حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو دن اُدھر برادرم ملک عاشق حسین کے ہمراہ ایک طویل عرصہ بعد سرائیکی وسیب کے ترقی پسند سیاستدان اور دانشور منصور کریم سیال سے ملاقات ہوئی۔ ملاقات کا مقصد تو ان کی ہمشیرہ اور حلقہ احباب کی آپی، محترمہ سائرہ کریم سیال کے سانحہ ارتحال پر تعزیت تھا لیکن ملاقات منصور کریم سے ہو اور وسیبی سیاست، ترقی پسند تحریکوں اور عصری مسائل پر گفتگو نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں۔
لگ بھگ چار دہائیاں قبل جب منصور کریم سیال سے تعارف ہوا تو کیا بانکا سجیلا جوان تھا۔ بوسکی کا کرتا سفید لٹھے کی شلوار اور ہاتھ میں ڈن ہل کا پیکٹ پکڑے ہوئے لیکن باتیں اپنی وضع قطع سے یکسر مختلف۔
جس جگہ ان سے ملاقات ہوئی تھی وہاں اب ان کا پلازہ ہے۔ خود شہر سے باہر شیرشاہ روڈ پر آباد ایک سوسائٹی میں مقیم ہیں۔ طویل بیماری نے اس جوان رعنا کو وقت سے پہلے بوڑھا کردیا ہے فالج کے اثرات ہیں اس لئے بس گھر میں ہی دنیا آباد ہے۔
دوست احباب یہیں ملنے پہنچ جاتے ہیں۔ ایک وقت تھا جو بیت گیا ،
منصور کریم مجلس آرائیوں کا دیوانہ تھا بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ ڈیرہ اڈا سے عزیز ہوٹل کی طرف جانے والی سڑک پر گلڈ ہوٹل کے سامنے ان کی رہائش گاہ سے ملحقہ ڈیرہ انگنت وسیبی مسافروں کا باعزت ٹھکانہ اور مجلس آرائیوں کے شوقین سرائیکیوں کا مرکز تھا۔
یہاں خوب محفلیں جمتیں۔ دنیا جہان کے موضوعات زیربحث آتے۔ ان برسوں میں منصور کریم ملتان کی ترقی پسند سیاست اور اہل دانش کے حلقوں میں بہت معروف تھے۔
ان سے ملنے والے کے لئے پہلا تاثر یہ ہوتا تھا کہ بس کوئی روایتی دولت مند ہے لیکن سلسلہ کلام کے آغاز پر پہلا تاثر دور ہوجاتا۔ بدقسمتی کہہ لیجئے ہمارے یہاں اُس وقت یہ تاثر بنا ہوا تھا کہ ترقی پسند سوچ رکھنے والے اصل میں اپنی محرومیوں کا بدلہ روایات سے انکار اور وراثتوں پر تنقید سے لیتے ہیں۔
کچھ لوگ ہمیشہ یہ تاثر دیتے تھے کہ ترقی پسند تو لادین ہوتے ہیں۔ ایک سوچ یہ تھی کہ ترقی پسندوں کا تعلق معاشرے کے نچلے طبقات سے ہوتا ہے۔
یہ تینوں برانڈز کے تاثر اصل میں رجعت پسندوں کے پیدا کردہ تھے کیونکہ ترقی پسندی رجعت پسندی کے لئے ہی تو شمشیر بے نیام تھی اور ہے ، اب نہ وہ رجعت پسند رہے اور نہ وہ ترقی پسند جو اپنے نظریات پر رہتے ہوئے شرف انسانی اور سماجی روایات کا دامن تھام کر رکھتے تھے۔
اب جو مال دونوں طرف دستیاب ہے وہ بس ’’آل رائٹ‘‘ ٹائپ مال ہے۔ ہم درست باقی غلط اور کبھی کبھی فتویٰ گیری۔
چلیں رہنے دیجئے ہم منصور کریم سیال کی باتیں کررہے تھے۔ سرائیکی پارٹی کے سیکرٹری جنرل اور پھر طویل عرصہ تک چیف آرگنائزر کے طور پر متحرک رہے اپنی علالت کے باوجود سیاسی سرگرمیوں میں اس وقت تک شریک رہے جب تک ہمت نے ساتھ دیا۔ اب گوشہ نشین ہیں۔ ان کے خیال میں فیڈریشن میں تہذیبی ثقافتی اور تاریخی بنیادوں پر صوبوں کی ازسرنو تشکیل بہت ضروری ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جسے سب سے پہلے مرحوم غوث بخش بزنجو کی قیادت میں بننے والی پاکستان نیشنل پارٹی نے اپنے منشور میں شامل کیا اور سرائیکی وسیب کی تنظیم الگ اکائی کے طور پر بنائی تھی۔
صوبوں کی ازسرنو تشکیل کانکتہ نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگنے کے بعد سردار شیر باز خان مزاری کی قیادت میں بننے والی این ڈی پی کے منشور میں بھی شامل تھا مگر پی این پی نے سرائیکی وسیب کی قومی شناخت کو تسلیم کیا یہ سیاسی طور پر زیادہ اہم بات تھی۔
منصور کریم اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ صوبوں کی ازسرنو تشکیل کے بغیر توازن پیدا نہیں ہوسکتا۔ ان کے خیال میں سرائیکی وسیب کے قوم پرستوں کو اولاً وسیب میں موجود دوسری لسانی اکائیوں سے کھلے دل کے ساتھ مکالمہ کرنا چاہیے بلکہ ہمسایہ اقوام سے بھی بات چیت کرنی چاہیے۔
میں نے ان سے دریافت کیا کہ کیا وجہ ہے کہ سرائیکی صوبے کے معاملے پر قوم پرست پارٹیاں وسیب میں اس طرح کی پذیرائی حاصل نہیں کرپائیں جو دوسری اقوام کی قوم پرست جماعتوں کو حاصل ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ صوبے کا معاملہ بنیادی طورپر عام آدمی کا مطالبہ اور جذبات ہیں۔ عام آدمی کی رہنمائی اور اسے متحرک کرنے کے لئے جس قیادت کی ضرورت ہے وہ دستیاب نہیں ہوئی۔ خود قوم پرست جماعتوں نے بھی صوبے کے قیام کے مطالبے کو ہی حرف اول اور حرف آخر ہی سمجھ لیا ہے اس جدوجہد کے دوسرے بنیادی تقاضے ان کی نگاہوں سے اوجھل ہیں یا پھر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ غیرضروری کام ہیں۔
حالانکہ لوگوں کی سیاسی اور فکری رہنمائی ان کا فرض ہے۔ سرائیکی وسیب میں ایسے مراکز قائم کئے جانے چاہئیں تھے جو اپنے لوگوں کو اپنی قدیم تاریخ، تہذیب و تمدن سے آگاہ کرتے، سرائیکی لکھنے پڑھنے کو رواج دیا جانا چاہیے تھا۔
قوم پرست تحریک اگر بنیادی لوازمات کو نظرانداز کرکے صرف صوبے کے قیام کے مطالبہ کو ہی واحد ایشو سمجھ لے تو یہ غلط ہوگا۔ بدقسمتی سے یہ غلطی نصف صدی سے کی جارہی ہے۔
منصور کریم کے خیال میں قوم پرست جماعتوں کو حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا روزمرہ کے مسائل پر بھی بات کرنی چاہیے۔ سیاسی شعور کی ترویج ان کی ذمہ داری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاست کل وقتی کام ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دیگر ذمہ داریوں کو نظرانداز کردیا جائے۔
سرائیکی قوم پرستوں کے پاس وسیب کی آبادی، روزگار کے وسائل، بجٹ میں سے وسیب کے حصے میں آنے والی رقم، ترقیاتی منصوبوں، وسیب کی زرعی و صنعتی پیداواری صلاحیت ان سب کے اعدادوشمار ہونے چاہئیں۔
ظاہر ہے یہ ایک شخص نہیں کرسکتا بلکہ ہر شعبہ کے ماہر کو اپنے حصہ کا کام کرنا چاہیے۔ قوم پرست مل کر اس کے لئے ’’سرائیکی تحقیقاتی مرکز‘‘ قائم کریں یا اپنی اپنی جماعتوں میں خصوصی کمیٹیاں بنائیں یہ کام بہرطور انہیں ہی کرنا تاکہ جب وہ عوام کے درمیان جاکر صوبے کے لئے بات کریں تو ان کے پاس آبادی سے وسائل اور محرومیوں تک ساری تفصیلات موجود ہوں۔
وہ ہوا میں تلواریں چلانے کی بجائے اعدادوشمار کی روشنی میں اپنا موقف پیش کرسکیں۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مظلوم قوموں کے اتحاد ’’پونم‘‘ نے سرائیکی وسیب اور ہمسایہ اقوام میں سیاسی روابط اور مکالمے کا دروازہ کھولا تھا ہم اس سے وہ فائدہ نہیں اٹھاسکے جو اٹھایاجاسکتا تھا۔
انہیں اس پر گہرا ملال تھا کہ ملتان کی قدیم روایت مکالمہ اب ملتان میں ہی نہیں ہوپارہا اس کی جگہ بدمزاج تعصبات اور تکبر نے لے لی ہے حالانکہ اپنی روشن خیال تاریخ کے وارث ملتان کی اصل شناخت ہی تہذیبی روایات، علم اور مکالمہ ہے۔
سرائیکی پارٹیوں کو غور کرنا ہوگا کہ ترقی پسند شعور کے حامل سرائیکی وسیب میں رجعت پسندی اور تنگ نظری نے کیسے پنجے گاڑ لئے۔
منصور کریم سیال اس موقف کے بھی حامی ہیں کہ پاکستانی فیڈریشن میں آباد قوموں کے درمیان نیا عمرانی معاہدہ ہونا چاہیے تاکہ ایک دوسرے سے موجود شکوے شکایات کے ازالے کے ساتھ آگے بڑھا جاسکے۔
ان کہنا تھا کہ نیا عمرانی معاہدہ ہی اصل میں صوبوں کی ازسرنو تشکیل کا راستہ ہموار کرے گا اس ضرورت سے مزید صرف نظر نقصان کا باعث ہوگا۔
دو اڑھائی گھنٹوں کی اس نشست میں انہوں نے مرحوم دوستوں کا ایک ایک کر کے ذکر کیا ان کی وسیب کے لئے خدمات اور دوست نوازیوں کے قصے سنائے۔
حال ہی میں وفات پانے والے کامریڈ محمود نظامی کو یاد کرتے ہوئے ان کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔ منصور کریم اپنی علالت کے باوجود سفر کی اذیت برداشت کرکے محمود نظامی کے جنازہ میں شریک ہونے کے لئے ملتان سے تونسہ پہنچے تھے۔ یہ تعلق خاطر نبھانے کی وضعداری بھی تھی اور نظامی کو منصور کریم سیال کا خراج عقیدت بھی۔
کیا ستم ہے کہ اہل ملتان نے مرحوم محمود نظامی کے لئے ایک تعزیتی نشست کا اہتمام بھی نہ کیا۔
جی تو یہی چاہتا تھا کہ منصور کریم کے پاس ہی بیٹھے رہیں وہ تاریخ کے اوراق الٹتے اور ہم استفادہ کرتے رہیں مگر ان کی علالت اور اپنی مجبوریوں نے رخصت ہونے کی اجازت چاہنے پر مجبور کیا ۔
منصور کریم سیال سرائیکی وسیب کی ترقی پسند اور قوم پرست سیاست کی مجسم تاریخ ہیں ان سے یہ عرض کیا کہ آپ اپنی یادداشتوں کو ریکارڈنگ کے ذریعے محفوظ کرلیں تاکہ اگلی نسلیں اس سے اسفتادہ کرسکیں۔
انہوں نے وعدہ تو کیا ہے اب دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر