نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کھوکھلی سیاست||رسول بخش رئیس

افسوسناک پہلو یہ ہے کہ غریبوں کی تذلیل کی جاتی ہے۔ فقط دو دو ہزار کے عوض، ان سے حلف لیا جا رہا ہے۔ ان پہ اعتماد نہیں کہ دو ہزار وصول کرنے کے بعد وہ ووٹ کو عزت دیں گے یا نہیں۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عوام کا اعتماد سیاست، سیاست بازوں اور اداروں سے اٹھ جائے تو نظام کھوکھلا رہ جاتا ہے۔ ایسے ہی کہ کوئی خول ہو اور اندر سے گودے سے خالی۔ کوئی بھی چیز صرف کھال کے سہارے تو موسموں کے اثرات اور زمانے کی زد سے زیادہ دیر محفوظ نہیں رہ سکتی۔ گر پڑے گی، زمین بوس ہو گی، ہوا اور مٹی میں تحلیل ہو کر رہے گی۔ جمہوریت کی پائیداری، مضبوطی اور معاشرے میں گہری بنیادیں پڑنے کیلئے سیاسی علوم کے ماہر سماجی سرمایہ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ کسی جمہوری نظام کو پرکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ وہاں کا سماجی سرمایہ کتنا ہے۔ محدود ہے یا پھیلا ہوا ہے۔ گہرا ہے یا سطحی ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ سماجی سرمایہ ہوتا کیا ہے۔
سماجی سرمایے میں تین چیزیں شامل ہیں: باہمی اعتماد، ذمہ داریاں اور تعاون۔ تقریباً نصف صدی قبل اٹلی اور کچھ اور ممالک میں تحقیق یہ ہو رہی تھی کہ ایسا کیوں ہے کہ کچھ ملکوں اور ایک ہی ملک کے کچھ علاقوں میں جمہوریت حقیقی انداز میں چلتی ہے اور اکثر ممالک میں صرف نام کی جمہوریت ہے۔ تو نتیجہ یہ نکلا کہ جس معاشرے میں سماجی سرمایہ زیادہ ہو گا، وہاں جمہوریت کی کامیابی کے امکانات زیادہ روشن ہوں گے‘ اور جہاں یہ ناپید ہو گا یہ بہت کم، وہاں جعلی پن کی جلوہ گری ہوگی اور پھر سیاست اور جمہوریت کھوکھلی، صرف نعرے بازی پہ قائم ہوگی۔
جگہ کی تنگی دامنی کے پیش نظر آج صرف ہم ایک عنصر کو لیتے ہیں‘ وہ ہے: اعتماد۔ اس کی کئی جہتیں ہیں۔ سب کو بیان کرنے کی اس وقت نہ ضرورت ہے اور نہ ہی گنجائش بن سکتی ہے۔ دو تین باتیں میں ضرور عرض کرنا چاہوں گا۔ پہلی یہ کہ کیا ہم ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہیں؟ اس کو بھی دیکھنے کیلئے ہمیں ذرا کچھ باریکی میں جانا ہو گا کہ کس طبقے کے لوگ ایک دوسرے پہ اعتماد کرتے ہیں اور کس کے ایک دوسرے سے شاکی رہتے ہیں۔ اپنی اس بارے میں جو محدود تحقیق ہے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی طبقے اور پیشے سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان باہمی اعتماد نسبتاً زیادہ دیکھنے میں آتا ہے۔ کسی مارکیٹ میں دکاندار ہوں، کسی محلے کی عورتیں ہوں اور گھروں میں کام کاج کرنے والی عورتیں یا مرد ہوں اور انہوں نے کمیٹیاں ڈال رکھی ہوں، بچت اور باہمی امداد کیلئے، تو ایسا کم بلکہ ہوتا ہی نہیں کہ کوئی اپنی ذمہ داری پوری نہ کرے۔ کوئی لکھائی پڑھائی نہیں، صرف اعتماد پر ہزاروں ایسی کمیٹیاں بنائی اور چلائی جا رہی ہیں۔ ایک اور مثال دیہی زندگی سے آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ زمین ہموار کرنے، کھیت سنوارنے، بوائی اور کٹائی کیلئے ہمارے علاقوں میں ایک دوسرے کی مدد کی جاتی تھی اور اب بھی کہیں کہیں ایسا ضرور دیکھا ہے۔ ہمیں ضرورت ہو تو کسانوں کو زحمت دیتے ہیں اور انہیں ضرورت پڑے تو ہم اپنا حصہ ضرور ڈالتے ہیں۔ یہ روایتی نظام صرف باہمی اعتماد اور بھائی چارے پر قائم ہے۔ اگرچہ اس بڑھتے ہوئے مشینی دور میں‘ زراعت میں اس کی افادیت قدرے کم ہوتی جا رہی ہے مگر یہ بہت ہی محدود نوعیت کا مشاہدہ ہے‘ جو ہماری پیچیدہ اور وسیع قومی‘ سیاسی زندگی کا احاطہ نہیں کرتا۔
یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ ہماری سیاسی جماعتوں کو انتخابی عمل پہ اعتماد نہیں۔ ایک دوسرے کی قیادت پہ تو بالکل بھی نہیں۔ دوسروں کو قوم اور ملک دشمن صرف سمجھتے نہیں، زور زور سے نعرے لگاتے ہیں۔ جو باتیں کہی جا رہی ہیں اور ایک عرصہ سے، عدالتی نظام پر سے بھی عوام اور سیاسیوں کا اعتماد مکمل طور پر اٹھا نہیں گیا، تو کمزور ضرور ہوا ہے۔ عوام کا نوکر شاہی پہ کہیں اعتماد نظر نہیں آتا۔ کہیں پہ عام آدمی کا سرکاری دفتر سے کام پڑے، ہتھیلیوں کو گیلا کرنا ضروری امر بن جاتا ہے‘ ورنہ جوتے گھسانا پڑتے ہیں، سفارشیں ڈلوانے اور منتیں کرنے سے بھی جائز کام نہیں ہو پاتے۔ یہ افسانوی باتیں نہیں، لوگوں میں رہتے ہیں، ان کی ہر روز سنتے رہتے ہیں اور اپنا مشاہدہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
سب سے بڑا معاملہ تو ہمارے سیاسی نظام کا ہے، جو بالکل عوامی اعتماد سے خالی نظر آتا ہے، حقیقتاً ایسا ہی ہے۔ یہ فقط نعرے بازی ہے کہ لوگوں نے ووٹ دیا ہے اور اس لیے ”ووٹ کو عزت‘‘ دی جائے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم لوٹ مار کریں، جھوٹ بولیں، دھوکا دیں، قومی وسائل تباہ کریں، عوام کو گھاس کھانے پہ مجبور کریں اور خاندانی سیاست ریاستی وسائل سے چمکائیں، سب جائز ہے۔ کوئی سوال نہ اٹھائے کیونکہ لوگوں نے ووٹ ڈالے ہیں۔ ہرگز انکار نہیں کہ لوگ ووٹ ڈالتے ہیں، اپنے حلقے کے امیدواروں کو۔ مقابلے بھی ہوتے ہیں، کہیں کہیں کانٹے دار، مگر ووٹ کسی نظریے، منشور کو نہیں، کسی پروگرام کو کم ہی، اصل کرشمہ امیدواروں کی ذاتی حیثیت اور حلقے کے عوام کے ساتھ گہری وابستگی کا ہے۔ اس کی بنیاد بھی ذات، برادری، قومیت، قبائلیت اور زیادہ تر سرپرستی اور لین دین پہ ہے۔ میں اس بات کا قائل ہوں، یہ لولی لنگڑی جمہوریت چلتی رہے، تو اس میں بہتری آہستہ آہستہ ضرور آئے گی۔ ابھی کوئی زیادہ آثار اگرچہ نظر نہیں آتے، عوام کا اعتماد سیاسی نظام، جمہوریت اور سیاسی جماعتوں پہ کمزور نظر آ رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ان کی کرپشن اور وہ بھی دھڑلے سے اور جس کے ثبوت پاکستان کے علاوہ دنیا کے بڑے شہروں میں بکھرے پڑے ہیں۔ اگر ہمارے سیاسی لوگوں کا خیال ہے کہ عوام بہرے، اندھے اور گونگے ہیں تو وہ خود فریبی کا شکار رہیں گے۔ متبادل وہ تلاش کرکے رہیں گے۔ یہ ایک تاریخی اور ارتقائی جمہوری عمل ہے۔
سیاسیوں کو بھی معلوم ہے کہ عوام کا اعتماد ان پر نہیں رہا۔ حلقے میں جاتے ہیں تو لوگ روایتی ادب و احترام کا مظاہرہ کرتے ہیں، لیکن جب ووٹ ڈالنے کا وقت آتا ہے تو قیمت مانگتے ہیں۔ اب تو اشاروں کنایوں سے نہیں، کھل کر بات کرتے ہیں کہ چوہدری صاحب! ہمارے اتنے ووٹ ہیں، نوٹ کتنے ملیں گے؟ یہ جو ‘ووٹ کو عزت دو‘ والوں کی لاہور کے حلقے کی خالی سیٹ پر چند دن میں ہونے والے انتخاب میں ووٹ خریدنے کی وڈیو منظر عام پہ آئی ہے، شرمناک تو ہے، مگر یہ ہر جگہ بہت عرصے سے ہو رہا ہے۔ عام لوگوں کے ذہن میں اب کوئی سیاسی لگاؤ نہیں، بھاؤ کی اہمیت ہے۔ زاویۂ نگاہ یہ ہے کہ ہمارے ووٹوں سے یہ اراکین منتخب ہوتے ہیں، مشیر، وزیر بنتے ہیں اور پھر ذاتی خزانے پُر کرتے ہیں، ہمیں اپنا حصہ کیوں نہیں لینا چاہیے۔ جب سیاست کا جمہوری رنگ غائب اور خاندانی گدی نشینی‘ چمک دمک رہنی ہے، تو عوام کا اعتماد کس بنیاد پر قائم رہ سکتا ہے؟
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ غریبوں کی تذلیل کی جاتی ہے۔ فقط دو دو ہزار کے عوض، ان سے حلف لیا جا رہا ہے۔ ان پہ اعتماد نہیں کہ دو ہزار وصول کرنے کے بعد وہ ووٹ کو عزت دیں گے یا نہیں۔ اس لیے مذہب کا سہارا لیا جا رہا ہے کہ شاید وہ وعدے کی پاسداری کریں۔ اور اگر ان غریب لوگوں کا اعتماد ہو کہ یہ ووٹ خریدنے والے ان کیلئے کچھ کریں گے، تو پھر اس ذات پر فروخت کی ضرورت ہی کیوں پیش آئے؟ ایک اور بات، غریبوں کیلئے یہ معمولی کیش بھی کچھ حیثیت رکھتا ہے کہ وہ قسمیں اٹھا کر کہہ رہے ہیں کہ وہ ”ووٹ کو عزت دیں گے‘‘ اعتماد نہ رہے تو سیاست کاروبار بن جائے اور یہ کاروبار کرنے والے، خاندانی بادشاہتیں قائم کر لیں تو نظام تو کھوکھلا ہوگا۔ اس لئے تو یہ ردی کی ٹوکری میں جا گرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author