مہرین فاطمہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادب (Literature) عربی زبان کا لفظ ہے۔ اسلام سے قبل عربی زبان میں ضیافت اور مہمانی کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔ بعد میں ایک اور مفہوم بھی شامل ہوا جسے ہم مجموعی لحاظ سے شائستگی کہہ سکتے ہیں۔ عربوں کے نزدیک مہان نوازی لازمہ شرافت سمجھی جاتی ہے، چنانچہ شائستگی، سلیقہ اور حسن سلوک بھی ادب کے معنوں میں داخل ہوئے۔ جو مہمان داری میں شائستہ ہوگا وہ عام زندگی میں بھی شائستہ ہوگا اس سے ادب کے لفظ میں شائستگی بھی آگئی۔ اس میں خوش بیانی بھی شامل ہے۔ اسلام سے قبل خوش بیانی کو اعلٰی ادب کہا جاتا تھا۔ گھلاوٹ، گداز، نرمی اور شائستگی یہ سب چیزیں ادب کا جزو بن گئیں۔ بنو امیہ کے زمانے میں بصرے اور کوفے میں زبان کے سرمایہ تحریر کو مزید فروغ حاصل ہوا۔ اسی زمانے میں گرامر اور صرف ونحو کی کتب لکھی گئیں تاکہ ادب میں صحت اندازبیان قائم رہے۔ جدید دور میں ادب کے معنی مخصوص قرار دیے گئے۔ ادب کے لیے ضروری ہے کہ اس میں تخیل اور جذبات ہوں ورنہ ہر تحریری کارنامہ ادب کہلا سکتا ہے۔
میتھو آرنلڈ کے نزدیک وہ تمام علم جو کتب کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے، ادب کہلاتا ہے۔ کارڈ ڈینل نیومین کہتا ہے "انسانی افکار، خیالات اور احساسات کا اظہار زبان اور الفاظ کے ذریعے ادب کہلاتا ہے "۔ نارمن جودک کہتا ہے کہ "ادب مراد ہے اس تمام سرمایہ خیالات و احساسات سے جو تحریر میں آچکا ہے اور جسے اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کو مسرت حاصل ہوتی ہے۔ ”
ایسے ہی ایک ادارہ سرائیکی ادبی مجلس بہاولپور ہے جہاں سے سرائیکی زبان وثقافت اور تاریخ کی کتابیں شائع ہوتی رہیں ۔سرائیکی ادبی مجلس کو 1960ء میں مختلف وسیب دوست ادیب ، شاعر اور رہنماؤں نے قائم کی۔ حکومت پاکستان نے اس کو رجسڑڈ کیا . سرائیکی ادبی مجلس کا تقریباً 2 ایکڑ رقبہ اور اس میں تقریباً دس ہزار سے زیادہ سرائیکی زبان و ثقافت اور تاریخ کو اجاگر کرنے والی کتابیں ہیں۔ سینکڑوں کتابیں وہ شائع ہوئی جو قومی سطح پر ایورڈ یافتہ بنیں۔
پورے وسیب کا اکلوتا مرکزی ادبی علمی ادارہ ہے۔سرائیکی ادبی مجلس وہ ادارہ ہے جہاں سے میگزین نکلتا تھا۔
اس وقت پورے پاکستان کی ادبی تنظیموں کو سرکاری طور پر کروڑوں روپے گرانٹس دی جا رہی ہیں۔
جس میں پنجابی ادبی مجلس،پنجابی ریسرچ بورڈ،کوئٹہ بلوچستان اکیڈمی،پشتو اکیڈمی شامل ہیں مگر سرائیکی ادبی مجلس کو گزشتہ تین سالوں سے تالے لگائیں ہوئے ہیں۔
دنیا میں ہر جگہ زبان ثقافت اور کلچر کو اہمیت دی جاتی ہے ریاست بہاولپور کے پاکستان کے لیے بہت سی خدمات دی ہیں لیکن افسوس آج ہماری ثقافت ادب کے مراکز کو تالے لگائے جا رہے ہیں جس کا مقصد سرائیکی زبان کو ختم کرنا اور سرائیکی خطے کے لوگوں کے حقوق پامال کرنا اور وسیب کے امن اور محبت کی آواز کو دبانا ہے۔
کتابیں کسی بھی قوم کا عظیم سرمایہ ہوتیں ہیں سرائیکی وسیب کے اس ادارے سے کتابیں چوری کرنے کے ساتھ ساتھ قبضہ مافیا نے بغیر کسی وجہ کے تالہ بندی کر دی ہے۔ کیا حکومت وقت اتنی نا اہل ہو چکی ہے کہ اب سرائیکی خطے کے لوگوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ علم ، تاریخ کو ثقافت کو مسخ کیا جا رہا ہے یہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اگر قبضہ مافیا نے دوسرے صوبوں کے مراکز پر قبضہ کیا ہوتا تو حکومت اب تک نظرثانی کے ساتھ ساتھ قبضہ مافیا سے چھڑوا چکی ہوتی ۔ لیکن سرائیکی وسیب کے خلاف کی گئی اس گھناؤنی سازش کے خلاف کسی حکومتی عہدے دار نے آواز تک نہیں نکالی۔ آخر کیوں؟؟؟!؟ کیا سرائیکی خطے کی عوام اس ملک کے رہنے والے نہیں ہیں؟؟ کیا سرائیکی وسیب کی کوئی شناخت نہیں؟؟
خدارا ہوش کے ناخن لیں سرائیکی خطے کی عوام اس ملک پاکستان کے رہنے والے ہیں سرائیکیوں کی اپنی الگ شناخت اور ثقافت ہے ۔ اگر اس سازش کے خلاف نظر ثانی نہیں کی گئی تو سرائیکی وسیب کے تعلیمی حلقوں میں احساس محرومی بڑھے گا اور امن کی فضاء کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
سرائیکی خطے کے لوگوں کا وزیراعظم پاکستان، گورنر پنجاب، وزیراعلیٰ پنجاب اور چیف جسٹس صاحب سے مطالبہ ہے کہ سرائیکی ادبی مجلس بہاولپور کو قبضہ مافیا سے آزاد کرایا جائے تاکہ امن کی فضاء قائم رہے اگر ایسا نہیں کیا گیا تو پورا سرائیکی وسیب سڑکوں پر ہو گا۔۔۔۔
مہرین فاطمہ دا تعلق ضلع مظفر گڑھ نال ہے، ایم اے سرائیکی ہن،2019ء توں مختلف موضوعات تے لکھن شروع کیتے ، سرائیکی وسیب دے مختلف اشاعتی اداریاں اچ انہاں دیاں لکھتاں چھپدیاں ریہہ ویندین، سرائیکی افسانیاں دا مجموعہ زیر طباعت ہے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر