مئی 13, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

۔ سینٹرل جیل کراچی میں ضمیر کے قیدی کامریڈ علی وزیر سے ملاقات||رؤف لُنڈ

اس بار کراچی گئے تو اپنے علاقے کے اُس انتہائی پیارے ، پڑھے لکھے ، ادیب ، سیاسی ورکر ، صحافی اور نظریاتی دوست جناب نذیر لغاری کے بلاوے پر کہ جو سماجی طور پر جتنا بلندی پر بھی گیا اس سے زیادہ گہری جڑیں اس نے اپنی جنم بھومی اپنے وسیب اور وسیبی محنت کش طبقے کے لوگوں میں قائم رکھی ہوئی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔

رؤف لُنڈ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اک پَل میں صدیاں جی آیا ۔۔۔۔۔۔۔ سینٹرل جیل کراچی میں ضمیر کے قیدی کامریڈ علی وزیر سے ملاقات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کراچی کئی بار جانا ہوا مگر اب کے بار کا کراچی جانا بہت مختلف تھا ۔ جب سے اپنے محسن ، دوست، ساجن اور استاد کامریڈ ڈاکٹر لال خان کی قیادت میں سائنٹیفک مارکسزم کے پرچم تلے ایک لننسٹ اور ٹراٹسکیسٹ انقلابی ڈسپلن کی حامل انقلابی تنظیم کی جدوجہد کے سفر کا آغاز کیا ھے تب سے پاکستان کے ہر گوشے کے خوبصورت خطے کو دیکھنے کا موقع ملا ۔ لیکن اس طرح کہ جہاں سارے تنظیمی دوست بیٹھے وہیں ایک جہاں آباد کرلیا ۔ دنیا کے مسائل، ان کے حل اور نظریاتی بحثوں کی لذت میں یوں کھو جاتے کہ اس مقام سے باہر جھانکنے کا خیال ھی نہ رہتا۔ جن دوستوں کے پاس اضافی ٹائم ہوتا تو وہ میٹنگ کے خاتمے کے بعد اس خطے کی خوبصورتی کے مناظر دیکھنے اور سیر و تفریح کو نکل جاتے باقی سارے اگلی میٹنگ میں نئے جذبوں کیساتھ ملن کے وعدوں کے ساتھ وداع ہو کے اپنے اپنے مسکنوں کو چل دیتے ۔۔۔۔۔۔۔۔

اس بار کراچی گئے تو اپنے علاقے کے اُس انتہائی پیارے ، پڑھے لکھے ، ادیب ، سیاسی ورکر ، صحافی اور نظریاتی دوست جناب نذیر لغاری کے بلاوے پر کہ جو سماجی طور پر جتنا بلندی پر بھی گیا اس سے زیادہ گہری جڑیں اس نے اپنی جنم بھومی اپنے وسیب اور وسیبی محنت کش طبقے کے لوگوں میں قائم رکھی ہوئی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔

جناب نذیر لغاری ، اس کے اور اپنے مشترکہ دوستوں اور کراچی کے اپنے انقلابی ساتھیوں اور کامریڈز کا ذکر اگلے کسی وقت میں ہوگا آج کی باتیں کامریڈ علی وزیر کی اور ان سے سینٹرل جیل کراچی میں ملاقات کی ۔۔۔۔۔

ھماری کامریڈ علی وزیر سے یہ ملاقات چونکہ نذیر لغاری کی قیادت میں اور توسط سے قسور بزدار کی رفاقت میں ہوئی ۔ اس لئے لغاری صاحب کے تعارف، قد کاٹھ اور مقام و مرتبے کی وجہ سے ہمیں جیل کے کسی کھردرے پن، کسی تلخی اور کسی توہین کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ اس کے الٹ ایک سپاھی سے جیل کے بڑے افسر تک خندہ پیشانی ، سلام اور چائے پانی کی تواضع میسر رھی ۔۔۔۔۔

جیل کے ایک چھوٹے افسر کے کمرہ میں اپنے ملاقاتی اور قیدی علی وزیر کے آنے میں کچھ دیر ہوئی، ہمیں احساس ہوا کہ شاید روائیتی تساہل سے کام لیا جا رہا ھے تو ھم نے پھر سے یاد دلایا ۔ جس پر جیل افسر نے بتلایا کہ
” سر ! علی وزیر کا معمول ھے کہ جب بھی اس کی ملاقات آتی ھے وہ اسی وقت فریش ہوتا ھے، لباس بدلتا ھے، خوشبو لگاتا ھے اور ایک بانکپن کے ساتھ سج دھج کے آتا ھے تو اس لئے دیر ہو رھی ھے ۔ اور پھر جب کامریڈ علی وزیر آیا تو میں نے اس وقت کامریڈ علی وزیر کو جس انداز میں ، جس وقار کے ساتھ ، جس تر و تازگی اور سرخروئی کیساتھ دیکھا اس سے پہلے اس طرح کبھی نہیں دیکھا ۔۔۔۔۔۔

کامریڈ علی وزیر ھم میں سے جس سے بھی ملے علیحدہ علیحدہ سے اس طرح قہقہہ بلند کر کے ملے کہ ان قہقہوں کی رونق آس پاس موجود سپاھیوں اور جیل عملہ کے لوگوں کے چہروں پہ واضح نظر آتی تھی ۔۔۔۔۔۔

علی وزیر نے کہا کہ ۔۔۔۔۔
” میں جس پاکستان (جیل ) میں رہ رہا ہوں وہ اس پاکستان سے بہتر ھے جہاں آپ رہ رھے ہیں ۔ کیونکہ یہاں بجلی، پانی، کھانا ، علاج اور ( جیل سے عدالت آنے جانے کی ) سفری سہولتیں فری ہیں” ۔ ” میں بے گناہ ہوں کہ میں نے کسی کو قتل نہیں کیا ، میرا گناہ یہ ھے کہ مجھے بچاتے بچاتے میرے نوجوان قتل ہوئے ہیں ” ۔ ” آج بنیاد پرست قوتوں کی سرپرستی کر کے داعش سے لڑانے کی تیاری ہو رھی ھے یہ صرف اور صرف پاکستان کو خانہ جنگی میں دھکیلنے کی سازش ھے”۔ ” آج کا المیہ یہ ھے کہ پاکستان میں کوئی سیاسی جماعت سیاست نہیں کر رھی۔ ہر جماعت کٹھ پتلیوں کی طرح اوپر سے ہلنے والی ڈوری کے اشارے پر ناچ رھی ھے ” ۔۔۔۔۔۔ علی نے کہا ” ذرا مجھے کوئی بتائے تو سہی کہ میرا جرم کیا ھے؟ سوائے اس کے کہ مَیں وہ نہیں کرتا جو ” یہ” کہتے ہیں” ۔ ” مجھے تو کہا جاتا کہ تم جو چاھو کرو ، ھم تمہاری مدد بھی کریں گے ہاں البتہ ھم جو کریں اس پر چپ رہنا ھے، چشم پوشی کرنی ھے” ۔

” ذرا کوئی بتلائے تو سہی کہ میں اپنی آنکھوں سے سب دیکھتے ہوئے کیسے چشم پوشی کروں ؟ میرے ارد گرد اور پورے پاکستان میں جو ہوا ھے اور ہو رہا ھے اس پہ کیسے خاموش رہوں ؟ جب کہ میں انسان ہوں اور مجھے اپنے لوگوں کی اپنے طبقے کی بھوک ، مہنگائی، بدامنی، قتل، چیخیں، آہیں اور کراہیں بے چین رکھتی ہیں ۔ میرے لئے ساری زندگی جیل میں رہنا اور جیل میں مر جانا آسان ھے، ظلم ، جبر اور بر بریت پر خاموش رہنا مشکل ھے بلکہ نا ممکن ھے ” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملاقات ختم ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔ علی وزیر کے چہرے کی تازگی کا منظر ، اس کے ضمیر اور سوشلسٹ نظرئیے پر مبنی جذبوں کی سچائی و شکتی اور ھمارے کانوں میں اس کی باتوں کی بجتی شہنائی کی گونج شاید کبھی بھی ختم نہ ہو ۔۔۔۔۔۔

 مبارک باد اور سرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ

اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔رؤف لُنڈ

 کامریڈ نتھومل کی جدائی ، وداع کا سفر اور سرخ سویرے کا عزم۔۔۔رؤف لُنڈ

زندگی کا سفر سر بلندی سے طے کر جانے والے کامریڈ کھبڑ خان سیلرو کو سُرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ

رؤف لُنڈ کی مزید تحریریں

%d bloggers like this: