نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مودی کے ہندو توا کو جھٹکا||حیدر جاوید سید

ہندو توا اور اکھنڈ بھارت کے خوابوں کی تجارت کرتے نریندر مودی اور ان کے انتہا پسندوں کی زہریلی مہم کے باوجود مسلم دوستی کے حق میں سنجیدہ فکر طبقات کی آوازیں باعث اطمینان ہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیکولر آئین والے بھارت میں سیکولرازم کو لاحق خطرات کے حوالے سے گاہے گاہے آوازیں اٹھتی رہتی ہیں بٹوارے کے بعد کے بھارت کے دستور کی اساس سکیولرازم پر ہے لیکن اس پر عمل کتنا ہوا یہ بھی اہم سوال ہے فی الوقت بھارت میں مسلسل دوسری بار مرکزی اقتدار میں موجود بی جے پی کا خمیر ہندو توا سے اٹھا ہے بی جے پی بنیادی طور پر انتہا پسند ہندو تنظیم آر ایس ایس کا سیاسی ایڈیشن ہے بھارتی سیاست میں ہندو توا کی بنیاد پر سرگرم عمل بی جے پی ہی وہ جماعت ہے جس نے عملی طور پر مسلمانوں اور دیگر مذہبی برادریوں کی نسل کشی کی حوصلہ افزائی ہی نہیں کی بلکہ ہر وہ قدم اٹھایا جس سے مسلمان اور دوسری مذہبی اقلتیں تیسرے درجہ کی شہری بن کر رہ جائیں پچھلے چند برسوں سے بھارت کی ان ریاستوں میں جہاں بی جے پی برسراقتدار ہے ہندوتوا کا جن بے قابو دکھائی دے رہا غیر ہندو مذہبی برادریوں خصوصا مسلمانوں پر تشدد ان کی املاکوں پر قبضے اور نسل کشی کے واقعات عام ہیں ان انسانیت سوز واقعات کے خلاف مختلف طبقات کے لوگ آواز بلند کرتے رہتے ہیں لیکن گجرات کے قصائی کے لقب سے شہرت پانے والے نریندر مودی جو اس وقت دوسری بار وزیراعظم کے منصب پر فائز ہیں ان آوازوں پر کان دھرنے کو تیار نہیں ۔ بی جے پی حکومت کی مسلم دشمن پالیسیوں پر گزشتہ دنوں تنقید کرتے ہوئے بالی وڈ کے معروف اداکار نصیر الدین شاہ نے خبردار کیا کہ”مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی پالیسی بھارت میں خانہ جنگی کا دروازہ کھول دے گی”اس انتباہ کے بعد بھارت کے5سابق آرمی چیفس اور متعدد بیوروکریٹس سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی کی ایک سو معروف شخصیات نے وزیراعظم نریندر مودی کو لکھے گئے مشترکہ خط میں حکمران جماعت اور اس کی اتحادی انتہا پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے مسلم نسل کشی کے اعلانات کو بھارت کی داخلی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کیں تو مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر’ تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات اور مسلم نسل کشی کو ہندو دھرم کا اظہار قرار دینے سے پیدا ہونے والی صورتحال کے سکیورٹی فورسز’ ان کے معاون اداروں اور پولیس پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ہندو توا کے علمبردار مودی حکومت کی پشت پناہی سے بھارت کو اقلیتوں کے لئے غیرمحفوظ بنانے کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ بدقسمتی سے ان قوتوں کوگجرات کے قصائی کا لقب پانے والے نریندر مودی کے دوسری بار وزیراعظم بن جانے سے تقویت حاصل ہوئی۔ مودی نے بھارتی ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ کے طور پر گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی اور ان کی گھریلو و کمرشل جائیدادوں پر ہندوئوں کے قبضے کے عمل کی سرپرستی کی تھی اسی بنا پر کئی برسوں تک ان کے امریکہ میں داخلہ پر پابندی بھی عائد رہی۔ گجرات میں ہوئی مسلم نسل کشی پر عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی مجرمانہ خاموشی نے انتہا پسندوں کومزید کھل کھیلنے کا موقع دیا۔ ہندو انتہا پسندوں کے اس گھنائونے کھیل کو بھارت کے نئے شہری قوانین سے بھی تقویت ملی۔ گزشتہ سات برسوں کے دوران بھارت کو مسلمانوں کا بوچڑ خانہ بنادینے والی مودی سرکار کے حوصلے اس وقت مزید بڑھ گئے جب بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے زمینی اور تاریخی حقائق کو نظرانداز کرکے انتہا پسندوں کے حق میں فیصلہ سنایا۔بدقسمتی سے نریندر مودی حکومت اپنی مسلم دشمنی کو ہندو توا کے لئے ضروری سمجھتی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ تقسیم برصغیر کے بعد بھارتی مسلمانوں کے لئے بدترین شب و روز مودی سرکار کے ایام ہیں۔ مشرقی بنگال اور چند دوسری ریاستوں میں کمیونسٹوں اور قوم پرستوں کے اقتدار کی وجہ سے بی جے پی اور آر ایس ایس کو اپنا منصوبہ آگے بڑھانے کے مواقع نہیں ملے مگر جہاں جہاں انتہا پسندوں کو موقع ملا انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ دیگر مذہبی اقلیتوں پر سفاکانہ مظالم ڈھائے ان کی عبادت گاہوں اور مقدسات کی توہین کی۔ وزیراعظم نریندر مودی کو پانچ آرمی چیفس اور بیوروکریٹس سمیت دیگر ایک سو اہم شخصیات کی طرف سے لکھے گئے مشترکہ خط میں مستقبل کے حوالے سے جن خطرات کی نشاندہی کی گئی ہے ان سے انکار ممکن نہیں۔ بھارت کی حالیہ 74سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں سابق آرمی چیفس، بیوروکریٹس اوردیگر شخصیات نے ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت اور بالخصوص مسلم دشمنی کو ملک کی داخلی صورتحال کے لئے خطرناک قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت نے اس کے تدارک کے لئے اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی برتی تو انتہا پسندانہ رجحانات کے مسلح افواج معاون فورسز اورپولیس پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ انتباہ بروقت ہی نہیں حقیقت پسندانہ بھی ہے۔ ملک کے اہم شعبوں میں خدمات سرانجام دینے والوں کی تشویش بجا طور پر درست ہے۔ قبل ازیں بھی بھارت میں مختلف شعبوں کی اکادکا شخصیات سیکولر آئین کی اساس کی حفاظت کو ملک کے لئے ناگزیر قرار دیتی رہی ہیں۔ گو بھارتی حکومت نے پچھلے برسوں میں اٹھنے والی ایسی آوازوں پر کان نہیں دھرے لیکن ایک سو اہم شخصیات کے حالیہ خط کو نظرانداز کرنا اس کے لئے بہت مشکل ہوگا۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کے بڑے سنجیدہ حصے نے جس طرح اس خطہ کے مندرجات کو اہمیت دی اور حکومت کو اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے متوجہ کیا ہے یہ بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ ہندو توا اور اکھنڈ بھارت کے خوابوں کی تجارت کرتے نریندر مودی اور ان کے انتہا پسندوں کی زہریلی مہم کے باوجود مسلم دوستی کے حق میں سنجیدہ فکر طبقات کی آوازیں باعث اطمینان ہیں۔ گو بھارتی حکومت اور بالخصوص نریندر مودی سے بہت زیادہ امیدیں وابست نہیں کی جاسکتیں لیکن یہ امر اپنی جگہ بجا ہے کہ اس خط کے بھارتی رائے عامہ پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے اور دیگر طبقات بھی اپنا فرض ادا کریں گے تاکہ سیکولر بھارت کا چہرہ مسخ کرکے اسے ہندو توا کی ریاست بنانے کیلئے سرگرم عمل قوتوں کی حوصلہ شکنی ہو ، بھارتی سماج کی نئی نسل خصوصا کالجز اور یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم نوجوانوں نے ہندو توا کے خلاف جس رد عمل کا گاہے بگاہے مظاہرہ کیا وہ بھی حوصلہ افزا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author