ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئیے پانچویں صدی عیسوی کے جزیرہ نمائے عرب میں چلتے ہیں :
نصف شب کا عالم، چاندنی میں کھجوروں کے درخت ریت پر عجیب سے نقش و نگار بنا رہے ہیں۔ درختوں کے بیچوں بیچ مٹی کے کچھ گھر تاریکی میں ڈوبے ہیں لیکن ایک گھر کے بند دروازے کی درزوں سے چھن کر نکلتی دیے کی لو بتا رہی ہے کہ اس گھر کے مکین جاگ رہے ہیں۔ دروازے پہ کچھ بھیڑ بکریاں بندھی ہیں اور ان کے قریب ایک شخص بے چینی سے ٹہل رہا ہے۔ بھنچے ہوئے ہونٹ، ماتھے کی گہری لکیریں اور اضطراب کہہ رہا ہے کہ صاحب خانہ کسی کش مکش کا شکار ہیں۔
کمرے میں دیے کی ناکافی لو میں کچھ ہیولے دیکھے جا سکتے ہیں۔ بستر پہ لیٹی عورت درد کی شدت سے تڑپ رہی ہے۔ زندگی ہاتھ سے پھسلتی محسوس ہو رہی ہے۔ پائینتی بیٹھی عورت، زچہ کا معائنہ کرتے ہوئے اس کا حوصلہ بڑھاتی ہے۔ پریشانی کے تاثرات لئے زچہ کے سرہانے بیٹھی ایک ضعیفہ کچھ پڑھ پڑھ کر پھونک رہی ہے۔
بستر پہ دراز عورت کی کراہوں میں شدت آ جاتی ہے۔ اس آہ و بکا سے کچھ ایسا لگتا ہے کہ رقص بسمل ہونے کی تیاری ہے۔ ضعیفہ کی تسبیح کے دانے تیزی سے گرنے لگتے ہیں اور دایہ اپنا کام شروع کرتی ہے۔
ایک زور دار چیخ کے ساتھ ہی نومولود کے رونے کی آواز سے فضا بھر جاتی ہے۔ زچہ گہرے سانس لے رہی ہے۔ ضعیفہ ہاتھ پھیلائے شکر ادا کر رہی ہے اور دایہ ننھی سی جان کو سنبھالنے میں مصروف ہے۔ باہر ٹہلتا ہوا مرد تیزی سے دروازے کی طرف بڑھتا ہے۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ دنیا نیا آنے والی روح اس کا وارث ہے یا اس کی تذلیل۔
”بنت“ دایہ ٹھنڈے لہجے میں اطلاع دیتی ہے۔ مرد مٹھیاں بھینچتے ہوئے صحن کے مزید چکر لگاتا ہے۔ کونے میں پڑی کدال سوچتی ہے کاش زمین پھٹ جائے اور میں اس شقی کی نظر سے اوجھل ہو جاؤں جو ایک اور بیٹی کو اس گڑھے میں اتارنے والا ہے جو میری مدد سے کھودا جائے گا۔
بچی کو باہر لے آؤ، اس حکم کو سنتے ہی وہ عورت جو ابھی ابھی موت کی سرحد سے واپس آئی ہے، بچی کو گلے سے لگاتے ہوئے پہلا اور آخری بوسہ دیتے ہوئے اپنے آنسوؤں سے اس کا منہ دھو دیتی ہے۔
مرد ایک پوٹلی اٹھائے اس گڑھے کی طرف بڑھ رہا ہے جو ابھی ابھی کھودا گیا ہے۔ گٹھڑی کی حرکت سے علم ہوتا ہے کہ کچھ گھنٹے پہلے ماں کے بطن سے جنم لینے والی بچی غوں غاں کرتی ہوئی انگوٹھا چوس رہی ہے۔ بدنصیب نہیں جانتی کہ زندگی کا سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی ڈوبنے کو ہے۔
گٹھڑی تازہ کھدے گڑھے میں ایسے پھینکی جاتی ہے جیسے کچرے کی پوٹلی۔ بچی گھبرا کر رونا شروع کرتی ہے۔ باپ بیلچہ تھامے گڑھا بھرنا شروع کرتا ہے۔ رونے کی آواز پہلے شدت سے آتی ہے، پھر آہستہ آہستہ دھیمی ہوتی چلی جاتی ہے۔ باپ گڑھا برابر کرنے کے بعد ہاتھ جھاڑتے ہوئے بڑبڑاتا ہے، ”رات جاگتے میں ہی گزر گئی، اب آرام سے گھر جا کر سوؤں گا“ ۔
آئیے اب اکیسویں صدی عیسوی کے پاکستان میں چلتے ہیں :
کثیر آبادی پہ مشتمل اس بڑے شہر کے بیچوں بیچ بنے جدید کلینک میں مریضوں کا تانتا بندھا ہے۔ کلینک اولاد سے محروم جوڑوں کا کامیاب علاج کرنے میں شہرہ رکھتا ہے۔ ائر کنڈیشنڈ عمارت، مستعد نرسیں، خوش اخلاق ریسپشنسٹ، زندگی سے بھرپور مسکراہٹ بکھیرتے ڈاکٹر اور ہاتھ میں ہاتھ ڈالے مرد و عورت۔ سب اپنے اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے آئے ہیں۔ اولاد کی چاہت نے ان سب کو ایک چھت تلے جمع کر دیا ہے۔ اپنے آنگن میں قلقاریاں گونجنے اور اماں ابا جیسے شیریں الفاظ سننے کی حسرت سب جوڑوں کی آنکھوں سے جھلک رہی ہے۔
ڈاکٹر کے کمرے میں پہلا کپل داخل ہوتا ہے۔ ڈاکٹر کے چہرے پہ خوشگوار مسکراہٹ کھیل رہی ہے۔ بانجھ پن کا شکار یہ خوبصورت جوڑا اپنے طویل علاج کا آخری مرحلے تک آ پہنچا ہے۔
”جی آپ دونوں کو بہت بہت مبارک ہو۔ مسز ارشد، آپ کی اووری (بیضہ دانی) سے چار انڈے ہم نے نکالے تھے، اور انہیں چار سپرمز سے ملایا گیا۔ آپ کی خوش قسمتی کہ چاروں کا ملاپ ہو گیا اور اب یوں سمجھیے کہ چار بچے یا ایمبریوز موجود ہیں۔ اب یوں ہے کہ چاروں کو بیک وقت رحم میں تو نہیں رکھا جا سکتا۔ بہتر یہ ہے کہ دو بچے ابھی رکھوا لیجیے اور دو ہم فریز کر دیتے ہیں۔ اور یہ بھی جان لیجیے کہ چار ایمبریوز رحم میں رکھنے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ یہ سو فیصد کامیاب حمل ہو گا۔ اسقاط ہو سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان چار میں سے صرف ایک بچہ نو ماہ گزار کر پیدا ہو اور باقی ضائع ہو جائیں۔
اب آپ دونوں بتائیے کہ کیا کرنا ہے آپ کو؟ ”
عورت کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا ہے۔ مرد مسکراتے ہوئے بیوی کا ہاتھ تھامتے ہوئے پوچھتا ہے ”کیوں جی کیا کیا جائے، پہلے دو اور پھر دو“ عورت شرماتے ہوئے ہنس پڑتی ہے۔
اچانک مرد کچھ سوچتے ہوئے ڈاکٹر سے پوچھتا ہے،
”ان ایمبریوز کی جنس کیا ہے؟ یعنی لڑکا یا لڑکی؟“
” پہلے تو یہ جان لیجیے کہ یہ چاروں ایمبریوز نارمل ہیں، ان کی جنیاتی ٹسٹنگ ہو چکی ہے۔ رہی جنس تو ایک لڑکا ہے اور تین لڑکیاں“
اوہ، مرد کے ماتھے پہ شکنیں ابھر آتی ہیں۔ منہ کے زاویے بدل جاتے ہیں۔ کچھ دیر چپ رہنے کے بعد وہ کہتا ہے ”ہم صرف ایک ہی ایمبریو رکھوائیں گے، میرا مطلب ہے لڑکا“
”اور کیا باقی تین فریز کر دیں؟“ ڈاکٹر پوچھتی ہے۔
”نہیں، ضائع کر دیجیے، ہمیں لڑکی والے ایمبریوز نہیں چاہئیں“
”سوچ لیجیے ہو سکتا ہے کہ لڑکے والے ایمبریو کا ابارشن ہو جائے“
”کوئی بات نہیں، میں یہ رسک لوں گا اور اگر ضائع ہو گیا تو ہم دوبارہ سے انڈے نکلوائیں گے۔ مجھے لڑکیاں نہیں چاہئیں“
برابر میں بیٹھی عورت کا چہرہ ست چکا ہے اور آنکھیں نم ہیں۔ وہ ان تین بچیوں کے متعلق سوچ رہی ہے جنہیں زندگی ملی تو سہی لیکن ان کا باپ انہیں ماں کے رحم تک پہنچنے کی اجازت نہیں دے رہا۔ نہ جانے کس کوڑے کے ڈھیر میں پھینکی جائیں گی میری بیٹیاں یا شاید تعفن زدہ گٹر میں بہا دی جائیں گی، وہ ایک آہ بھرتی ہے۔
اور یہ رہا پندرہ نومبر 2021 میں پاکستان کا شہر نارووال:
”تیسری بیٹی کی ولادت سے کچھ دن قبل شوہر نے بیوی کو قتل کر دیا۔ وجہ قتل بطن میں بچی کی موجودگی تھی۔ بتایا گیا ہے کہ بیوی کو پہلی دو بیٹیوں کی پیدائش پہ بھی زد و کوب کیا گیا تھا“
کیا کہیں کہ پانچویں صدی عیسوی میں عورت کے وجود سے کی جانے والی نفرت میں اکیسویں صدی تک سر مو فرق نہیں پڑا۔ تب بھی قتل کی جاتی تھی اور آج بھی وہی نصیب ہے۔
تب ولادت سے پہلے بچے کی جنس جاننے کی سہولت موجود نہیں تھی اور بچی کو چند سانسوں کی مہلت نصیب ہوتی تھی۔ زمانہ جدید میں بچی کو یہ موقع بھی نہیں دیا جاتا۔ کبھی نطفے کی صورت میں ہی ضائع کر دی جاتی ہے اور کبھی اپنی ماں کی موت کا سبب بن جاتی ہے۔
دیکھی آپ نے حوا کی بیٹی کی بے چارگی، جس کو پرودرگار تو حیات بخشتا ہے لیکن اس خدا کو ماننے والے یہ حق چھیننے میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر