حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مری و گلیات کا المیہ ریاستی مشینری کے چہرے پر بدنما داغ کے طور پر ہمیشہ موجود رہے گا۔ موسم سرد تھا اور برف باری کا طوفان، دوسری جانب سیاح بھی ان بنیادی معلومات سے نابلد تھے جو ایسے مواقع پر بطور خاص ان کے پاس ہونی چاہئیں تھیں لیکن انتظامیہ کو تو پتہ تھا کہ کیا ہونے جارہا ہے۔
محکمہ موسمیات کے الرٹ اور 5جنوری کا ریڈ الرٹ دونوں اس امر کے متقاضی تھے کہ ہنگامی بنیادوں پر پیش بندی کرلی جاتی، کیا ہوسکتا تھا۔
اولاً یہ کہ مری اور گلیات کی طرف جانے والے راستے بند کردیئے جاتے۔ ثانیاً سیاحتی مرکز اور گردونواح میں موجود لوگوں کو واپسی کے لئے کہا جاتا۔ ثالثاً انتظامی مشینری الرٹ رہتی۔ برف باری میں سڑکوں کی صفائی کرنے کی مشینری ان آرڈر ہوتی۔ رابعہً جب یہ معلوم تھا کہ گاڑیاں اور مسافر گنجائش سے زیادہ ہیں تو خصوصی ہنگامی اقدامات پر توجہ دی جاتی۔
خدا لگتی کہیے کہ ان میں سے کسی ایک پر بھی کسی سطح پر توجہ دی گئی؟
اب آیئے ان شکایات کی طرف جو سیاحوں کو مری کے کاروباری لوگوں سے عموماً رہتی ہیں ہر سال بے شمار واقعات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ کاروباری حضرات بھی ایک طرح سے ’’گینگ‘‘ کی صورت اختیار کرچکے اور ان کے ملازمین سدھائے ہوئے غنڈے، کم از کم پچھلے تین سالوں کے دوران جو شکایات سامنے آئیں ان میں سے بعض کی ویڈیوز بھی وائرل ہوئیں
کیسے بچیوں اور خواتین تک پر مشٹنڈے تشدد کررہے ہیں۔ ان واقعات کا کسی نے کیا نوٹس لیا، کتنے لوگوں کے خلاف کارروائی ہوئی؟
لوگ کہتے ہیں کہ مری کے تھانوں میں تعیناتی کے لئے "بولی” لگتی ہے۔ اس الزام کو تقویت پولیس کے رویوں سے ملتی ہے جو عموماً سیاحوں کی دادرسی کی بجائے مقامی مافیا کے سہولت کار کا کردار ادا کرتی ہے۔
یہاں ساعت بھر کے لئے رکئے۔ یہ جو مری کے کاروباری طبقات ہیں یہ حاجی ثناء اللہ ہرگز نہیں۔
یہی لوگ تھے جنہوں نے 1990ء کی دہائی میں سوات والے صوفی محمد آصف تحریک نفاذ شریعت محمدی کو خطیر رقم کے عطیات دیئے تھے۔ ان عطیات کا مقصد سوات، کالام، بحرین وغیرہ کی سیاحت کو تباہ کروانا تھا کیونکہ موسمی تبدیلیوں کے علاوہ مری کے کاروباری طبقے کی بدتمیزیوں اور لوٹ مار سے تنگ آئے سیاحوں نے سوات وغیرہ کا رخ کرلیا تھا۔
کاروبار سوات میں بھی ہوتا تھا مگر مری کی طرح لوٹ مار، بدتمیزی اور خواتین کی توہین نہیں۔ پھر موسم مری کے مقابلہ میں زیادہ بہتر تھا۔ صوفی محمد کی تحریک کو فراہم کردہ عطیات کا مقصد سوات میں نفاذ شریعت ہرگز نہیں تھا۔ مری کے کاروباری مافیا اور سرپرستوں کو نفاذ شریعت سے اتنی ہی قلبی محبت ہوتی تو پہلے وہ اپنے ہاں شریعت نافذ کرتے۔
معاملہ کاروباری رقابت کا تھا اجتماعی چندوں سے عطیات فراہم کئے گئے۔
ان برسوں میں تحریر نویس خیبر پختونخوا کے اخبارات میں اہم ادارتی منصبوں پر فائز تھا۔ تفصیل کے ساتھ مری مافیا کی سازش کو بے نقاب کیا اس کے جواب میں صوفی محمد کے داماد ملا فضل اللہ اور تحریک نفاذ شریعت محمدی کے ایک اور رہنما مسلم خان نے اپنی تحریک کے ایف ایم ریڈیو پر اس تحریر نویس کے بارےمیں جو گلفشانیاں کیں وہ ریکارڈ کا حصہ ہیں۔
بعد ازاں جب کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ حیکم اللہ محسود ڈرون حملے میں ہلاک ہوا اور اس کی جگہ ملا فضل اللہ کالعدم ٹی ٹی پی کا سربراہ بنا تو اس کے حکم پر مجھے روزنامہ ” مشرق ” پشاور سے نکال دیا گیا اور ڈر کے مارے کوئی میڈیا ہاوس ملازمت دینے پر آمادہ نہیں ہوتا تھا خیر المیوں اور مسائل کا ذکر پھر سہی
عرض یہ کرنا چاہتاہوں کہ جو کاروباری طبقہ دوسرے سیاحتی مرکز کی بربادی کے بیج بونے اور آبیاری کے لئے ہر ہتھکنڈہ آزمانا جائز سمجھتا ہو اس سے کسی قسم کی اخلاقیات کی توقع عبث ہے۔
گویہ بات موجودہ صورتحال سے مختلف ہے لیکن اس کا ذکر اس لئے کرنا پڑا کہ جس تکلیف کا مری جانے والے سیاح عموماً سامنا کرتے ہیں یا اب حالیہ دنوں کی ابتر صورتحال کے بعد سیاحوں کے شکوئوں شکایات کی جو ویڈیوز وائرل ہوئیں انہیں مخصوص ذہنیت کے پس منظر میں سمجھا جاسکے۔
ابتر موسم میں مری گلیات اور گردونواح میں پھنس جانے والوں نے شکایت کی کہ ایک عام کمرے کا کرایہ 50سے 70ہزار ایک رات کے لئے طلب کیا گیا۔ ایک سیاح نے الزام لگایا کہ ہوٹل والوں نے کریڈٹ کارڈ قبول کرنے سے انکار کردیا جس پر اسے اپنی اہلیہ کا زیور گروی رکھوانا پڑا۔ اس طرح کی دوسری شکایات ہیں، پانی کی بوتل، فی کپ چائے یا ایک ابلے ہوئے انڈہ کی قیمت۔ اسی طرح گاڑیوں کو دھکا لگانے کا معاوضہ وغیرہ یہ ساری شکایات بلاوجہ نہیں اسی لئے عرض کیا کہ مری کی سول انتظامیہ ہو یا پولیس، یہ سب ہمیشہ کاروباری لوگوں کے سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہیں۔
مری میں لوگوں سے کیا سلوک ہوتاہے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ایک دو ذاتی واقعات ہیں لیکن ان کے ذکر سے اجتناب بہتر ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مری کی ایک سیاحتی مرکز کے طور پر دیکھ بھال اور انتظامات انتظامیہ اور حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ذمہ داری ادا نہیں ہوئی۔
اہل اقتدار کے لئے مری میں سرکاری قیام گاہیں ہیں ، انتظامیہ کے اپنے ٹھکانے۔ یہاں سیاحت کے بین الاقوامی اصولوں اور معیار کے حوالے سے ایک جگہ دیکھا دیجیئے آپ مری کے ہوٹلوں کے عملے کو لے لیجئے، مشکل سے چند افراد ہی ہوٹلنگ و سیاحت کے حوالے سے تربیت یافتہ ہوں گے؟ بڑی تعداد کی ذہنیت بس اڈوں کے ٹھیکیداروں اور ہاکروں والی ہے۔
خود حکومت نے کبھی (اس میں ماضی کی حکومتیں بھی شامل ہیں) یہ سوچا ہے کہ سیاحتی مراکز کیسے ہونے چاہئیں۔ دنیا بھر میں ان مراکز کے لئے جو خصوصی انتظامات اور سہولتیں ہوتی ہیں انہیں مری میں یا کسی دوسرے سیاحتی مرکز میں یقینی بنایا جائے؟
ارباب اختیار کی جانے بلا کہ سیاحتی مراکز کیسے منظم کئے جاتے ہیں۔ کیسے زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرکے سیاحوں کے لئے کشش پیدا کی جاتی ہے۔
جب نظام کے امین مافیا کے سہولت کار بن جائیں تو لوگوں کی چیخیں کوئی نہیں سنتا دونوں ایک دوسرے کا دفاع کرتے ہیں۔
یہاں ایک سوال اور ہے وہ یہ کہ فوج کو 38 گھنٹے کی تاخیر کے بعد کیوں بلایا گیا۔ یہ کام 5جنوری کو ریڈ الرٹ جاری ہونے کے فوراً بعد کیوں نہ کرلیا گیا؟
گستاخی نہ سمجھ لی جائے تو یہاں یہ عرض کردوں وزیراعظم کی گرفتاری، مارشل لاء لگانے یا پی ٹی وی کا جنگلہ پھلانگنے کے لئے کیا کسی کو ’’کسی‘‘ کی اجازت لینی پڑتی ہے؟
مری کا لگ بھگ 72فیصد علاقہ ’’کنٹونمنٹ ایریا‘‘ ہے۔ کنٹونمنٹ کی دیواروں کے باہر موت رقص کررہی تھی کیا سول انتظامیہ کی درخواست کے بغیر امدادی کام نہیں کیا جاسکتا تھا؟
یہ بھی عرض کردوں کہ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور فرانس جیسے جدید ترقی یافتہ ممالک میں بھی قدرتی آفات کے رونما ہونے پر فوج سے مدد لی جاتی ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اس کی تربیت ایسی ہوتی ہے جو مشکل ترین حالات سے نبردآزما ہونے میں مدد دیتی ہے۔
ہمارے یہاں اسے ایک احسان سمجھ لیا گیا ہے شکر گزاری کے جذبات کی نہریں بہنے لگتی ہیں۔
کچھ لوگ تو حُب البرتنی کے "بھانڈے کھڑکاتے” طعنے مارنے لگتے ہیں۔
جبکہ سمجھنے والی بات یہ ے کہ ریاستیں فوج صرف جنگوں کے لئے نہیں رکھتیں، فوج کی تربیت میں دونوں پہلو مدنظر رکھے جاتے ہیں۔ جنگ اور قدرتی آفات دونوں مواقع پر فوج اپنی صلاحیت کا اظہار کرتی ہے۔
یہی اس کا فرض ہے اور یہ فرائض امریکہ تک کی فوج ادا کرتی ہے۔
حرفِ آخر یہ ہے کہ پنجاب حکومت کی تحقیقاتی کمیٹی زخموں پر نمک پاشی کے سوا کچھ نہیں پنجاب حکومت احساس ذمہ داری سے مالامال ہوتی تو 8تاریخ کو جب مری میں حالات ابتر تھے وزیراعلیٰ پنجاب اپنی جماعت کی تنظیم سازی اور بلدیاتی انتخابات کے لئے حکمت عملی وضع کرنے کی بجائے امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کے لئے قریب ترین جگہ پر موجود ہوتے۔
اسی طرح خیبر پختونخوا حکومت بھی مجرمانہ غفلت کے مظاہرے کی مرتکب ہوئی اس نے بھی گلیات کے اپنے صوبے والے حصے میں 9 جنوری کی سپہر امدادی کاموں کا اعلان کیا۔
محکمہ موسمیات کے الرٹ اور 5جنوری کا ریڈ الرٹ دونوں اس امر کے متقاضی تھے کہ ہنگامی بنیادوں پر پیش بندی کرلی جاتی، کیا ہوسکتا تھا۔
اولاً یہ کہ مری اور گلیات کی طرف جانے والے راستے بند کردیئے جاتے۔ ثانیاً سیاحتی مرکز اور گردونواح میں موجود لوگوں کو واپسی کے لئے کہا جاتا۔ ثالثاً انتظامی مشینری الرٹ رہتی۔ برف باری میں سڑکوں کی صفائی کرنے کی مشینری ان آرڈر ہوتی۔ رابعہً جب یہ معلوم تھا کہ گاڑیاں اور مسافر گنجائش سے زیادہ ہیں تو خصوصی ہنگامی اقدامات پر توجہ دی جاتی۔
خدا لگتی کہیے کہ ان میں سے کسی ایک پر بھی کسی سطح پر توجہ دی گئی؟
اب آیئے ان شکایات کی طرف جو سیاحوں کو مری کے کاروباری لوگوں سے عموماً رہتی ہیں ہر سال بے شمار واقعات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ کاروباری حضرات بھی ایک طرح سے ’’گینگ‘‘ کی صورت اختیار کرچکے اور ان کے ملازمین سدھائے ہوئے غنڈے، کم از کم پچھلے تین سالوں کے دوران جو شکایات سامنے آئیں ان میں سے بعض کی ویڈیوز بھی وائرل ہوئیں
کیسے بچیوں اور خواتین تک پر مشٹنڈے تشدد کررہے ہیں۔ ان واقعات کا کسی نے کیا نوٹس لیا، کتنے لوگوں کے خلاف کارروائی ہوئی؟
لوگ کہتے ہیں کہ مری کے تھانوں میں تعیناتی کے لئے "بولی” لگتی ہے۔ اس الزام کو تقویت پولیس کے رویوں سے ملتی ہے جو عموماً سیاحوں کی دادرسی کی بجائے مقامی مافیا کے سہولت کار کا کردار ادا کرتی ہے۔
یہاں ساعت بھر کے لئے رکئے۔ یہ جو مری کے کاروباری طبقات ہیں یہ حاجی ثناء اللہ ہرگز نہیں۔
یہی لوگ تھے جنہوں نے 1990ء کی دہائی میں سوات والے صوفی محمد آصف تحریک نفاذ شریعت محمدی کو خطیر رقم کے عطیات دیئے تھے۔ ان عطیات کا مقصد سوات، کالام، بحرین وغیرہ کی سیاحت کو تباہ کروانا تھا کیونکہ موسمی تبدیلیوں کے علاوہ مری کے کاروباری طبقے کی بدتمیزیوں اور لوٹ مار سے تنگ آئے سیاحوں نے سوات وغیرہ کا رخ کرلیا تھا۔
کاروبار سوات میں بھی ہوتا تھا مگر مری کی طرح لوٹ مار، بدتمیزی اور خواتین کی توہین نہیں۔ پھر موسم مری کے مقابلہ میں زیادہ بہتر تھا۔ صوفی محمد کی تحریک کو فراہم کردہ عطیات کا مقصد سوات میں نفاذ شریعت ہرگز نہیں تھا۔ مری کے کاروباری مافیا اور سرپرستوں کو نفاذ شریعت سے اتنی ہی قلبی محبت ہوتی تو پہلے وہ اپنے ہاں شریعت نافذ کرتے۔
معاملہ کاروباری رقابت کا تھا اجتماعی چندوں سے عطیات فراہم کئے گئے۔
ان برسوں میں تحریر نویس خیبر پختونخوا کے اخبارات میں اہم ادارتی منصبوں پر فائز تھا۔ تفصیل کے ساتھ مری مافیا کی سازش کو بے نقاب کیا اس کے جواب میں صوفی محمد کے داماد ملا فضل اللہ اور تحریک نفاذ شریعت محمدی کے ایک اور رہنما مسلم خان نے اپنی تحریک کے ایف ایم ریڈیو پر اس تحریر نویس کے بارےمیں جو گلفشانیاں کیں وہ ریکارڈ کا حصہ ہیں۔
بعد ازاں جب کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ حیکم اللہ محسود ڈرون حملے میں ہلاک ہوا اور اس کی جگہ ملا فضل اللہ کالعدم ٹی ٹی پی کا سربراہ بنا تو اس کے حکم پر مجھے روزنامہ ” مشرق ” پشاور سے نکال دیا گیا اور ڈر کے مارے کوئی میڈیا ہاوس ملازمت دینے پر آمادہ نہیں ہوتا تھا خیر المیوں اور مسائل کا ذکر پھر سہی
عرض یہ کرنا چاہتاہوں کہ جو کاروباری طبقہ دوسرے سیاحتی مرکز کی بربادی کے بیج بونے اور آبیاری کے لئے ہر ہتھکنڈہ آزمانا جائز سمجھتا ہو اس سے کسی قسم کی اخلاقیات کی توقع عبث ہے۔
گویہ بات موجودہ صورتحال سے مختلف ہے لیکن اس کا ذکر اس لئے کرنا پڑا کہ جس تکلیف کا مری جانے والے سیاح عموماً سامنا کرتے ہیں یا اب حالیہ دنوں کی ابتر صورتحال کے بعد سیاحوں کے شکوئوں شکایات کی جو ویڈیوز وائرل ہوئیں انہیں مخصوص ذہنیت کے پس منظر میں سمجھا جاسکے۔
ابتر موسم میں مری گلیات اور گردونواح میں پھنس جانے والوں نے شکایت کی کہ ایک عام کمرے کا کرایہ 50سے 70ہزار ایک رات کے لئے طلب کیا گیا۔ ایک سیاح نے الزام لگایا کہ ہوٹل والوں نے کریڈٹ کارڈ قبول کرنے سے انکار کردیا جس پر اسے اپنی اہلیہ کا زیور گروی رکھوانا پڑا۔ اس طرح کی دوسری شکایات ہیں، پانی کی بوتل، فی کپ چائے یا ایک ابلے ہوئے انڈہ کی قیمت۔ اسی طرح گاڑیوں کو دھکا لگانے کا معاوضہ وغیرہ یہ ساری شکایات بلاوجہ نہیں اسی لئے عرض کیا کہ مری کی سول انتظامیہ ہو یا پولیس، یہ سب ہمیشہ کاروباری لوگوں کے سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہیں۔
مری میں لوگوں سے کیا سلوک ہوتاہے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ایک دو ذاتی واقعات ہیں لیکن ان کے ذکر سے اجتناب بہتر ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مری کی ایک سیاحتی مرکز کے طور پر دیکھ بھال اور انتظامات انتظامیہ اور حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ذمہ داری ادا نہیں ہوئی۔
اہل اقتدار کے لئے مری میں سرکاری قیام گاہیں ہیں ، انتظامیہ کے اپنے ٹھکانے۔ یہاں سیاحت کے بین الاقوامی اصولوں اور معیار کے حوالے سے ایک جگہ دیکھا دیجیئے آپ مری کے ہوٹلوں کے عملے کو لے لیجئے، مشکل سے چند افراد ہی ہوٹلنگ و سیاحت کے حوالے سے تربیت یافتہ ہوں گے؟ بڑی تعداد کی ذہنیت بس اڈوں کے ٹھیکیداروں اور ہاکروں والی ہے۔
خود حکومت نے کبھی (اس میں ماضی کی حکومتیں بھی شامل ہیں) یہ سوچا ہے کہ سیاحتی مراکز کیسے ہونے چاہئیں۔ دنیا بھر میں ان مراکز کے لئے جو خصوصی انتظامات اور سہولتیں ہوتی ہیں انہیں مری میں یا کسی دوسرے سیاحتی مرکز میں یقینی بنایا جائے؟
ارباب اختیار کی جانے بلا کہ سیاحتی مراکز کیسے منظم کئے جاتے ہیں۔ کیسے زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرکے سیاحوں کے لئے کشش پیدا کی جاتی ہے۔
جب نظام کے امین مافیا کے سہولت کار بن جائیں تو لوگوں کی چیخیں کوئی نہیں سنتا دونوں ایک دوسرے کا دفاع کرتے ہیں۔
یہاں ایک سوال اور ہے وہ یہ کہ فوج کو 38 گھنٹے کی تاخیر کے بعد کیوں بلایا گیا۔ یہ کام 5جنوری کو ریڈ الرٹ جاری ہونے کے فوراً بعد کیوں نہ کرلیا گیا؟
گستاخی نہ سمجھ لی جائے تو یہاں یہ عرض کردوں وزیراعظم کی گرفتاری، مارشل لاء لگانے یا پی ٹی وی کا جنگلہ پھلانگنے کے لئے کیا کسی کو ’’کسی‘‘ کی اجازت لینی پڑتی ہے؟
مری کا لگ بھگ 72فیصد علاقہ ’’کنٹونمنٹ ایریا‘‘ ہے۔ کنٹونمنٹ کی دیواروں کے باہر موت رقص کررہی تھی کیا سول انتظامیہ کی درخواست کے بغیر امدادی کام نہیں کیا جاسکتا تھا؟
یہ بھی عرض کردوں کہ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور فرانس جیسے جدید ترقی یافتہ ممالک میں بھی قدرتی آفات کے رونما ہونے پر فوج سے مدد لی جاتی ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اس کی تربیت ایسی ہوتی ہے جو مشکل ترین حالات سے نبردآزما ہونے میں مدد دیتی ہے۔
ہمارے یہاں اسے ایک احسان سمجھ لیا گیا ہے شکر گزاری کے جذبات کی نہریں بہنے لگتی ہیں۔
کچھ لوگ تو حُب البرتنی کے "بھانڈے کھڑکاتے” طعنے مارنے لگتے ہیں۔
جبکہ سمجھنے والی بات یہ ے کہ ریاستیں فوج صرف جنگوں کے لئے نہیں رکھتیں، فوج کی تربیت میں دونوں پہلو مدنظر رکھے جاتے ہیں۔ جنگ اور قدرتی آفات دونوں مواقع پر فوج اپنی صلاحیت کا اظہار کرتی ہے۔
یہی اس کا فرض ہے اور یہ فرائض امریکہ تک کی فوج ادا کرتی ہے۔
حرفِ آخر یہ ہے کہ پنجاب حکومت کی تحقیقاتی کمیٹی زخموں پر نمک پاشی کے سوا کچھ نہیں پنجاب حکومت احساس ذمہ داری سے مالامال ہوتی تو 8تاریخ کو جب مری میں حالات ابتر تھے وزیراعلیٰ پنجاب اپنی جماعت کی تنظیم سازی اور بلدیاتی انتخابات کے لئے حکمت عملی وضع کرنے کی بجائے امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کے لئے قریب ترین جگہ پر موجود ہوتے۔
اسی طرح خیبر پختونخوا حکومت بھی مجرمانہ غفلت کے مظاہرے کی مرتکب ہوئی اس نے بھی گلیات کے اپنے صوبے والے حصے میں 9 جنوری کی سپہر امدادی کاموں کا اعلان کیا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ