مجاہد حسین خٹک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میڈیا ہمیں اکثر ایسے مناظر دکھاتا رہتا ہے جس میں کسی سیاسی جماعت کے کارکن کھانے پر دیوانوں کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ایک ہڑبونگ اور افراتفری کا سماں بندھ جاتا ہے جسے دیکھ کر عجیب سی کراہت کا احساس ہوتا ہے۔ جو کھانا سو آدمیوں کے لئے بہت ہونا چاہئے اسے حرص کی وجہ سے اسطرح برباد کیا جاتا ہے کہ کسی کا پیٹ نہیں بھر پاتا۔
تھوڑی دیر کے لئے اپنے تخیل میں کھانے کی جگہ ریاستی اقتدار کو لے آئیں اور عوام کی جگہ سیاسی جماعتوں اور مختلف اداروں کو رکھ لیں تو بالکل ویسا ہی سماں نظر آئے گا۔ عوامی نمائندے، پارلیمنٹ، عدلیہ اور فوجی اسٹبلشمنٹ طاقت واختیار کے کیک کے لئے باہم دست وگریباں ہیں، ہر کسی کی خواہش ہے کہ زیادہ سے زیادہ حصہ خود سمیٹ کر باقیوں کوتہی دامن کر دے۔
اس تمام جھگڑے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کسی کے دامن میں اتنا اختیار نہیں آ رہا جو ریاست کی رٹ قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے۔ جو توانائیاں عوامی مسائل حل کرنے اور ملک کو آگے بڑھانے پر صرف ہونی چاہئیں وہ اختیار کی رسہ کشی میں صرف ہو رہی ہے۔
ہمارا عام آدمی ہزارہا سال سے جی بھر کے روٹی کھانے سے محروم رہا جس کی وجہ سے بھوک نے معدے کی جگہ اس کی نفسیات میں جڑیں پھیلا لیں۔ اب معدہ بھر بھی جائے پھر بھی ذہن ہل من مزید کا مطالبہ کرتا رہتا ہے۔
بالکل اسی طرح کئی ہزار سال سے ہماری اشرافیہ بادشاہوں اور ان کے نمائندوں کے قدموں میں ماتھا رگڑتی رہی ہے تاکہ اقتدار کے چند سکے اسے عطا ہو سکیں۔ جی بھر کے اختیار اسے کبھی نصیب نہیں ہوا جس کی وجہ سے اس کی نفسیات میں احساس محرومی بیٹھ گیا۔
قیام پاکستان کے بعد انہیں ایک دم سے لامحدود اختیار ملا تو ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ صدیوں کی محرومی روح کی گہرائیوں سے ابھری اور ان کے دل و دماغ پر سوار ہو گئی۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی مسائل سے لاپروہ یہ اشرافیہ مختلف گروہوں میں بٹ کرمطلق اختیار کے لئے لڑ رہی ہے۔
ہم امید کر سکتے ہیں کہ اگر جمہوری تسلسل جاری رہا تو دھیرے دھیرے تمام گروہ اپنے اپنے حصے کی سوغات لے کر پرسکون ہوجائیں گے اور پھر ان کی توجہ ملکی ترقی کی جانب مرکوز ہو جائے گی۔ یہ تجسس البتہ ابھی باقی ہے کہ عوام کھانے کے معاملے میں پہلے سدھرتی ہے یا اشرافیہ اختیار کے معاملے میں۔
( پرانی یادیں)
یہ بھی پڑھیے:
چار سالہ پارلیمانی مدت، ایک سوچ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر