نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

انسان کا دَم گھُٹ رہا ہے||رضاعلی عابدی

مجھے پاکستان سے ہمدردی ہے جہاں تھرپارکر کے صحرا میں زمین کھود کر کوئلے کی اتنی بڑی کان نکالی گئی ہے کہ اس سے پیدا ہونے والی توانائی سعودی عرب کے تیل کی ذخیرے سے بھی زیادہ ہوگی۔ان تمام علتوں کے بعد قدرت بھی اپنی چال بدلنے کو ہے،دنیا کا موسم اپنے تیور بدل رہا ہے۔ اس سال درختوں پر کچھ پھل آئے ہی نہیں۔ ٹھنڈے علاقوں میں موسم گرما کی فصلیں اُگ رہی ہیں، قطبین میں لاکھوں برسوں سے جمی ہوئی برف پگھل رہی ہے۔شہزادہ چارلس پچھلے دنوں یہ کہتے سنے گئے کہ لوگوں کو اپنی زمین سے زیادہ خلا کی فکر ہے کہ لوگ بھاری خرچ اٹھا کر تفریح کی غرض سے خلا کے سفر پر جانے لگے ہیں ۔تصور کیجئے کہ برطانیہ میں چھ سال سے زیادہ پرانی کاریں وسطی لندن میں داخل نہیں ہو سکیں گی یا بھاری رقم ادا کرنی پڑے گی۔بدلتے حالات اپنے ساتھ ایسے ایسے کتنے ہی عذاب لے کر آرہے ہیں۔ دشواریاں بڑھتی جارہی ہیں، ایک اور غضب یہ ہوا ہے کہ اس پڑھے لکھے معاشرے میں جہاں ہر ذی شعور نے سارے ٹیکے لگوالئے ہیں اس کے باوجود کورونا پھر سے پھوٹ پڑا ہے۔کہاں تو ہر روز مرنے والوں کی تعداد چھ سات رہ گئی تھی ، کہاں کورونا کا لقمہ بننے والوں کی تعداد دو سو یومیہ ہوجائے تو تعجب نہیں ہوگا۔ کہتے ہیں کہ جاڑے اس بارخدا جانے کب کا حساب چکائیں گے اور خاص طور پر کتنے معمر مریض لقمہ اجل بنیں گے۔کیا ان تمام آفتوں کا الزام حکومت کے سر پر دھریں؟ کیا لیبر پارٹی کو چاہئے کہ آپے سے باہر ہوجائے اور ٹوری پارٹی کی حکومت کی بنیادوں میں بارود لگائے۔کیا حکومت کو تبدیل کرنا ہی ہر مسئلے کا حل ہے، کیا ہر وہ حکومت نالائق، نا اہل، جاہل اورخدا جانے کیا کیا ہے جو آپ کی نہیں؟یہ رویہ سمجھ میں آتا ہے مگر اس میں حد سے بڑھی ہوئی شدّت سمجھ میں نہیں آتی۔چلئے مانا کہ موجودہ حکومت جو کچھ بھی کر رہی ہے غلط ہے تو کوئی بتائے کہ پھر صحیح کیا ہے۔ متبادل کیا ہے، علاج کیا ہے، دوا کیا ہے؟ اس پر یاد آیا کہ دوا کے معاملے میں منافع خوروں نے سارے نئے پرانے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ مریضوں، معذوروں اور لاچاروں کی بےبسی سے منافع نچوڑنا یقیناً بھاری جرم ہے اور اس کی معافی نہیں مگر اس کا یہ علاج بھی نہیں کہ حکومت کو کان پکڑ کر مسند اقتدار سے اتار دیا جائے اور کسی دوسرے کو بٹھا دیا جائے کہ وہ جو کچھ کرے گا، وہ تاریخ بارہا دکھا چکی ہے۔اس کی سند تاریخ سے ملتی ہے۔سب کہتے ہیں کہ ہمارا زمانہ اچھا تھا۔ اگر اچھا ہوتا تو ،خلقت آپ کو سر پر بٹھاتی، چومتی اور آنکھوں سے لگاتی۔ایسا دوسرو ں کے ہاں ہوتا ہوگا، ہمارے ہاں تو ایسی نہ کوئی ریت ہے نہ روایت۔سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی مقبولیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر آئین میں پابندی نہ ہوتی تو کلنٹن عمر بھر صدر رہتے۔ ہنسی آتی ہے ایسی باتیں سن کر، اور رونا بھی۔

رضاعلی عابدی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ سوچ کر نیندیں اُڑ جاتی ہیں کہ کہیں دنیا کی فضا میں زہر نہ گھل جائے، کہیں اچھے بھلے صحت مند لوگ دم گھٹنے سے مر نہ جائیں۔یہ سوچ کر بھی عقل حیران ہے کہ ابھی کچھ روز پہلے جب برطانیہ کے شہر گلاسگو میں دنیا کے دو سو ملکوں کے فرماں روا، حکمراں اور حکام جمع تھے اور دنیا کے موسم کو بچانے کے لئے سر جوڑ کر بیٹھے تھے اور جب بہت غور و خوص کے بعدآخری معاہدے میں لکھا جارہا تھا کہ دنیا سے کوئلے کا استعمال ختم کیا جائے، اُس وقت ہندو ستان جیسا بڑا ملک اس معاہدے کے لفظ ملائم بنانے پر اصرار کر رہا تھا۔و ہ بضد تھا کہ معاہدے میں لکھئے کہ دنیا سے کوئلہ ختم ضرور کیا جائے مگر مرحلہ وار ختم کیا جائے۔اور جس وقت گلاسگو کا یہ تایخی اجتماع معاہدے کے الفاظ تبدیل کر رہا تھا، اُسی وقت پورے شمالی ہندوستا ن کی فضا میں زہر آلود دھند سر اٹھا رہی تھی۔وہ جو سال کے سال جب گرمی کا زور ٹوٹ رہا ہوتا ہے اور جاڑے سر اٹھا رہے ہوتے ہیں، پاکستان سے بنگلہ دیش تک فضا میں کہرا چھانے لگتا ہے۔ خاص طور پر ہندوستان کے وسیع علاقے کی فضا آلودہ ہو جاتی ہے یہاں تک کہ کہیں کہیں تو ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا اور جن لوگوں کو سانس کی تکلیف ہوتی ہے ان کا جینا دشوار ہو جاتا ہے۔اس کہرے اور دھند کے بھانت بھانت کے اسباب بتائے جاتے ہیں۔وہ سب درست ہوتے ہیں لیکن ایک بات پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے۔ وہ یہ کہ یہ اوس ہوتی ہو یا شبنم یا کہرا یا دھند، یہ زہر آلود ضرور ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ اپنے گھروں میں رہیں، باہر نہ نکلیں، کام پر نہ جائیں، اسکو ل بند کردئیے جائیں اور بچوں کو باہر جانے سے روکا جائے۔اب صورت یہ ہے کہ جن ملکوں میں فضائی کثافت سب سے زیادہ ہوتی ہے ان میں ہندوستان قریب قریب سر فہرست ہے۔ یہ بات ساری دنیا کے علم میں ہے۔ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ دنیا کے موسم پر نگا ہ رکھنے والے ادارے ان متاثرہ علاقوں کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں اور تشویق ناک نتیجوں پر پہنچ رہے ہیں۔ایک امریکی سائنسی ادارے نے یہ تکلیف دہ خبر سنائی ہے کہ ہندوستان کے جن علاقوں میں فضائی کثافت زوروں پر ہے وہاں کے باشندوں کی اوسط عمر میں دس سال تک کمی ہو سکتی ہے۔اور جو لوگ سانس کی تکلیفوں میں مبتلا ہیں وہ تو ہر سال اس قیامت خیز دھند کی زد میں آکر جان سے جاتے ہیں اور ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ہندوستان کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جو توانائی پیدا کرتا ہے اس کا اسّی فی صد حصہ بھٹیوں میں کوئلہ جھونک کر ہی پیدا کیا جاتا ہے۔اتنا کوئلہ پھونکنے کے نتیجے میں فضا میں جو دھوئیں کے بادل اٹھتے ہیں ان میں کالک ہی نہیں، زہر بھی گھلا ہوتا ہے۔ یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اتنا بڑا اور اتنی بڑی آبادی کا ملک کیوں کر کوئلے کا استعمال ترک کر کے ایسی توانائی پیدا کرنے لگے جس کے مضر اثرات نہ ہوں۔ہندوستان کتنا ہی مال دار ملک ہو، مگر ایسا بھی نہیں کہ کوئلے کو زمین میں ہی دفن رہنے دے اور ہوا اور دھوپ کے سہارے زندگی گزارنے لگے۔

مجھے پاکستان سے ہمدردی ہے جہاں تھرپارکر کے صحرا میں زمین کھود کر کوئلے کی اتنی بڑی کان نکالی گئی ہے کہ اس سے پیدا ہونے والی توانائی سعودی عرب کے تیل کی ذخیرے سے بھی زیادہ ہوگی۔اس کوئلے کو بے ضرر بنانے کے طریقے بھی ہیں اور جن پر کام ہو رہا ہے لیکن کچھ کہنا مشکل ہے کہ اس میں کتنا وقت لگے گا اور کب فضا میں اٹھنے والے زہریلے بادل جھاگ کی طرح بیٹھ جائیں گے۔پاکستان پر تو اور طرح کی دھند چھائی ہوئی ہے جو دل کو دکھا تی ہے۔ یہ سیاسی دھند ہے جو مہنگائی کی شکل دھار کر غریبوں کے سروں پر یوں منڈلا رہی ہے کہ وہ جو اچھے دنوں میں کچھ آس بندھ جایا کرتی تھی، وہ بھی اس بارنظر آنے سے گریز کر رہی ہے۔ میں بہت دور برطانیہ میں بیٹھا ہوں جہاں مہنگائی اس طرح بڑھی ہے کہ نئے پرانے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں لیکن یہ مستحکم بنیادوں کا کمال ہے کہ لوگ روٹی سے محروم نہیں۔ پاکستان کے ان کنبوں سے واقف ہوں جو اپنے مریضوں کا علاج نہیں کرا رہے کہ علاج کا خرچ کون بھرے گا۔یہ سیاسی اور اقتصادی کہرا وقت کے ساتھ گھنا ہوتا جارہا ہے۔ جب تک یہ اتنا گھنا تھا کہ کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا، وہاں تک غنیمت تھا لیکن جب دھند اتنی بڑھ جائے کہ سانس لینا دشوار ہوجائے،تو پھر جینے کا کوئی طریقہ تو دریافت کرنا ہوگا۔مگر جن سے توقع تھی کہ جینے کے متبادل ڈھنگ تجویز کریں گے، انہوں نے ماضی میں کون سے پہاڑ سر کئے جو اس بار اٹھیں گے اور ملک کی ناؤ کو پار لگا دیں گے۔

ہمارے ارد گرد جو لوگ ہیں وہ اس دھند پر اپنی خیال آرائی ضرور کر رہے ہوںگے۔ مثلاً یہودی سازش ہے، یہ آبادی گھٹانے کا حربہ ہے یا پھر یہ کہ چھوڑو یہ اوس ہے، سال کے سال گرتی ہے،اس سے کچھ نہیں ہونے کا۔مگر ہم سنتے آئے ہیں کہ اوس چاٹنے سے پیاس نہیں بجھتی۔ اب دنیا والوں کو کون سمجھائے، ایسی ہی باتیں کرکے کورونا کا ٹیکہ نہ خود لگواتے ہیں نہ دوسروں کو آمادہ کرتے ہیں۔

ہزار باتوں کی ایک بات۔ ہم سب ذہنی الجھن کا شکار ہیں۔ ہمارے ارد گرد کچھ ہو تو رہا ہے، مگر ہمیں خبر نہیں کیا ہورہاہے۔ ایسے ہی لوگوں کی امیدوں پر اوس گرا کرتی ہے۔

بشکریہ جنگ

مولانا مجھے نہ کہا جائے۔۔۔رضاعلی عابدی

کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی

جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے؟۔۔۔رضاعلی عابدی

رضا علی عابدی کی دیگر تحریریں پڑھیے

About The Author