حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے کچھ ” دوستوں ” کا بھی کوئی حال نہیں کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ ان کی ” دکانیں ” ڈیل کہانیوں سے ہی چلتی ہیں مارچ میں پی ڈی ایم کے بکھرنے کے بعد سے یقین دلارہے تھے پیپلز پارٹی اور زرداری نے ڈیل کرلی ہے
مردِ بحران فقط کامریڈ نوازشریف ہے ، گزشتہ 9 ماہ سے میاں دے نعرے وجن گے ڈیل والے بھجن گے راگ ملہاری الاپ رہے تھے
لیکن ساتھ ہی کبھی کبھی ہلکی تھاپ پر یہ اطلاع بھی دیتے رہے کہ میاں صاحب سے ” نمائندوں ” کی ملاقاتیں ہورہی ہیں بس ” وہ ہی نہیں مان رہے "
چڑیاوالے لالے نے تو میاں صاحب کی شرائط صلح تک بتادیں اب بتایا جارہا ہے کہ معاملات طے پاچکے ہیں بس ” معاہدہ تحریر ” کرنے کی شرط اور مقدمات کیسے ختم ہوں گے جونہی یہ دونوں باتیں طے ہوگئیں میاں صاحب آئے اور آئے بس ،
پچھلے چارپانچ دنوں سے یہ سودا بک رہا ہے بیچنے دیجئے روزی روٹی بھی تو کرنا ہی پڑتی ہے یہ پیٹ بہت پاپی چیز ہے ،
ویسے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف آئندہ برس جنوری یا جب بھی وطن واپس آنا چاہیں یہ ان کا قانونی حق ہے، وہ اس ملک کے شہری ہیں دوبار صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ اور تین بار وزیراعظم منتخب ہوئے،
سابق وزیراعظم کچھ عرصہ قبل علاج کے لئے بیرون ملک گئے تھے اس روانگی کے سارے قانونی تقاضے پورے کئے گئے کیونکہ وہ کرپشن کے مقدمات میں سزایافتہ اور جیل میں تھے،
لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواست کی سماعت کے ایک مرحلہ میں ان کے برادر خورد اور اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے تحریری گارنٹی دی کہ نواز شریف علاج کے لئے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں ان کی واپسی شیڈول کے مطابق ہوگی،
بیرون ملک روانگی کے لئے وفاقی کابینہ نے ان کا نام ای سی ایل سے نکالا، علاج کے لئے وطن سے برطانیہ پہنچ کر چنددن مصروف رہے پھر انہوں نے بھرپور سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ، جلسوں اور پارٹی اجلاسوں سے ویڈیو کال کے ذریعے خطابات کے دوران بسا اوقات وہ ایسے جملے بولتے دیکھائی دیئے جن سے مسائل پیدا ہوئے،
ان کی جماعت کا کہنا ہے کہ مسائل ہرگز پیدا نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے غیر سیاسی کرداروں کے دستور سے ماورا کر دار کو بے نقاب کیا،
جبکہ حکومت کا موقف یہ رہا کہ نواز شریف اداروں کو متنازعہ بنا رہے ہیں، وطن عزیز سے روانگی کے بعد سے اب تک انہوں نے اپنی بیماری کے علاج پر کتنی توجہ دی اور عدالتی احکامات کے مطابق طبی معائنہ اور ٹیسٹوں کی رپورٹ متعلقہ حکام کو کتنی بار بھجوائیں اس پر بھی نون لیگ اور حکومت کا موقف مختلف ہے،
پنجاب حکومت کا موقف ہے کہ قانونی طریقہ کار کے مطابق انہیں اپنی میڈیکل رپورٹس قونصلر آفس کے ذریعے بھجوانی چاہئے تھیں جوکہ نہیں بھجوائی گئیں، علاج کے لئے بیرون ملک جانے کی مقررہ مدت تمام ہونے کے بعد پیدا ہوئے قانونی مسائل کے حل کے ضمن میں ان کی قانونی ٹیم نے متعلقہ ذرائع سے رجوع کرنے کی بجائے معاملے کو سیاسی طور پر ہینڈل کرنے کا راستہ اپنایا،
مسلم لیگ (ن) اور ان کے خاندان کا ان کی وطن روانگی کے بعد سے یہی موقف رہا ہے کہ پاکستان میں ان کی جان کو خطرات لاحق ہیں ان کی صاحبزادی مریم نواز نے ایک مرحلہ پر یہ الزام بھی لگا کہ نواز شریف کی جیل میں سلوپائزنگ سے جان لینے کی کوشش کی گئی۔
سیاسی اتار چڑھائو تندوتیز تقاریر الزامات کی دوطرفہ جگالی اور ملک کے اہم سکیورٹی اداروں کی بعض شخصیات کو نام لیکر مورد الزام ٹھہرانے کی سیاست کو سابق وزیر اعظم اور ان کے رفقا نے ’’ووٹ کو عزت دو اور سول سپرمیسی” کے قیام کی جدوجہد کا نام دیا،
ماضی میں جب بھی ان کی وطن واپسی کے حوالے سے سوال کیا گیا تو قانونی مشیروں، جماعت کے رہنمائوں اور صاحبزادی مریم نواز نے دوٹوک موقف اپنایا کہ
’’پاکستان میں ان کی جان کو خطرات لاحق ہیں جب تک ان خطرات سے تحفظ کی ضمانت نہیں مل جاتی وہ وطن واپس نہیں آئیں گے”
اپوزیشن اتحاد پی ٹی ایم بنانے والی جماعت پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں دوریاں بھی پی ڈی ایم کے اس اجلاس میں پیدا ہوئیں جس میں پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے سربراہ آصف علی زرداری نے سابق وزیراعظم سے وطن واپس آکر حکومت مخالف تحریک کی قیادت کرنے کے لئے کہا تھا،
زرداری کی اس درخواست پر نواز شریف کی صاحبزادی نے اجلاس میں بھی نامناسب رویہ اپناتے ہوئے سوال کیا کہ کیا پیپلز پارٹی اور زرداری ان کے والد کی زندگی کی گارنٹی دے سکتے ہیں؟
اب پچھلے کچھ عرصہ سے میاں نواز شریف کے قریب سمجھے جانے والے صحافیوں، اینکروں اور یوٹیوبرز نے نواز شریف سے اہم ریاستی شخصیات اور ان کے نمائندوں کی ملاقاتوں ملک سنبھالنے کی درمندانہ درخواستوں کے تذکروں سے سماں باندھ رکھا ہے،
گزشتہ چند دنوں سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ معاملات طے پا گئے ہیں اور نواز شریف آئندہ برس جنوری میں کسی بھی وقت وطن واپس آجائیں گے،
معاملات کس نے کس کے ساتھ طے کئے؟ اس سوال کے جواب میں مبہم باتیں ہیں البتہ یہ سوال اہم ہے کہ کیا نون لیگ اور شریف خاندان کو سابق وزیراعظم کی زندگی کی ضمانت مل گئی ہے؟
ان کی وطن واپسی اور کسی انقلاب کے برپا ہونے کے بلند وبانگ دعوئوں کے درمیان ایک خبر یہ بھی ہے کہ برطانوی ویزہ ختم ہونے کے خلاف ان کی اپیل کورٹ میں دائر درخواست کا جنوری کے اوائل میں فیصلہ متوقع ہے،
سابق وزیراعظم کے قانونی مشیران یہ سمجھتے ہیں کہ برطانیہ میں مزید قیام کی ان کی درخواست میں بیان کی گئی وجوہات کمزور ہیں جبکہ پاکستان کے ایک بڑے پراپرٹی ٹائیکون اور سابق وزیراعظم کے صاحبزادے کے درمیان لندن میں پراپرٹی کے ایک سودے سے پیدا ہوئے قانونی مسائل بھی پیچدہ ہو رہے ہیں
ان حالات میں ان کی وطن واپسی ناگزیر ہے، پاکستانی پاسپورٹ کی تجدید سے محروم سابق وزیراعظم کے پاس دو ہی راستے ہیں اولاً یہ کہ وہ سیاسی پناہ کی درخواست دیں یا پھر پاسپورٹ کی تجدید کراکے وطن واپس لوٹ آئیں،
ان کی واپسی کو مرضی کا رنگ دینے کے لئے جاتی امرا کا میڈیا سیل تو سرگرم ہی لیکن مجاہدین سول سپر میسی بھی پرجوش ہیں وہی مجاہدین جن کے خیال میں محفوظ راستے کے حصول کیلئے معاہدہ کرکے نکل جانا دانشمندی کی معراج ہے،
مکرر عرض ہے کہ وطن واپسی میاں نوازشریف کا قانونی حق ہے واپسی کی صورت میں انہیں خود کو متعلقہ حکام کے حوالے کرنا ہو گا، سزائوں کے خلاف اپیلیں زیر سماعت ہیں ان کے فیصلوں تک جیل میں رہنا قانونی مجبوری ہے
یہ کہنا کہ ان کی کسی کے ساتھ ڈیل ہو گئی درست ہے تو سول سپرمیسی کی بالادستی اور ووٹ کو عزت دو کے بلند وبانگ دعوے اپنی موت آپ مر جائیں گے، بظاہر ایسا ہی لگتا ہے کہ درونِ سینہ رازوں کی پردہ پوشی کے لئے ڈیل اور ڈھیل کے ساتھ انقلاب کے ظہور کا پروپیگنڈہ کرکے اصل مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹائی جارہی ہے،
ایسا ہے تو پھر اس طور نون لیگ کی سیاسی ساکھ دائو پر لگ جائے گی فقیر راحموں کہتے ہیں یہ نوازشریف ہیں جو دس سالہ معاہدہ جلاوطنی کر کے چلے گئے تھے اور مسلسل معاہدہ کی تردید کرتے رہے یہاں تک کے تحریری معاہدہ منظر عام پر آگیا
اس پر کہا گیا جان بچانے کی اجازت تو اسلام بھی دیتا ، ہماری دانست میں ڈیل ، معافیوں اور ملک سنبھالنے کی پرزور درخواستوں کے پروپیگنڈے کا طوفان اٹھا کر فاتح بننے کی بجائے سابق وزیراعظم حقیقت پسندی سے کام لیں اور وطن واپس آکر قانونی تقاضے پورے کریں،
کالم یہاں تک پہنچا تھا کہ مجاہدین کے "مجاہد” نے دعویٰ کیا پیپلز پارٹی بھی ڈیل کیلئے ہاتھ پاوں مار رہی ہے ، ارے کل تک تو بتایا جارہا تھا پیپلز پارٹی نے مارچ میں ڈیل کرلی تھی پھر وہ اب ہاتھ پاوں کیوں مارتی پھرتی ہے ؟
خیر چھوڑیئے ان باتوں میں کیا رکھا ہے البتہ یہاں ہم حکومتی زعما سے درخواست کریں گے کہ وہ بھی ہوا میں تلواریں چلانے کی بجائے دیکھو اور انتظار کرو کی حکمت عملی اپنائیں آخر جنوری کونسا سات کوس دور ہے دوتین دن میں آیا کے آیا بس
پسِ نوشت
کالم لکھ کر بھجیوا چکا تھا کہ مسلم لیگ ن نے میاں نوازشریف کی وطن واپسی کے حوالے سے پارٹی موقف جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارٹی قائد میاں نوازشریف کی وطن واپسی کا ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا
بدھ 29 دسمبر 2021 ء
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر