ہمت نہیں ہے یارم ۔۔۔ پھر کسی روز بیٹھک لگائیں گے ۔۔۔ یاد رکھنا خفا ہوں میں تم سے اور اب کی بار ہماری کہانی کچھ اور ہے ۔ ۔۔مگر سنو ۔۔۔ یہ اللہ میاں کے کارخانے والے ننھے ذہنوں کو کبھی وقت سے پہلے بڑا مت ہونے دیا کرو وہ اپنا بچپن کہیں کھو بیٹھتے ہیں ۔۔۔چلتی ہوں ۔۔۔آواز مت دینا کہ میں پلٹ کر نہ دیکھوں گی ۔۔۔
عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آؤ بھئی جانم بڑے عرصے بعد دکھائی دی ۔بیٹھو ،آج کیسے اپنے یارم کو یاد کر لیا ۔ تمہارا روٹھنا تو ابھی چلنا تھا ۔کہیں مان تو نہیں گئی مجھ سے ۔
یار کی خوش فہمیوں کے کیا کہنے بھئی ۔ہم اور مان جائیں وہ بھی تم سے ۔ایسے کیسے ؟۔وہ تو میں یہ ناول پڑھ رہی تھی تو مجھے یاد آگیا کہ کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا اور ہماری بھی محفل لگا کرتی تھی ۔خوب مکالمے ہوتے تھے ۔ پھر دنیا نے مجھے تم سے بےگانہ کر دیا ۔ یہ زمانہ بھی تو تمہارے ہی اشاروں کا محتاج ہے انسانوں کو نگل رہا ہے اور تم سے دور کرتا جا رہا ہے ۔ خیر میرے گلے تو تم سے نا ختم ہونے والے ہیں ۔
ہائے وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا ۔ تم نہ بدلی کبھی نہ ہی مجھ سے خدائی مانگی ۔تم تو بس چھین لیتی ہو جانم ۔ کیا پڑھ لیا بھئی جناب نے جبران نے مجھ سے مکالمہ کر لیا تو کہیں حسد تو نہیں کھینچ آیا یہاں کہ تمہارے خدا کو میرا مطلب ہے تمہارے یارم کو کوئی کیوں مخاطب کرے ۔
نہیں ایسے تو کئی گزرے جو تمہیں سامنے بٹھا کر تم سے محو گفتگو رہتے ہیں ۔ مفتی کے کالے کوٹھے والے ہو تم اور کبھی اشفاق احمد کرسی پر کلام کرتا ہے ۔تو کبھی کوئی تیرے ساتھ بیٹھک لگا لیتا ہے ۔ میں کیوں ہونے لگی حسد کا شکار ۔ تم سب کے ہو ہاں یارم ہو تو صرف میرے وہ کوئی دوجا تمہیں بنا نہیں سکتا ۔
ہٹ دھرمی نہ گئی اب تک تمہاری ۔ کیا چاہتی ہو اب بولو ۔سن رہا ہوں ۔ دیکھتا تو ویسے ہی رہتا ہو ں زمانے میں گم تمہیں۔
نہیں کچھ خاص تو نہیں بس یہ تمہارے کارخانے کا جبران پسند آیا ہے مجھے ۔کیسے دھڑلے سے تم سے سوال کیے دیتا ہے کہ بھئی دیکھو اللہ میاں جب مرغی بنائی تھی تو بلی کیوں بنائی ۔ نہ بناتے تو کون سا نقصان ہو جاتا تمہارا اور اگر میری ماں کی جگہ فلانے کی ماں کا جنازہ قبر میں رکھا جا رہا ہوتا تو میں اس کی جگہ پتنگ کی ڈور سمیٹ رہا ہوتا ۔ اور ہاں اللہ میاں حافی جی کے پیر دبانے سے تم کیسے خوش ہو جاتے ہو یہ تو کبھی بتا جاؤ ناں ۔ امی ابو کو ، چچا کو ،قطمیر کو کیوں بلا لیا اپنے پاس ، میری بہن کو کیوں ڈراؤنے خواب دکھاتے ہو ۔ ایسے کتنے ہی سوال کر دیے جبران نے اور ایک دن تم نے اسے بھی اپنے پاس بلوا لیا ۔
تمہیں یاد ہے یارم جب میں چھوٹی تھی تو زیادہ بارش آنے پر کیسے تمہاری طرف دیکھ کر کہتی تھی ۔ اووو نیلی چھتری والے بس کر دے یار ہمارے کپڑے اور سامان گیلا ہو گیا ہے ۔ سنو آسمانوں کے مالک میرے غلے میں صبح ڈھیر سارے پیسے ڈال دینا اور وہ جو تم کہانیوں میں جائے نماز کے نیچے پیسے رکھ جاتے ہو میرے ساتھ تو کبھی ایسا نہیں کرتے تھے ۔ جب میں کہتی تھی ابو کو واپس گاؤں بھیج دو امی مزدوری کرتی ہے ۔ہم بھی پھپھو کے اُپلے تھاپتے ہیں ان کے جانور چراتے ہیں ۔تب تم کبھی بھی نہیں آتے تھے بس امی نمک کے ساتھ روزہ کھول لیتی تھی یا چچی کچھ سامان دے جاتی تھی ۔ اور ہاں مجھے یاد ہے جب ہماری فیس کے ، کپڑوں کے ،کاپیوں کے پیسے نہیں ہوتے تھے تو ہم بہن بھائی کیسے رات کو اٹھ اٹھ کر تم سے دعائیں مانگتے تھے پر تم نہیں آئے کبھی بھی نہیں آئے ۔ تم تو میری طرف دیکھتے بھی نہیں تھے ۔جب ایک گندے انکل نے مجھے خراب کرنے کی کوشش کی تھی تو میں نے امی ابو کی بجائے تمہیں آوازیں دیں تھیں لیکن تم نہیں آئے تھے اس نے مجھے قینچی سے چپ کروا دیا تھا ۔ تم نے مجھے بچپن میں ہی بڑا بنا دیا تھا میں کتنا بلاتی تھی تمہیں ۔ میری گڑیا کے لیے ، کھلونوں کے لیے باقی بچوں کے پاس سب ہوتا تھا لیکن میرے پاس کچھ نہیں ۔ ہم تمہاری کتاب روز پڑھتے تھے امی کہتی تھیں کہ تم مل جاؤ گے ۔مجھے لگتا تھا تم مجھے اس دن مل گئے تھے جب سکول میں میری اول پوزیشن آنے پر انعام میں مجھے پچاس روپے اور کتاب ملی تھی ۔تمہیں یاد ہے ہم نے پہلی بار پورا آم کھایا تھا صرف ایک ہی گٹھلی کو بار بار نہیں اٹھاتے تھے ۔پھر میں انعام کے لالچ میں خوب محنت کر کے پڑھتی تھی ۔ کالج میں تم مجھے انعام دلواتے تھے اور ہمارے گھر کا چولہا جلتا تھا ۔ میں کب بڑی سے بوڑھی بن گئی ۔ میرے اندر کا بچہ مر گیا ۔میرا قہقہ کہیں گم گیا ۔تم نے میرا ناطہ ایک ایسے شخص سے جوڑ دیا جو مجھے نوچتا رہا ۔لیکن مجھے محفوظ رکھنے پر میں پھر سے تمہاری طرف پلٹ آئی ۔۔۔(ہچکیاں )
چپ کیوں ہوگئی جانم ۔ بولو ناں بولتی جاؤ ۔ نکال دو جو اپنے اندر رکھے ہو ۔میں سن رہا ہوں ۔
ہمت نہیں ہے یارم ۔۔۔ پھر کسی روز بیٹھک لگائیں گے ۔۔۔ یاد رکھنا خفا ہوں میں تم سے اور اب کی بار ہماری کہانی کچھ اور ہے ۔ ۔۔مگر سنو ۔۔۔ یہ اللہ میاں کے کارخانے والے ننھے ذہنوں کو کبھی وقت سے پہلے بڑا مت ہونے دیا کرو وہ اپنا بچپن کہیں کھو بیٹھتے ہیں ۔۔۔چلتی ہوں ۔۔۔آواز مت دینا کہ میں پلٹ کر نہ دیکھوں گی ۔۔۔
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
About The Author Continue Reading
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر