سائل ؔسرائیکی کے کتنے عظیم شاعر ہیں اور محسن کی محبت او رعقیدت سے بھی اندازہ ہورہا تھا کہ محسن نے مستقبل میں کتنا بڑا شاعر بننا ہے۔
سید محسن نقوی کو اگر وطن عزیز کے ادبی حلقوں میں ڈیرہ غازی خان کی پہچان اور شناخت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔محسن محض ایک شاعر نہیں بلکہ ایک طاقتور وتوانا آواز ہے ایک ایسی آواز جس نے مظلومو ں کی حمایت میں ظالموں کو سرعام اور ہر سطح پر للکارا۔ببانگ دہل ظلم وجبر کے خلاف لکھا۔محسن نقوی کا شعری سفر ایک شعوری انداز میں منزل کی طرف گامزن رہا۔بند قبا سے لے کر فرات فکر تک کے فکری سفر میں محسن نے زندگی کو بہت قریب سے پرکھا،دیکھا اور باریک بینی سے مشاہدہ کیا اور اپنے اس تجربے کو شاعری کے زریعے لوگوں تک پہنچایا۔
ایک انٹرویو میں اپنی پیدائش سے متعلق سید محسن نقوی کچھ یوں بیان کرتے ہیں ”ڈیرہ غازی خان کی پسماندہ سرزمین،چھوٹا سا شہر،شہر کا ایک چھوٹا سا بلاک یا محلہ جسے بلاک نمبر 45یا محلہ سادات کہتے ہیں اس محلے کی ایک چھوٹی سی گلی اور اس گلی میں ایک نیم تاریک مکان جہاں 5مئی 1947کی صبح کی پہلی کرن کے ساتھ دنیا کے بے شمار جانداروں میں ایک اور معمولی سی جان کا اضافہ ہوا۔چھوٹا سا گھر تھا حسب روایت خوشی منائی گئی دو چار لمحوں کی،مبارک باد اور پھر سناٹا۔بچے کا نام گھروالوں نے غلام عباس رکھا جو آٹھویں جماعت پاس کرتے ہی غلام عباس محسن نقوی بن گیا۔
محسن نقوی نے پرائمری تعلیم اپنے محلے کے ساتھ ہی ایک پرائمری سکول نمبر6میں حاصل کی،میٹرک ڈیرہ غازی خان گورنمنٹ ہائی سکول نمبر1سے فسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ایف اے اور بی اے گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خان سے کیا اور ایم اے گورنمنٹ کالج بوس روڈ ملتان سے 1970میں پاس کیا۔اس عرصہ میں ایوب خان کی آمریت کے خلاف نظم لکھنے کے جرم میں مقدمات میں ملوث بھی ہوئے۔ڈیرہ غازی خان کے کالج کے مجلہ ”الغازی“کے دو مرتبہ مدیر بھی رہے۔ملتان میں ایم اے کے دوران ملتان کالج کے رسالہ نخلستان کے ایڈیٹر بھی رہے۔امروز ملتان میں مسعود اشعر کے زمانے میں کام بھی کیا۔ محسن ان کا تخلص تھا جبکہ لفظ نقوی کو وہ تخلص کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔تاہم ادب کی دنیا میں انہوں نے محسن نقوی کے نام سے شہر ت پائی اور یہی نام زبان زد عام ہوا۔
پہلا شعر آٹھویں جماعت میں کہا۔شاعری کی طرف رحجان سے متعلق ایک بار محسن نقوی نے جواب دیا کہ”طبیعت بچپن سے ہی شاعرانہ تھی۔آپ سے ایک بھید کہیں کہ چاندنی ہماری کمزوری ہے اور جب سے ہوش سنبھالا ہے ہر چاند کی چودہویں کو بھی نہیں سوئے۔خداجانے کیا وجہ ہے؟ عجیب وغریب کیفیت ہوتی ہے۔”گھررہیں تو ویرانی دل کو کھانے کو آوئے“والا معاملہ ہوتا ہے،چاندنی،سگریٹ کا دھواں اور آوارگی ہماری تین شدید کمزوریاں ہیں جواب تک پوری تابندگی سے جاری ہیں ۔ سفر،سگریٹ اور چاندنی،تینوں بے وجہ زہن کو الجھا کر رکھ دیتے ہیں اور ہماری شاعری ان کے بغیر سانس لینا بھی گوارا نہیں کرتی“۔انہی قلبی کیفیات میں 1969ء میں محسن نقوی کا پہلا مجموعہ کلا م بند ِ قبا منظر عام پر آیا اور اس وقت کے شعراء میں محسن نے اس کلام کی بدولت اپنی بھرپور موجودگی کا احساس دلایا۔
محسن نقوی کو شاعر آلِ محمد ﷺ بھی کہا جانے لگا۔محسن لاہور منتقل ہوئے اور لاہور کی ادبی محفلوں میں انہیں بے پناہ شہرت حاصل ہوئی اور اس دوران 1978ء میں محسن نقوی کی دوسری کتاب برگِ صحرا اس کے بعد1985ء میں ریزہ حرف،1990ء میں عذابِ دیداور اس کے دوسال بعد 1992ء میں طلوع اشک،1994ء میں رختِ شب،1996ء میں خیمہ جاں اور اسکے بعد موجِ ادراک اور فرات ِ فکر محسن نقوی کے فکری اور علمی اثاثہ کے طورپر آج بھی تشنگان علم کے لیے زادِ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔
محسن نقوی نے محض اردو میں ہی اشعار نہیں کہے بلکہ محسن نقوی کا سرائیکی میں بھی بہت سا کلام موجود ہے۔محسن نقوی کی سرائیکی میں آزاد نظم ”ہن کیا تھیسی؟“ نے سرائیکی شاعری کے ادبی حلقوں میں کافی شہرت پائی۔اس نظم سے محسن نقوی کی سرائیکی وسیب سے متعلق معلومات اور آشنائی کا اندازہ ہوتا ہے۔بکروال ایک ایسا لفظ ہے جس کے معنی ومفہوم سرائیکی زبان سے گہری واقفیت رکھنے والے کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔بکروال شمال مغربی کونے سے نکلنے والا وہ بادل ہوتا ہے جس کی رنگ بالکل سیاہ ہوتا ہے اور یہ بادل جب نمودار ہوتا ہے تو برستا ضرور ہے اور موسلا دھار بارش ہوتی ہے۔اسی نظم میں محسن نقوی نے سرائیکی کا لفظ ”واچھڑ“استعمال کیا ہے جس کے معنی موسلادھار بارش کے ہیں اور یہ لفظ اسوقت متروک ہوچکا ہے۔ صرف اردو ہی نہیں سرائیکی کے الفاظ بھی محسن کی سرائیکی شاعری میں اپنی خوبصورتی،موقع محل،معنویت کا اظہا رکرتے نظر آتے ہیں۔
محسن نے کربلا کو اپنا موضوع سخن بنایا اور شاعر اہلبیت کے نام سے بھی شہر ت پائی۔خانوادہ نبوت سے محسن کی محبت نے جنون کی شکل اختیار کرلی اور واقعات کربلا اور ذکر اہلبیت نے محسن کی شاعری کو عظمتوں سے ہمکنار کردیا۔محسن کے سرائیکی کلام میں بھی اہل بیت سے محبت کی خوشبو کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔اہل بیت کی محبت اور غلامی کے طفیل روز محشر بخشش کے لیے پر امید محسن نقوی کا یہ انداز بھی ایسا ہے جیسے موتی لڑی میں پروئے ہوئے ہوں۔
سرائیکی غزل میں بھی محسن نے زندگی کی تلخیوں کو بہت ہی شاندار اور خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔اور سرائیکی وسیب کے ہرممکنہ استعارے اور کیفیت کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور اس میں محسن نقوی کامیاب بھی رہا ہے۔محسن کی سرائیکی شاعری کو پڑھ کر جدید اور قدیم کا ایک حسین امتزاج محسوس ہوتا ہے۔رات کی غربت کا زکر کرتے ہوئے ”ہنج دی زکواۃ“دینے کا مشورہ محسن نقوی جیسا شاعر ہی دے سکتا ہے۔محسن نقوی صرف اردو شاعری کا ہی بڑا نام نہیں ہے اگر محسن نقوی کے سرائیکی کلام کو جمع کیا جائے تو یہ سرائیکی ادب اور سرائیکی زبان کی ایک بہت بڑی خدمت ہوگی اورمحسن نقوی کا کلام سرائیکی ادب میں ایک بہترین اضافہ ہوگا۔15جنوری 1996کو لاہور کی مون مارکیٹ میں سید محسن نقوی پر قاتلانہ حملہ ہوااور ان کو 45گولیاں لگیں۔ہسپتال لے جایا گیا مگر جانبر نا ہوسکے۔محسن نقوی آبائی شہر ڈیرہ غازی خان کی کربلا میں آسودہ خاک ہوئے ۔
مصنف سے رابطہ کیلئے 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ