نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مولانا بھاشانی کی سیاست کے نایاب پہلو-برادرین بلیک لوٹس ||عامر حسینی

مسابقت کی سیاست اور طبقاتی مفادات کے درمیان، مولانا جیسا جادو سب کو نہیں ملتا۔ سیاسی اسلام کے ایک مخصوص کیمپ میں بھاشانی پر بھی تکفیر کی گئی ہے۔ ان کی بے دخلی کی سیاست ہمیشہ کی طرح کاروبار کے لیے حکمت عملی کی حرکتوں کو پریشان کرتی ہے

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس مضمون میں مولانا عبدالحمید خان بھاشانی کے بہت ہی کم بیان کیے جانے والے سیاست کے پہلوؤں  کو دریافت کیا گیا ہے۔ ان کے بیعت لیے جانے کے دوران مرید سے حلف کے متن  کا بغور مطالعہ ان کے سیاسی منصوبے بارے ہماری سوجھ بوجھ میں ایک نئی سمت کا اضافہ کرتا ہے۔ یہ ہمیں آج کے غالب ڈسکورس سیکولر بمقابلہ مذہبی سے نجات دلاتا ہے-

Imageعوامی جمہوریہ بنگلہ دیش کے سینے پہ صوفیانہ رائٹنگ پیڈ

 

 

 

کیا آپ نے کسی ایسی شخصیت کے بارے سنا ہو جو بیک وقت مولانا  ہو اور مارکس وادی بھی؟

 

 

میں نے اپنے برش کو پہلی بار مولانا بھاشانی کی معنویت کے لیے استعمال کیا جو لندن میں مقیم بنگالی تارکین وطن کی زندگی کا حصّہ بن جانے والے سماجی اجتماعات میں سامنے آتی ہے۔ یہ 2013ء میں شاہ باغ میں بے ہودہ ثقافتی پاگل پن کے عروج کا زمانہ تھا جو اسلاموفوبیا کی سطح کو پہنچ کر بنگلہ دیش میں سیاست میں مذہب کو لانے پہ پابندی کا مطالبہ کررہا تھا۔ میں سہلٹ کے معروف  ایم سی کالج کے سابق طالب علم جو نیشنل سوشلسٹ پارٹی -جے ایس ڈی کا رکن بھی تھا اور قومی مدرسہ سے پڑھے ہوئے مولوی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ ان کی گفتگو جلد ہی مجادلے میں بدل گئی تھی ۔جے ایس ڈی کے رکن نے مولانا کو جھڑکتے ہوئے کہا،”تم ملّاں لوگ سیاست چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟” مولانا نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتےہوئے الٹا سوال اٹھایا،”بیٹا اپنے باپ کے وجود پہ سوال کیسے اٹھا سکتا ہے؟ ملاں نے اپنی بات جاری رکھی اور کہا،” آزاد ہندوستان اور پاکستان کے بغیر بنگلہ دیش ہوتا کیا؟ اور بھاشانی کے بغیر مجیب نہ ہوتا- اور تمہیں کبھی خیال آیا کہ آزاد ہندوستان اور مولانا بھاشانی کیاں سے ائے تھے<  ‎

 

میں سلہٹ کے مشہور ایم سی کالج سے پڑھے اور نیشنل سوشلسٹ پارٹی کے تاحیات رکن اور قومی مدرسہ سے پڑھے ایک مولانا کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا- جے ایس ڈی کا تعلیم یافتہ مولانا کو جھڑکتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ “تم ملاں سیاست چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ اس پہ مولانا جواب دیا، “بیٹا اپنے باپ کے وجود پر سوال کیسے اٹھا سکتا ہے؟ اس نے مزید کہا،” آزاد ہندوستان و پاکستان کے بغیر بنگلہ دیش بھی نہ ہوتا اور بھاشانی کے بغیر مجیب نہ ہوتا۔

 

اسی موضوع سے متعلقہ گفتگو مجھےیاد ہے ڈھاکہ یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر آفتاب احمد سے ہوئی تھی جب تک ان کا قتل نہیں ہوا تھا اور نہ ہی 2007ء کا ملٹری کودتا ہوا تھا۔ وہ ایک معمے کی وجہ سے الجھن کا شکار تھے جو (بنگلہ دیش) اسلامی چھاترو شبر- بنگلہ دیش اسلامی جمعیت طلباء کے سابقین کے مطالعے سے سامنے آیا تھا۔ اس مطلعے سے ان کو پتا چلا کہ اس کی ایک اقلیت جماعت اسلامی کی ھیرارکی/ تنظیمی ڈھانچے کی درجہ بندی  میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی ، تھوڑی سی تعداد اپنے روحانی مقاصد کی تلاش میں سرگرداں ہوئی اور وہ آخرکار غیر سیاسی تبلیغی جماعت میں چلی گئی ۔ جب کہ ان کی بہت بڑی اکثریت کارپوریٹ سیکٹر یا کاروبار کی دنیا کا حصّہ بن گئی ۔ اور یہ بہت اچھی سرمایہ دار بن گئی ۔ انہوں نے جماعت کی ایک اہم محدودیت کو نوٹ کیا اور کہا کہ یہ بنیادی طور پہ ایک جدید پارٹی تھی جس پہ یہاں وہاں اسلام کا تڑکا لگایا گیا تھا۔ لندن میں رہتے ہوئے میں نے بھی اسی طرح کا مشاہدہ کیا جو اپنے آپ کو مزاحیہ طور پر اسلامی فنانس کلب کے طور پہ پیش کرتا ہے ۔ ہم انھیں “بسم اللہ کیپٹلسٹ/سرمایہ دار کہتے تھے ۔ اسلام کا تڑکا لگا ہوا سرمایہ داری نظام تاکہ اسے مقامی منڈی کے لیے قابل قبول بنایا جاسکے تاکہ ہمارے لوگوں کی تنقیدی آوازوں کو بند کیا جاسکے۔ ہماری گفتگو کا ایک حصّہ جو مجھے افسوس ہے کہ میں اسے مرتب نہ کرسکا وہ ہے جسے ڈاکٹر آفتاب مسلمانوں کے درمیان لبریشن تھیالوجی کی دعوت کہا کرتے تھے اور وہ صحابہ کرام کے درمیان سیاست کو دیکھنے اور مطالعہ کرنے پہ اکساتے تھے۔ شاید مولانا بھاشانی کی روح پرور سیاست ڈاکٹر آفتاب کو ان نظریات کے لیے خمیر مہیا کرتی تھی ۔

 

 

 

لیگاڈو کی پرچھائیں سے فرار : متشدد یوروسنٹرازم سے دوری اختیار کرنا

Laputa_-_Grandville

اکیڈمی آف لیگاڈو (ہوائی جزیرہ) ایک تمثیل ہے جس کا خالق عظیم مزاح نگار جوناتھن سوئفٹ (1667-1745) تھا ، جس نے آئرلینڈ کی محکومیت میں رائل سوسائٹی کے مہمل پن اور اخفا کو بیان کیا- لاپوٹا کا ظالم بادشاہ باغيوں کو جزیرہ میں تاریکیوں میں چھپانے کی دھمکی دے کر تسلط برقرار رکھتا ہے

بھاشانی کی سیاست کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے ہمیں ان کو ان کی روایت کے ساتھ ملاکر دیکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس طرح بطور قاری ہمیں اپنے تعصبات سے دست بردار ہونا پڑتا ہے اور مولانا کو خود اپنے بارے میں بولنے دیا جاتا ہے تاکہ ان کی اپنی درجہ بندیوں اور تعریفات کے زریعے ان کو سمجھا جائے۔ ہمیں اکیڈمی آف لگاڈو/لاپوٹا کے ماہرین کی غلطی سے بچنا لازمی ہے جو غرب مرتکز یک رخی عینک سے چیزوں کو دیکھتے ہیں، یہاں تک کہ جب وہ آئینہ بھی دیکھیں تو تب بھی یک رخا پن ہی ان کو نظر آتا ہے۔ یہ ازکار رفتہ اور بوسیدہ ہوگئی روایت نادانستہ طور پہ بنگلہ دیش اسٹڈیز کے شعبے میں علی ریاض اور ان کے حامیوں کےپروپیگنڈے اور مشہوری کے سبب زندہ رکھی جارہی ہے۔ ایک ایسا علمی شعبہ جو اسلام اور مسلمانوں کو سمجھنے کا دعوی کرتا ہے لیکن اس میں نہ تو لسانیات کی کوئی تربیت ہے نہ مذہب کی بلکہ صحافت اور علم سیاست کا مجموعہ ہے جسے بس اپنے آپ کو مستحکم بنانے میں دلچسپی ہے۔ اس شعبے کے ماہرین مڈل ایسٹرن اسٹڈیز میں اپنے ساتھیوں سے اشارہ لیتے ہیں  اور فارن پالیسی و ڈویلپمنٹ کے نام پہ بولتے ہیں اور ایک ایسی بارانی لینڈ اسکیپ نو قدامت پرس ذہن کے لیے تار کرتے ہیں تاکہ انھیں اپنے گرد لپیٹ کر رکھیں۔ ایسی بے سمتی کے نتائج و عواقب جہالت میں اضافہ کرتے ہیں اور سرمایہ داروں کی  “دہشت گردی کے خلاف جنگ” کی صنعت پہ گرفت کو مضبوط کرتے ہیں۔ اور اس سے اجتماعی نقصانات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اور خیالات اسلامو فوبیا کیی سرحد پہ منڈلاتے ہیں اور کبھی کبھی اس سرحد کو پار کرجاتے ہیں۔ فرہاد مظہر نے حال ہی میں بنگلہ دیش کے ایک قومی روزنامے ” ڈھاکہ ٹرائبون” کی ادارتی پالیسی پہ تحقیق پہ مبنی اپنے ایک مضمون میں اس قسم کی جہالت سے پیدا ہونے والے متعدد بد اثرات کو بے نقاب کیا ہے۔ اس قسم کی سوچ کو سیاسی معروضیت کے معنوں میں جس طرح سے پھیلایا جاتا ہے اس پہ ایڈورڈ سعید نے اپنی کتاب “مستشرقیت” میں تنقید کی ہے۔ اس پہ میتھڈولوجیکل اعتبارسے مقامی امریکی دانشور وارڈ چرچل نے اپنی معروف کتاب ” وائٹ اسٹڈیز” تنقید کی ہے۔ اس موضوع پہ تعمیری اور علمی بنیاد کے ساتھ مطالعہ ملیشیا کے مفکر سید نقیب کا اسلام کا لسانیاتی مطالعے پہ کی گئی تحقیق کو پڑھنے سے شروع کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے ان کی کتاب “اسلام اور سیکولر ازم ” بہت اہم ہے۔

 

بھاشانی کی زندگی برطانوی راج کے دوران اس کے جو لوگ پیدا ہوئے اور پڑھے ان کے سفر کا عکس ہے۔  انھوں نے متحدہ پاکستان کے سارے دور میں عوام کو متحرک کیا اور آزاد بنگلہ دیش میں ان کی جدوجہد کو خوب سراہا گیا۔ سیاسی طور پہ انھوں نے جمعیت علماء ہند سے اپنا سفر شروع کیا اور پھر وہ سفر بائیں بازو کی نیشنل عوامی پارٹی پہ آکر ختم ہوا۔

 

ایک دستاویز جو ان کی  پراسرار شخصیت کے جوہر کو سمجھنے میں ہماری مدد کرسکتی ہے وہ ان کے ایک مرید کا بیعت کے وقت لیا گیا حلف ہے جو وہ اپنے مریدوں سے لیا کرتے تھے۔

 

bhashani murid 2

Remembering Maulana Bhashani: The ‘Play’ of Religion and Politics in Bangladesh

 

 

“میں حلف اٹھاتا ہوں کہ میں اللہ عزوجل پہ مکمل یقین رکھتا ہوں ۔ میں دل سے گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، میں اللہ کے رسول کی طرف سے لاگو کیے گئے ضوابط جن میں امر و نہی دونوں ہیں کی پابندی کروں گا۔

میں اللہ کے سوا کسیی کے اگے سر نہیں جھکاؤں گا۔

میں سوشلزم قائم کرنے کے لیے انتھک کوشش کروں گا جو  انسانوں کی لوٹ کھسوٹ کی تمام شکلوں سے نجات کا راستا ہے۔

میں کسانوں کے رضاکار دستوں کے ساتھ شامل ہوکر سماج میں سامراجیت، سرمایہ داری، جاگیرداری ، سود اور بدعنوانی کی تمام شکلوں کے خاتمے کی جدوجہد کروں گا

میں ان تمام اوراد، وظائف ، دعاؤں اور روزوں کی پابندی کروں گا جن کا طریقہ قادریہ، نقشبندیہ اور چشتیہ میں ذکر کیا گیا ہے۔

ہر سال 19/20 جنوری ، 5 ماگھ سنتوش تنگیل میں ہونے والے بڑے اجتماع میں شریک ہوکر اسلامی یونیورسٹی کی ترقی اور بڑھوتری میں ہاتھ بٹاؤں گا۔”

 

مرید کا عہد اسلامی طریقہ تعلیم کے دو پہلوؤں کی نمائندگی کرتا ہے: عقیدے سے مملو عمل اور ایک زبانی روایت کا تسلسل ۔ عمل یا آرتھوپریکسی وابستگان کو نماز اور روزوں کے زریعے سے جسمانی طور پہ مشغول رکھنا اور انھیں اجتماعی تقریبات میں حاضر رہنے کی ترغیب دلانا اور اس طرح سے ان میں ایسی عادات اور اعمال کو فروغ دینا جن کو بنگلہ دیش میں “ادب” کہا جاتا ہے۔

زبانی روایت کو چشتیہ ، قادریہ اور نقشبندیہ سلسلوں اور ان کی رسوم کے حوالے سے دیکھی جاتی ہے۔ اسلامی روایت لکھنے سے پہلے زبانی تھی ، یہاں تک کہ لفظ قرآن کا معنی “تلاوت/ قرآت/پڑھنا ہے۔ عرب اکثر زبانی تلاوت کو “قرآن اور لکھے ہوئے نسخے کو “مصحف” کہہ کر دونوں میں امتیاز کرتے تھے۔ اسلامی طریقہ تدریس میں قرآن کی زبانی تلاوت کو مقدم رکھا جاتا ہے: حفظ قرآن سے لیکر اس علم کے فہم تک جہاں احادیث کا بیان ہوتا ہے سے لیکر صوفیا کی دعاؤں میں تدریسی شجرے محفوظ رکھے جاتے ہیں۔ ایسی زندہ زبانی روایات بنگلہ دیش میں آزاد، غیر سرکاری قومی مدرسوں اور سلاسل صوفیاء میں سانس لے رہی ہیں۔

 

مسلم ثقافتی ورثے کے حامل  تشکیلی بچپن کے دور ے تجربات کے زرریعے سے اس زبانی روایت کے ساتھ جوڑ سکتے ہیں۔ جب انھیں قران کی چھوٹی سورتیں پڑھائی جاتی ہیں اور پھر حفظ کرائی جاتی ہیں اور ان کو سکھایا جاتا ہے کہ کیسے ایک دن میں پانچ وقت نماز پڑھنی ہے۔ ہدایات کا یہ دائرہ اور مجسم عمل ابتدائی دور نبوی میں مکّہ میں مسلمانوں کی اولین جماعت کے قائم ایک سانچے کے ساتھ پہنچایا جاتا ہے۔ جب جبرائیل امین پیغمبر علیہ السلام کے سامنے تلاوت آیات کرتے اور ان کو قراں کی ابتدائی آیات حفظ کراتے اور دکھاتے کہ کیسے نماز میں ان کو پڑھنا ہے۔ اس علم مبادیات کے اصولوں کی بنیاد موطا امام مالک بن انس میں موجود احادیث پیغمبر موجود ہے ، امام مالک فقہ مالکی کے بانی اور حدیث کی اولین کتابوں میں سے ایک کے مصنف تھے۔ امام مالک بہت سی روایات جانتے تھے ج طلب علم کی ترغیب دیتی ہیں لیکن انھوں نے اس مسئلے پہ محض ایک روایت کے بیان پہ اکتفا کیا جو طلب علم کا جوہر  استاد کے سینے سے   شاگرد کے سینے ممیں منتقل ہونے کو بیان کرتی ہے اور اس کی اصل پیغمبر علیہ السلام تک لے جاتی ہے۔

 

 

 

حکیم لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: اے بیٹے! صاحبانِ علم کی مجلس کثرت سے بیٹھا کرواورحکماء کی بات اہتمام سے سنا کرو۔ اللہ رب العزت حکمت کے نور سے دل کو اس طرح زندہ فرمادیتا ہے جیسے کہ مردہ زمین بارش سے زندہ ہوجاتی ہے

 

MWO-MW011987 - © - J A Akash

شمالی ہندوستان میں روایتی قومی مدرسہ میں کلاس روم (بائیں سمت) (ہتھ ہزاری مدرسہ بنگلہ دیش(دائیں

مزاحمت کا شجرہ (مزاحمت بمعنی مجاہدہ)

 

 

وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْـرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۚ وَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْمُفْلِحُوْن

 

 

َاور چاہیے کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی ہو جو نیک کام کی طرف بلاتی رہے اور اچھے کاموں کا حکم کرتی رہے اور برے کاموں سے روکتی رہے، اور وہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔

 

مولانا بھاشانی کا حلف امر بالمعروف میں سامراجیت اور جاگیرداری کے خلاف جدوجہد کو جاری رکھنے کا عہد بھی لیتا ہے ہمارے 2013 کے صنعتی اور ریاستی جرائم کے جڑواں ٹاورز، ریشما ریسکیو کی پاپرازی سیاست، لونگی مارچ کے متوسط ​​طبقے کے جرم اور سشیل سماج کے والد کی فوج سے بہتر کے مستحق ہیں۔ یہ حلف انسانی یکجہتی اور روحانی بیداری کی ایک روحانی سیاست کو پرجوش کرتا ہے – الانسان الکامل (کامل اور عالمگیر انسان) کی تخلیق کی طرف لیکر جاتا ہے۔

 

ImageImage

الانسان الکامل : الفاظ اور اعمال-الجیلی کے انسان الکامل کا کیرین ٹائپوگرافک امپرنٹ۔ (ر) امیر عبدالقادر الجزائری (1807-1883) صوفی اور عالم اسلام، جنہوں نے 15 سال تک شمالی افریقہ میں فرانسیسی سامراج کے خلاف مسلح جدوجہد کی قیادت کی۔

 

بھاشانی کی سیاسی تربیت پہ روحانیت کا اثر نہ صرف حلف کے مندرجات اور توحید کے اقرار میں ہی دیکھا نہیں جاسکتا بلکہ ان کے استاد کے کالونیل سرمایہ کی بڑھتی طاقت سے تعلقات میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ ٹی ایس ایلیٹ نے  اپنے مضمون ” روایت اور انفرادی فن” میں لکھا تھا

“کوئی شاعر، کسی فن کا کوئی فنکار  تنہا مکمل معنی نہیں رکھتا ۔ اس کو سراہنا ، اس کی تعریف گذر گئےشاعروں اور فنکاروں کو سراہا جانا ہوتی ہے۔ آپ اس کی الگ کرکے قدر جانچ نہیں سکتے؛ آپ کو اسے مرجانے والے شاعروں کے درمیان رکھ  کر جانچ سکتے ہو

 

بھاشانی آسام کے شہر لکھمپور کے بغدادی پیر کے مرید تھے جس نے ان کو اتر پردیش میں دیوبند جاکر مفتی محمود حسن کی شاگردی میں پڑھنے کی نصحیت کی تھی۔ بھاشانی کو پڑھانے والے اساتذہ کی ایسی لڑی تھی جو 1857ء کی جنگ آزادی سے پہلے، دوران اور بعد میں فرنگیوں ے خلاف سامراج مخالف سرگرمیوں سے گہرے طور پہ بندھے ہوئے تھے۔

دہلی کی نیچے دی گئی تصویریں 1857 کے بعد تعمیر شدہ ماحول پر برطانوی انتقام کی درندگی اور قبروں کی سادگی کو ظاہر کرتی ہیں، جو جدوجہد میں حصہ لینے والوں کی عاجزی کی عکاسی کرتی ہیں۔محمود حسن اپنے والد کے ساتھ جنگ آزادی میں شریک ہوئے تھے۔ اور ان کے اپنے استاد رشید احمد گنگوہی کو اس جنگ میں شرکت کے سبب مفرور ہونا پڑا تھا اور بعد ازاں وہ قید بھی ہوئے۔ گنگوہی صوفی حاجی امداد اللہ مہاجر مکّی جیسے صوفی کے مرید تھے۔

 

Image

پرانی دلّی میں جامع مسجد کی دو تصویریں،پہلے (نیچے) اور بعد (اوپر)برٹش فوج کے قہر و انتقام کا منظر(درمیان) محمود حسن (1851-1920)، ان کے شاگرد حسین احمد مدنی (1879-1957) دیوبند انڈیا کی قبریں اور (دائیں) رشید احمد گنگوہی (1829-1905) کی قبر (اتر پردیش ہندوستان)

 

یہ تینوں مولوی (امداد اللہ ، محمود حسن اور مکّی) یا تو مدرسہ رحیمیہ کی 1857ء میں برٹش کے خلاف علمی مزاحمت کے مرکز سے متاثر تھے  یا انہوں نے اس کی پیروی کرتے ہوئے اس جنگ میں حصّہ لیا یا یہ اس روایت کے وارث تھے۔ مدرسہ رحیمیہ دہلی کے فاضلین اور شاگردوں نے اس مزاحمت میں علمی اور عملی دونوں طرح سے حصّہ ڈالا، اسے جواز بخشا اور تحریکوں اور مدافعین کو ایک سمت دی – رحیمیہ اسم صفت ہے جو خدائی رحمت ، عظمت اور پیار کے معنوں میں ادا ہوتا ہے اور یہ انسانی محنت ، قربانیوں اور دعاؤں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ رحیمیہ مدرسہ 17 ویں صدی میں اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں شاہ عبدالرحیم نےقائم کیا تھا جنھوں نے فتاوی عالمگیری کی تدوین میں مدد کی تھی جو مسلم فقہی روایت کی عظیم الشان تدوین تھی۔

Aurungzebs Quran

شہنشاہ عالمگیر کے ہاتھوں سے لکھا ہوا قران  کا نسخہ جوکہ مسلم لٹریری سوسائٹی سلہٹ بنگلہ دیش کے کتب خانے میں نمائش کے لیے رکھا ہوا ہے- بعد میں جسٹنین نے ایک کمیشن قائم کیا مسلم فقہ کا ایک متحدہ کوڈ بنانے کی کوشش کرتے ہوئے فتاوی عالمگیری کو ہی استعمال کیا

 

 

جب برٹش نے دلّی پہدوبارہ قبضہ کرلیا تو مہذب بنانے کے نام پہ جہاں دوسری بربریتوں کو ان کی فوج بروئے کار لائی وہیں انہوں نے ہندوستان میں ہندوستان میں اسلامی تعلیم کے مرکزی ادارے مدرسہ رحیمیہ کو بند کرنے اور اس کی عمارت کو ہندؤ ساہوکاروں کے ہاتھ بیچ دیا۔ ولیم ڈالرمپل کی کتاب “آخری مغل” میں مرزا غالب کو نقل کرتا ہے

 

“سارے مدرسے قریب قریب بند کردیے گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان کی عمارتوں کو بیچ دیا گیا اور پھر اکثر عمارتیں مسمار کردی گئیں۔ اور خریدنے والے ہندؤ ساہور کار تھے۔ مدرسہ رحیمیہ کو نیلامی میں ایک نامور بنیے رام داس جی نے خرید لیا جو اسے گودام کے طور پہ استعمال کرتا تھا”(ص 463)

رحیمیہ کی راکھ  سے اس کے فاضلین نے مسلمانوں کے نئے تعلیمی ادارروں کی بنیادیں اٹھائیں، دارالعلوم دیوبند (1866) ، محمڈن ایجوکیشنل سوسائٹی علی گڑھ (1866)اور ندوۃ العلماء (1894) نے بدترین طریقے سے بے اختیار بنائی گئی مسلم برادری کی عظمت، سماجی انصاف اور نمائندگی کو قائم کیا۔ ان اداروں کو پورے ہندوستان میں پذیرائی ملی اور علاقائی تحریکوں کو اس سے مہمیز ملی۔ اکر مدرسہ دیوبند، محمڈن ایچوکیشنل سوسائٹی علی گڑھ اور ندوۃ العلماء نہ ہوتے تو بنگلہ دیش میں نہ تو ہتھ ہزاری اور ڈھاکہ یونیورسٹی نہ ہوتے۔ انہی اداروں نے آل انڈیا نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کو لیڈرشپ مہیا کی جنھوں نے آزادی کی جدوجہد کو قیادت فراہم کی- اس شراکت داری کو مارچ 1982ء میں مدرسہ دیوبند کی سو سالہ تقریبات میں وزیراعظم اندرا گاندھی اور اپوزیشن رہنما راج نارائن، جگ جیون رام اور چندر شیکھر نے شریک ہوکر تسلیم کیا۔

دو تصویریں نیچے دی گئی ہیں جو دکھاتی ہیں کہ کیسے ہندوستان کے مسلمانوں کی دانشورانہ /علمی روایت کا سورج گزشتہ صدی میں طلوع ہوا اور کیسے تعلیمی اور سیاسی آزادی ایک دوسرے کے ساتھ نتھی ہوگئیں۔ آگے ہم اس حقیقت کا تضاد آج کی علمی ابہامیت کے ساتھ واضح کریں گے۔

 

nadwa

ندوۃ العلماء کے سیشن کے شرکاء کی تصویر جن میں ابوالکلام آزاد مستقبل کے صدر جمہوریہ ہندوستان اور سلیمان ندوی مستقبل میں پاکستان کی آئینی کمیٹی کے رکن نمایاں ہیں

Image

ڈھاکہ میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس نواب محسن الملک نے منظم کی جو اس وقت کانفرنس کے منتظم اور علی گڑھ کی محمڈن ایجوکیشنل سوسائٹی کے سیکرٹری بھی تھے ۔ اسی نے آگے چل کر مسلم لیگ 1906 کی بنیاد رکھی

 

Image

 

اکیڈیمی اور مولانا : غار سے فرار

 

dav_soc

 

سقراط کی موت کا منظر (470-339 ق م ) ۔۔۔ سقراط کی طرح بھاشانی پہ بھی سیاسی جادگر ہنے ، اپنے عقیدت مندوں کو ہپناٹائز کرنے (روایت لیفٹ رائٹ کے تضاد کو گرانے) کا الزام لگا۔ یا سیاست کے بطن میں ایک بے ضابطگی کے طور پر قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے جسے اس کی پاکیزگی کو برقرار رکھنے کے لیے نکالنا ضروری ہے۔

بھاشانی کے بارے میں بات کرنا مذہب، سیاست اور سبآلٹرن بنگلہ دیش ؟بنگلہ دیش کے افتادگان خاک  کے وسیع بیانیوں کے ساتھ اسے جوڑنا ہے۔ اکثر نظریات گروہ اور دھڑے ان کو اپنا کہتے ہیں جن میں جمیعت علماء کے اراکین سے لیکر مارکس وادیوں تک جو ان کی تصویر مارکس اور لینن کے ساتھ رکھتے ہیں۔ جوئے بنگلہ ثقافتی مشین کے ہاتھوں  بے اعتناہی کے سبب مولانا بھاشانی کی سیاست کے اس ہمہ جہت پہلو کو مین سٹریم میں جگہ نہیں مل پائی ۔ . بھاشانی کی بازیابی اس فارملڈہائیڈ کو دھو دیتی ہے جس میں بنگلہ دیش کی (غلط) قیادت نے مذہب کو غرق کرنے اور اس کی  تجارت کرنے کی کوشش کی ہے، اور متحرک مذہب کو سیاسی میدان اور باخبر عوامی بحث دونوں سے ہٹا دیا ہے۔ بھاشانی کی بازیابی آزادی کے بعد کے دور کی اس بورژوا سیاسی کُل ڈی سیک سے ماورا ہے۔

 

 

 

ہمارے دور کی بدقسمتی سے سیاسی شارٹ ہینڈ میں، بائیں بازو کو ہمیشہ ملحد سمجھا جاتا ہے جو دائیں بازو سے لڑتے ہیں، جو ہمیشہ نہیں ہوتے۔ ان دو غیر متزلزل دھاروں کو عبور کرنے والی شخصیات کو اگر یکسر مسترد نہ کیا جائے تو بھی وہ قابل رحم ہوجاتے ہیں، مثال کے طور پر ‘کلمہ کے انقلابی کردار’ کے مصنف ابوالہاشم کا معاملہ، جو عوامی لیگ پر ایک ابتدائی اثر اور اسلامی سوشلزم کے حامی ہیں۔ ان کے بیٹے، مارکسسٹ-لیننسٹ مورخ بدرالدین عمر کے بارے میں بات کرتے ہوئے  یہ ریکارڈ پر ہے کہ ان کے والد کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ  ’’سیاسی شیزوفرینک‘‘ تھے۔

مسابقت کی سیاست اور طبقاتی مفادات کے درمیان، مولانا جیسا جادو سب کو نہیں ملتا۔ سیاسی اسلام کے ایک مخصوص کیمپ میں بھاشانی پر بھی تکفیر کی گئی ہے۔ ان کی بے دخلی کی سیاست ہمیشہ کی طرح کاروبار کے لیے حکمت عملی کی حرکتوں کو پریشان کرتی ہے، لیکن داڑھی کے ساتھ۔ سرد جنگ کی سیاست کی تشکیل نو اور اس برطرفی کے پیچھے مبینہ طور پر فرد کی ذاتی پریشانیاں طویل عرصے سے زیر التواء ہیں۔ کالونیوں کے رنگ اندھوں کی آنکھوں سے دیکھ کر لگتا ہے بھاشانی پین میں ایک چمک تھی جو پھر کبھی نہ ملے گی۔ اس کے باوجود ایک ہی قسم کی شخصیات اور ظلم کے خلاف جدوجہد پوری مسلم دنیا میں پائی جاتی ہے۔

مغرب کے لیے، شام میں ہمارے پاس عبد الرحمٰن الشغوری (1914 – 2004) ہیں، جو مقدس قانون کے اسکالر، شاعر اور صوفی ہیں۔ اصل میں ایک ویور، پھر ایک ٹیکسٹائل مکینک اور بعد میں ایک فیبرک پلانٹ میں ٹیکنیشنز کا فورمین، اس کی کہانی میں چند اسباق ہیں کہ ہم اپنے گارمنٹس ورکرز کے بارے میں کیسے سوچتے ہیں۔ الشغوری نے دمشق میں کارکنوں کو متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور وہ اس ٹیم کا حصہ تھے جس نے شامی ٹیکسٹائل ورکرز یونین کو مزدوروں کے معاوضے کے لیے 40 روزہ کامیاب ہڑتال کی قیادت کی تھی۔ مشرق کی طرف، ملائیشیا میں ہم نک عبدالعزیز کو دیکھتے ہیں، جو مقامی پنڈک مدارس سے فارغ التحصیل ہیں اور 23 سال کی مدت کے لیے ریاست کیلنتان کے منتخب وزیر اعظم ہیں۔ پچھلے سال ہم نے ان کی اسلامی پارٹی، چینی ملائیشیا اور انور ابراہیم کے کیدالان کے اتحاد کو پاکتان ریات، دی پیپلز الائنس تشکیل دیتے ہوئے دیکھا، اور ملائی نسل پرست UMNO اسٹیبلشمنٹ کے لیے اب تک کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔

 

 

 

بھاشانی کے تقریباً چار دہائیوں بعد، ان کی سیاست اور لازوال شراکت کو چھپانے کی دانستہ کوشش ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ مٹانے کی کئی شکلیں ہوتی ہیں، نصابی کتب میں اس کی زندگی کی تنزلی سے لے کر تہوار کی منسوخی تک، اس کی سالانہ موت کی یادگاری دعاؤں کے بعد۔ بنگلہ دیش میں آج صرف جاگیردارانہ صنعتی کمپلیکس کی ثقافتی بالادستی کی گنجائش ہے، جو ’’شیخ‘‘ کے خاندان کو شاہ باغ کے کِچ کلچر سے الگ کرتا ہے۔ بل بورڈز پر چہروں کی تعداد، میڈیا کے تذکروں، یا پرنٹ میں کالموں کے حساب سے مولانا کی وراثت ختم ہو گئی ہے۔

فراموش کرنے کی خواہش اشرافیہ کی تاریخ کے ادبی محافظوں کے ساختی دھکے سے پیدا ہوتی ہے تاکہ بھاشانی اپنے ’’چھوٹے خانوں‘‘ میں لے کر آنے والی غیر فیصلہ کنیت اور پٹری سے اتر جائے۔ آج ہم مذہبی بمقابلہ سیکولر، شہری بمقابلہ دیہی وغیرہ کے جھوٹے تضادات کو ‘بیمان’ کے اپنے ‘کیبن کریو’ کے ذریعہ پیش کیا گیا تھا۔ جمہوریہ کی تاریخ کے درباری مصوروں نے اپنی یادداشت کو استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے اور خود کو بھول گئے ہیں۔ یاد رکھنے اور تعلق رکھنے کی ان کی داخلی صلاحیت کے بجائے تحریر کے خارجی نشانات پر ان کا انحصار، انہیں اپنی ظاہری شکلوں کا یرغمال بناتا ہے۔ بظاہر باشعور اور جڑے ہوئے ہیں، لیکن بدقسمتی سے اس کے بالکل برعکس، وہ اختلافی خیالات کے مکمل طور پر عدم روادار ہیں۔ ہم آج بنگلہ دیش کی ’اکیڈمی‘ میں یہ رویہ ایک ہی زور دار ترشول کے تین کونوں کی طرح واضح دیکھ رہے ہیں۔ فلیٹ ارتھ منتر 30 لاکھ جنگ ​​کے مرنے والوں کی، غلط معروضی سول سوسائٹی کی طرف سے ثالثی کی گئی، اور کچھ زیادہ ہی نفیس لیکن نوعمروں کے ارساٹز جین لوک گوڈارڈ، ‘یوٹوپیا’ کے مارکسی وجودی سرابیں۔

allegory_of_the_cave 1

In Plato’s ‘Republic’, The Noble Lie is a lie told by elites to maintain an existing hierarchy in society and to advance their agenda.

 

 

کیا “سب آلٹرن کو یاد رکھا جاسکتا ہے؟

 

 

_44315791_newdelhi_ap416

 

مسلمان مدرسہ رحیمیہ کے کھنڈرات کے صحن میں نماز جمعہ ادا کررہے ہیں

 

 

ان کے ناقدین کےے لیے یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ مولانا کا بھوت اور ورثہ جس کے وہ نمائندہ ہیں مرنے سے انکاری ہے- وہ بنگلہ دیش کی سیاست کے بدن میں مسلسل زندہ ہے۔ وہ زندہ اجتماعی حافظے کی برف کے تودے کے سرے اور تسلسل ہیں جو عام لوگوں کی زندگیوں میں گھل ملجاتا ہے اور ان کو پروان چڑھاتا ہے۔ بھاشانی سیاست سے کہیں زیادہ ہیں اور وہ بہت سے طریقوں سے اس ملک کی ‎سچائی  سچائی ،انصاف اور وقار کی جدوجہد کی کہانی کی علامت ہیں (ان میں غلطیاں بھی شامل ہین)- یہ ایک بیانیہ ہے جس نے اپنے آپ کو ہندوستان میں بھی ظاہر کیا ہے ،جیسے تہلکہ کو حال ہی مں ديے گئے انٹرویو میں مولانا محمود مدنی نے بیان کیا۔

 

 

ایسا بیانیہ معاصر سیاست کی قدامت پرستیوں کو بچھاڑ دیتا ہے چاہے ان کا تعلق روایتی انتہا پسند بائیں بازو کے مذہب بارے “عوام کے لیے افیون” ہونے جیسے معاندانہ تبصرے ہوں یا جماعت اسلامی جیسی جماعتوں کی طرف سے پیش کیا جانے والا “سیاسی اسلام” ہو جو اسلام کو “اسلامی بینک، مقامی شاپنگ سنٹر اور مخلوط حکومت میں چند وزراتوں کی صورت میں پیش کرتی ہے۔ طارق رمضان ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ مصر میں سیاسی اسلام کی حامل معاصر نسل اس کی لبریشن تھیالوجی سے بہت دور جاپڑی ہے۔ بھاشانی بنگلہ دیشی عوام کے عظيم بیانیہ کے ساتھ مذہبی بات چیت میں جوڑ دیتا ہے ، جسے ہم آگے چل کر دیکھیں گے۔

bhashani 1

aminul islam

جدوجہد جاری ہے(بائیں) مولانا بھاشانی-اور (بائیں) امین الاسلام ٹریڈ یونینسٹ جو محنت کشوں کے حقوق کی لڑائی کرتے ہوئے موجودہ بنگلہ دیشی حکومت کی سیکورٹی سروسز کے بعض افراد کے ہاتھوں مارا گیا-

 

 

 

 

 

بنگلہ دیش کی کہانیوں کا افشا

 

کلفورڈ گیرٹز ثقافت کی تعریف ایسی کہانیوں کے طور پہ کرتا ہے جو خود ہم آپنے آپ کے بارے میں سناتے ہیں

 

 

 

سن 1989ء برطانوی ٹی وی چینل فور نے تین قسطوں میں “بنگلہ دیش کی کہانی ” کے عنوان سے ایک دستاویزی فلم بنائی ۔ اس کے ڈائریکٹر فارس کرمانی تھے۔ اس کا مرکزی خیال “پلاسی سے آج تک کی بے وفائی/غداری” تھا۔ 2013 کے بے قابو واقعات اور جنوری میں ہماری تاریخ کے مضحکہ خیز انتخابات تک جو کچھ ہوا اس کے بعد یہ کہنا مشکل ہے کہ کچھ تبدیلی ہوئی ہے۔ شاید اب وقت خود کے محاسبہ کا ہے اور یہ جانچ کرنے کا ہے کہ آیا کہ یہ الگ تھلگ واقعات ہیں یا خود کو نقصان پہنچانے والے ایک بڑے بیانیہ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

 

 

 

ramu

 

قوم کی اشرافیہ اور ان کے غیر ملکی شراکت دار 1971ء میں بنگلہ دیش کے جنم کو “تاریخ کا خاتمہ” کہتے ہیں ۔ یہ ترقی کے بغیر زمین ،  ترقی پسندوں کے لیے ترقی اور زمین کے بغیر ڈویلپرز کی کہانی ہے۔ ایک ایسی کہانی جو محض اشرافیہ کے لیے خصوصی جائیداد اور حاصلات کی کہانی ہے۔ غس خالی کینویس میں “دشمن/ولن”  “گنوار دیہاتی ” ہے ، جو اگر چھوٹے قرضے لینے والا نہ ہو تو واشنگٹن پوسٹ میں چھپنے والی حال ہی میں پورے یقین کے ساتھ بیان کی گئی کہانی میں ایک اسلامی عسکریت پسند کے دوگنا طاقتور ولن ہوجاتا ہے – دنیا کو اس نکتہ نظر سے دیکھنے سے  بنگلہ دیش میں حکومت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں ، حزب اختلاف کی آوازوں کو دبائے جانے اور ریاستی جرائم کے بارے میں ریڈیو کی خاموشی اور اس کے حامیوں کے گمراہ کن اداریوں کی وضاحت ہوجاتی ہے۔ مقدمہ تحقیقات کے لیے  انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (آئی سی سی) کو بھجوادیا گیا ہے اور وہاں پہ اس کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ جب یہی مبینہ ریاستی سرپرستی میں ہونے والا تشدد اقلیتی مذہبی برادریوں میں پھیل جاتا ہے انسانی تشویش کے طول و عرض کے ساتھ اس پیچیدہ خاموشی کا جب ہم موازانہ کرتے ہیں- یہ راز، ان تمام لوگوں کے لیے کھلا ہے جو اس شعبے میں کام کرتے ہیں اور اس کو جانتے ہیں، فنڈنگ ​​کے سلسلے اور ان ایجنڈوں میں ہے جو انہیں تشکیل دیتے ہیں۔ ۔

 

 

 

مظلوموں کی تاريخ نویسی کی طرف

 

ان کے لیے جو سنتے ہیں دوسری کہانیاں بھی ہیں جو غیر ملکی آبزرور اور ان کے مقامی خبری کم ہی فلم بند کرتے ہیں۔ لکن مقامی اور علاقائی سطح پہ لوگوں میں  سنی اور سنائی جاتی ہیں۔ دیش نامہ بنگلہ دیشی عوام اور وہ جگہیں جہاں وہ موجود ہیں اور عوام جہاں سے وہ پھیلتی ہیں میں گہری جڑیں رکھتا ہے۔ یہ وہ ہے جہاں مقدس زمین کی تاریخ اس کے باسیوں سے ملتی ہے ، ایک حافظہ جس کے سرچشمے پیغمبر علیہ السلام کی مدنی برادری میں پائی جاتے ہیں اور  اسے اشوکا کے کتبوں پہ لکھی امثال سے جوڑتی ہیں۔

 

یہ ایک جانا پہچانا تالیفی عمل ہے جو ارسطو کی اخلاقیات ، افلاطون کی جمہوریہ کو سینٹ آکسٹن اور سینٹ اکینوس کے زریعے سے مسیحی فکر سے ملاتا ہے اور پھر ان دونوں کا کام قرون وسطی کے مسلمان ماہرین علم الکلام کی تحقیقات میں جذب ہوجاتا ہے۔ جیسے غزالی و رازی اور ابن رشد کے کام سے ظاہر ہے۔ ہ مصنف، کتابیں اور خیالات اب بھی مسجدوں، کلیساؤں اور مندروں میں پڑھا اور سنا جاتا ہے جن سے آج کاا بنگلہ دیش سجا ہوا ہے۔ ملک کی موسیقی اور شاعری اسی کاسموپولٹن علامت نگاری سے بھری ہوئی ہیں جو ان تمام لوگوں کا مشترکہ اور آزمودہ ہیں جو اس کے اندر رہتے ہیں۔

 

 

 

میری خانقاہ کے نزدیک وہ حیران کن آئینے کا شہر ہے جہاں میرا عظیم ہمسایہ رہتا ہے

عظیم ہمسایہ – لالن شاہ

 

moor teaching guitar

Ravi Shankar (left), Baba Allauddin Khan (centre) and Ali Akbar Khan.

ایک جیسے ستار بجاتے ہوئے – (بائیں) سے قرون وسطی کا مسلم اسپین (اندلس) لیکر جدید جنوبی ایشیا تک – روی شنکر(بائیں) ، بابا علاء الدین خان (مرکز) اور علی اکبر خان

 

 

 

یہ آتش ڈیپانکر کی تاریخ وار لکھی کہانی ہے جو بدھ مت کے ماننے والوں کی بنگال میں برہم جاتی کے غلبے کے عام پس منظر سے اٹھائی گئی ہے جس سے جات پات کا نظام آیا۔ چند پغمبرانہ پیراڈائم کو دوبارہ سے ابھارنا یہ ایسے ہی ہے جیسے پیغمبر موسی علیہ السلام کی فرعون اور داؤد علیہ السلام کی جالوت سے لڑآئی کا ری پلے کرنا۔

 

ظلم وقت کے ساتھ مقامی راجوں، دہلی کے بادشاہوں ، غیر مثالی ایسٹ انڈیا کمپنی ، تاج برطانیہ ، کلکتہ کے زمینداروں ، فوجی آمروں سے ہندوستان کی بالادستی میں بدلتا ہے ۔ بالکل ایسی بات  ان تحریکوں اور شخصیات بارے کہا جاسکتا ہے جو مظلوم کی علمبردار ہیں جیسے شجاع لال ، عیسی خان، نور دین، تیتو میر ، ددو میآں اور بھاشانی ہیں۔ آزادی کے بعد  ہم ضیاء الرحمان کی جدوجہد ، اندونی اور بیرونی اپوزیشن کے خلاف کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ اور اسی میں “باسکٹ کیس” کے درمیان جدید جمہوری ریاست کی بنیاد ڈالنے کا عمل ، آمرانہ مطلق العنانیت اور 1974 کا تباہ کن قحط جیسے واقعات پائے جاتے ہیں۔

 

 

یہ ایک امیر ثقافت کے حامل لوگوں کی کہانی ہے، جو عالمی اور علاقائی پیش رفتوں میں الجھے ہوئے ہیں، اور عظیم مشکلات کے خلاف جدوجہد کرنے کی تاریخ ہے، بڑے نقصانات کے ساتھ، انصاف اور وقار کے لیے، مقدس سے متاثر اور مضبوط ہوئے ہیں۔ اس داستان میں 1971 اس تاریخ کا تسلسل ہے نہ کہ اس کا خاتمہ۔

جب کوئی فرد اس طرح کے تاریخی تجربے میں حصہ لیتا ہے، تو وہ خود کی بیداری کے ایک نئے احساس میں آتا ہے، اسے وقار کا نیا احساس ہوتا ہے، اور ایک نئی امید سے ابھرتا ہے۔ یہ فرد کو تکبر، تشدد اور جھوٹے انجام سے نمٹنے کے لیے اوزار فراہم کرتا ہے، جو کہ آج بنگلہ دیش میں طاقت کے مباحثے کی خصوصیت رکھتا ہے، یا کم از کم جزوی طور پر اس کا دفاع کرتا ہے۔

 

 

ڈھاکہ میں مئی 2013 کے قتل عام پر اپنی تحقیق کے دوران، مجھے ہتھ ہزاری مدرسہ کے ایک فارغ التحصیل سے ملنا نصیب ہوا۔ اس نے برطانیہ ہجرت کی، کاروبار میں اپنا کیریئر شروع کیا اور اب بچوں کے ساتھ شادی شدہ ہے۔ تاریخ دان ابن خلدون (1332 – 1406) کے ذریعہ تعلیم کی اہمیت کے بارے میں ہماری گفتگو میں اس نے ایک قصہ بیان کیا۔

ایک دن اس کا بیٹا سکول سے گھر آیا اور بتایا کہ اس نے اپنے استاد سے سیکھا ہے کہ بنگلہ دیش ایک غریب اور پسماندہ ملک ہے جس کی ترقی کے لیے برطانیہ کی حکومت بہت زیادہ رقم دیتی ہے۔ اگلے دن، اپنے بیٹے کو سکول چھوڑنے کے بجائے، مولانا اسے ایک دن باہر لے گئے، پہلے ٹاور آف لندن پر رکے۔ جب وہ تاج کے جواہرات کو دیکھ رہے تھے تو مولانا نے کوہی نور پتھر کی طرف اشارہ کیا اور اپنے بیٹے سے پوچھا، ‘تمہارے خیال میں یہ کہاں سے آیا؟’ سارا دن باپ بیٹے نے لندن کے مختلف مقامات کا دورہ کیا، جو کہ اس کے اثرات سے بہت سانس لیتے ہیں۔ نوآبادیاتی دارالحکومت، اور ان کی تاریخ پر تبادلہ خیال کیا۔

 

اگلے دن اسکول میں مشتعل ہیڈ ٹیچر نے مولانا سے ان کے بیٹے کو تعلیم سے محروم کرنے کا الزام لگانا چاہا۔ جب ہیڈ ٹیچر نے وضاحت کے لیے دباؤ ڈالا تو مولانا نے اپنے بیٹے کو جواب دینے کا اشارہ کیا۔ اس کا رد عمل اور اس کی خلاف ورزی کا عمل ہماری بھولنے والی قوم میں شیئر کرنے کے قابل ہے:

 

‘ہم نے اسکول میں سیکھا تھا کہ بنگلہ دیش ایک غریب ملک ہے لیکن یہ جھوٹ ہے، کیونکہ ببرطانوی راج میں اس کی تمام لوٹی ہوئی دولت دوسری اقوام ک دولت کے ساتھ یہاں برطانیہ میں ہے”

“بادشاہ ننگا ہے!” ایک بچے نے کہا

(بادشاہ کا نیا لباس – ہانس کرسچن اینڈرسن)

 

 

 

معلم ، صحافی اور فنکار کے طور پہ اور تجربہ کار منجھے ہوئے دیش کو دیکھنے والوں کے طور پہ ہمارا کردار ان کہانیوں کو سننے اور ریکارڈ کرنے والوں کا ہونا چاہئیے جو بنگلہ دیش کے لوگ ہمیں سناتے ہیں ناکہ  ان کی کہانیوں کو سننے اور ریکارڈ کرنے والوں کا جو ہمارے غیر ملکی ترقیاتی شراکت دار ( فنڈ دینے والے اور آقا) ہمارے سامنے رکھتے ہیں اور ان کو لکھنے اور سننے کے لیے ادائیگی بھی کرتے ہیں۔ چیلنج  ہے ایک باوقار اور کثیر صوتی تاریخ کی کاشت ہو جو ایک دوسرے کو انسان بنائے اور جس ت‍قسیم در تقسیم کی وبا میں بنگلہ دیش گھرا ہوا ہے اس سے نجات ملے-  ایک نئی”مظلوموں کی تاریخ نویسی”

 

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا كُـوْنُـوْا قَوَّامِيْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّـٰهِ وَلَوْ عَلٰٓى اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِـدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ ۚ اِنْ يَّكُنْ غَنِيًّا اَوْ فَقِيْـرًا فَاللّـٰهُ اَوْلٰى بِـهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْـهَوٰٓى اَنْ تَعْدِلُوْا ۚ وَاِنْ تَلْوُوٓا اَوْ تُعْـرِضُوْا فَاِنَّ اللّـٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْـراً

 

اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو (اور وقت آنے پر) اللہ کی طرف گواہی دو اگرچہ خود پر ہو یا اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں پر، اگر کوئی مالدار یا فقیر ہے تو اللہ ان کا تم سے زیادہ خیر خواہ ہے، سو تم انصاف کرنے میں دل کی خواہش کی پیروی نہ کرو، اور اگر تم کج بیانی کرو گے یا پہلو تہی کرو گے تو بلاشبہ اللہ تمہارے سب اعمال سے با خبر ہے۔

 

 

 

ہم اس مضمون کا انتساب محمد برہان الدین کے نام کرنا چاہيں گے جو اپریل 2014ء میں تنگیل ،بنگلہ دیش میں گزرگئے۔  وہ مولانا بھاشانی کے سب سے پرانے مرید تھے۔ 1950ء میں وہ نوجوان تھے جب انھوں نے مولانا بھاشانی کو نہایت رقت کے ساتھ یہ دعا کرتے سنا

 

” میرے بچوں کے لیے بے شک گجو مت نہ کرنا لیکن سب کو آزادی دے دے!”

اور وہ بھاشانی کے کارکن بن گئے- وہ کسان تھے اور انھوں نے پرائمری بھی پاس نہیں کی تھی لیکن وہ  امریکی سامراجیت اور شام تک کے معاملات کی خبر رکھتے تھے۔ وہ  کسان کمیٹی کے رکن تھے ایک منڈی سے دوسری منڈی مچھلی کے بھاؤ چیک کرتے تھے۔ چند سال پہلے رمضان کی 20 تاریخ کو مولانا بھاشانی ان کے خواب میں آئے اور ان کو “جدوجہد جاری رکھنے کو کہا”

شونگرام کور

اور کہا جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کافی نہیں ہے ، صرف عوام کی تحریک ہی کام کرے گی

 

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author