نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیرہ کا موسیقی کا شوقین حکمران ۔۔||گلزار احمد

لکھی مل کا ایک اکلوتا بیٹا دولت راے تھا جو بڑے ناز نعم سے پلا تھا اور ہندی و فارسی رسم الخط اور سیاست کی تعلیم باپ سے سیکھی تھی۔دولت رائے بڑا خوبرو اور خوش شکل تھا اور رقص و موسیقی کا دلدادا تھا بلکہ ڈیرہ شھر کے ایک بڑے موسیقی گروپ کا سربراہ تھا۔۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈیرہ کا موسیقی کا شوقین حکمران ۔۔
آج سے 184 سال پہلے 1836ء میں پورے پنجاب میں رنجیت سنگھ کی حکومت تھی اور دریا سندھ کے مغربی پار بنوں ۔لکی مروت۔عیسی خیل بھی خالصہ حکومت کا باجگزار تھا۔ڈیرہ اسماعیل کو ان دنوں اپنی موجود نئی جگہ پر بنے گیارہ سال ہی ہوۓ تھے کیونکہ پرانا ڈیرہ تو 1823ء میں دریا کے سیلاب میں ڈوب چکا تھااور 1825ء میں نئی جگہ آباد ہوا۔اس وقت نواب شیر محمد خان ڈیرہ کا حکمران تھا۔
1836ء کے موسم بہار میں رنجیت سنگھ نے اپنے پوتے نونہال سنگھ کو ایک بڑی فوج کے ساتھ ڈیرہ حملہ کرنے کے لیے بھیجا ۔نواب شیر محمد خان نے بغیر لڑائی کے حکومت سکھوں کے حوالے کر دی اور ڈیرہ میں خالصہ راج شروع ہو گیا۔ نونہال سنگھ نے ایک ڈیرہ وال ہندو لکھی مل کو ڈیرہ کا منتظم مقرر کر دیا۔ لکھی مل نواب شیر محمد خان کا میر منشی تھا اور حکومتی فرایض سے واقف تھا۔نونہال سنگھ چار ماہ یہاں رہا ۔اس نے قلعہ اکال گڑھ تین ماہ میں تعمیر کرا دیا اور خالصہ حکومت کو مستحکم کرنے کے بعد واپس لاھور چلا گیا اور لکھی مل کو لاھور سے کنٹرول کرنے لگا۔ ۔
لکھی مل کا ایک اکلوتا بیٹا دولت راے تھا جو بڑے ناز نعم سے پلا تھا اور ہندی و فارسی رسم الخط اور سیاست کی تعلیم باپ سے سیکھی تھی۔دولت رائے بڑا خوبرو اور خوش شکل تھا اور رقص و موسیقی کا دلدادا تھا بلکہ ڈیرہ شھر کے ایک بڑے موسیقی گروپ کا سربراہ تھا۔۔
ایک انگریز ایلیگزینڈر برنز جس نے 1837ء میں ڈیرہ کا دورہ کیا لکھتا ہے کہ لکھی مل نے اس کے اعزاز میں وہاں کے رقاص خانے میں ایک جشن موسیقی اور محفل رقص منعقد کی۔اس محفل میں کافی تعداد میں گلوکارائیں ۔خوبرو اور چست و چنچل رقاصائیں اور سازندے لائے گیے۔ ہر اداکارہ نے لاتعداد زیورات زیب تن کیے ہوۓ تھے۔آنکھوں میں سرمہ اور کاجل اس ڈھنگ سے لگایا ہوا تھا کہ آنکھیں بادام کی مانند دکھائی دیتی تھیں۔ مقامی لوگوں کی اصتلاح میں ایسے آنکھوں کو بادام چشم کہا جاتا ہے۔ ان اداکاراٶں نے اپنے گلے میں بڑے چھوٹے مختلف نمونے کے ہار پہنے ہوئے تھے۔ان رقاصاٶں میں ایک رقاصہ تھی جو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ جاذب نظر تھی۔اس کا رنگ سانولا تھا مگر بہت خوبصورت اور پرکشش لڑکی تھی۔اس لڑکی کو مدام بخش کہا جاتا تھا۔ان اداکاراوں نے ہم فرنگیوں کو بہت محظوظ کیا۔شھر کے گورنر(لکھی مل) کا بیٹا جو بہت خوبرو۔نوخیز اور بےریش نوجوان تھا ان اداکاروں میں شامل تھا غالبا” ان کا کوچ coach تھا۔
یہ خوبرو نوجوان دولت رائے تھا.یعنی دولت رائے نہ صرف موسیقی کا شوقین تھا بلکہ اس کا استاد اور کوچ بھی بن چکا تھا۔
تاریخ بتاتی ہے 1843ء میں لکھی مل کو خالصہ حکومت نے کچھ نافرمانیوں کی وجہ سے معزول کر دیا اور فتح خان ٹوانہ کو ڈیرہ کا حکمران بنا دیا۔لکھی مل اپنے گاٶں چودھوان واپس گیا اور چند ہفتوں کے بعد مر گیا۔اس کا بیٹا دولت راۓ لاہور چلا گیا اور وہاں حکومتی حلقوں میں اثر رسوخ پیدا کرنے لگا اور اتفاق سے وہاں مرکزی حکومت تبدیل ہوئی اور اس کے باپ کے حمائیتی حکومتی اقتدار میں آ گئی۔انہوں نے کچھ دنوں میں فتح خان ٹوانہ کو ہٹا کر 1843ء سے 1845ء تک ڈیرہ کا حکمران دولت راے کو بنا دیا یوں یہ موسیقی کا دلدادہ دو تین سال ڈیرہ کا حکمران رہا اور موسیقی اور موسیقاروں کو خوب فروغ ملا۔ان دنوں میلوں ٹھیلوں، تہواروں اور شادی بیاہوں پر سُرنا، شہنائی جسے منگل وادیا بھی کہا جاتا ہے کی سریلی دھن سننے کو ملا کرتی تھی۔ پھر 1848ء میں انگریزوں نے اقتدار سنبھالا تو پھر بھی برصغیر میں مہا میر عالم، عظیم گائک، شہنائی و سُرنا نواز، ستار نواز، کلاسیکل کے ماہر اساتذہ نے ڈیرہ اسماعیل خان جیسے پسماندہ شہر کا موسیقی کے حوالے سے پورے برصغیر میں طرہ بلند کیا ہوا تھا اور انکا طوطی بولتا تھا۔

About The Author