ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک وقت تھا جب روس کو محنت کش افراد کی جنت خیال کیا جاتا تھا۔ یہ بات کوئی اتنی غلط بھی نہیں تھی۔ حکم زباں بندی ضرور تھا۔ کام سے کام رکھنا ہی معاشرے میں زندہ رہنے کی ضمانت تھی۔ جیسے جنت میں سب کے لیے تقریبا” مساوی نعمتیں ہونگی ایسے ہی اس ارضی جنت میں ہر شخص کو روٹی کپڑا اور مکان مل جانا لازمی تھا چاہے ایک گھر کے تین کمروں میں تین کنبے ہی کیوں نہ مقیم تھے جو ایک ہی کچن استعمال کرتے تھے یا جیسے لوگوں کو زندگیاں ہوسٹلوں میں بسر کرنا پڑ پڑ جایا کرتی تھیں۔ جب سے یہ سہولتیں تمام ہوئی ہیں تب سے یہاں دنیا بھر کی نعمتیں موجود ہیں لیکن ان کی دستیابی کے لیے تگ ودو کرنی پڑتی ہے۔ اب مکان حکومت نہیں دیتی، مارکیٹ کی قیمت پر خریدنا پڑتا ہے۔ شہر میں کچن اور ٹوائلٹ والا ایک کمرہ پاکستان کے پچاس لاکھ سے ایک کروڑ روپے تک کا ہے اور کم سے کم آمدنی پاکستان کے 14000 روپے کے برابر ۔
پاکستان سے بہت سے لوگ روس آنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ باہر جانے کا خواہاں کوئی بھی کسی ملک سے متعلق سچی باتوں پر یقین نہیں کیا کرتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ خود مزے سے زندگی بسر کرنے والے نہیں چاہتے کہ کوئی اور اچھی زندگی بسر کرے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان میں بہت زیادہ مسائل ہیں لیکن روس کن مسائل سے دوچار ہے تو آئیے آپ کو ایک تازہ ترین رپورٹ سناتے ہیں۔
روس میں کام کرنے والوں کا چھٹا حصہ اپنا اور اپنے کنبے کا گذارا نہیں چلا سکتا،یہ بات حکومت روس کے تحت تجزیہ جاتی مرکز ” روس اور روس سے باہر کام کرنے والے غریب لوگ” نے ایک بلیٹن میں کہی ہے۔2016 میں ان لوگوں کی آمدنی، کام کرنے کے قابل آبادی کی کم از کم آمدنی سے بھی کم رہی۔
روس کے سرکاری شماریاتی ادارے کے مطانق روس میں بیس لاکھ لوگ کم سے کم آمدنی کی شرح سے بھی کم کما پاتے ہیں ( یہ تعداد اپریل 2017 میں کام کرنے والوں کا سات اعشاریہ تین فیصد بنتی ہے )۔ اگر صرف معاوضے، مزدوری یا تنخواہ کو دیکھنے کے ساتھ دوسری کسی آمدنی کو بھی دیکھا جائے اور یہ بات مدنظر رکھی جائے کہ یہ حاصل کنبے پر خرچ کیا جاتا ہے تو یہ تعداد کئی گنا زیادہ ہو جاتی ہے۔ 2016 میں یہ تعداد تقریبا” ایک کروڑ اکیس لاکھ افراد رہی، یعنی کام کرنے کے قابل آبادی کا سولہ اعشاریہ آٹھ فیصد۔
روس میں عام طور پر غریب ملازمت پیشہ افراد ہیں۔ یہ بچوں والے وہ لوگ ہیں کہ اگر ان کے دو بچے ہیں تو ان کی آمدنی کم از کم آمدنی کی شرح سے دوگنی سے زیادہ نہیں اور اگر ایک بچہ ہے تو اس شرح سے ڈیڑھ گنا زیادہ نہیں۔
روس کے سرکاری شعبے میں کام کرنے والے نادار لوگوں کی تعداد، نجی شعبے میں کام کرنے والے نادار افراد کی نسبت چار گنا زیادہ ہے اگرچہ نجی شعبے میں کام کرنے والوں کی تعداد کل کام کرنے والوں کی تعداد کا دو تہائی ہے، بلیٹن میں بتایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ خلیج بڑھتی جا رہی ہے، جیسے کہ 2011 میں یہ فرق محض دو گنا تھا۔ حکومت کام کرنے والوں کو نکال کے بچت کرتی ہے اور امکان ہے کہ مستقبل میں حکومت کو کارمندان دستیاب نہ ہونے کے بحران سے دو چار ہونا پڑے گا۔
سرکاری خزانے سے تنخواہ پانے والے اداروں میں کمتر تنخواہ پانے والے جگہ لے رہے ہیں جو عموما” عورتیں اور بوڑھے افراد ہیں جن کی صلاحتیں زیادہ نہیں ہیں اور جن کا کام سے متعلق نظم و ضبط سخت نہیں۔
چنانچہ یہ حقیقت کہ روس میں ایک کروڑ سے زیادہ کام کرنے والے افراد مناسب زندگی گذارنے سے قاصر ہیں، کوئی اچھی بات دکھائی نہیں دیتی۔ چاہے کنبے کے زیادہ افراد بھی کام کرنے لگیں تب بھی وہ غربت سے نبرد آزما نہیں ہو پا سکتے۔ غربت دور کیے جانے کی خاطر نئے پیشے اختیار کرنے ہونگے، تعلیم کی استعداد بڑھائی جانی ہوگی یا ملک سے نکل جانا ہوگا کیونکہ ملک میں روزگار کی منڈی میں اچھی آمدنی والی ملازمتیں بہت کم ہیں اور اپنی حیثیت کو برقرار رکھا جانا مشکل۔ غربت ایسے پیشوں کو اختیار کیے جانے پر مجبور کرتی ہیں جن سے غربت کو تمام کیا جانا ممکن نہیں ہو پاتا۔ ایسے کنبے جو دو یا تین افراد پر مشتمل ہوں اور جس کے دو افراد کام کرتے ہوں، تعداد میں بہت کم ہیں۔ زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کے ہاں بچے ہیں، یا بیروزگار ہیں یا پنشن یافتہ ہیں۔
روس میں ایسے لوگ کم ہیں جو آمدنی کی کم سے کم شرح یعنی 7800 روبل پانے والے ہوں مگر کمپنیاں اپنے ہاں کام کرنے والے لوگوں کو تنخواہیں کم دیتی ہیں۔ دی جانے والی کم از کم تنخواہ، مقرر کردہ کم از کم شرح سے کم نہیں ہونی چاہیے، یہ قانون برائے کارمندی ہے مگر سالہا سال سے اس قانون کو درخورا عتناء نہیں سمجھا جا رہا ہے، بلیٹن میں بتایا گیا ہے۔ اس پر عمل درآمد کرائے جانے کی خاطر متعلقہ ضروری قانون بنائے جانے کی ضرورت ہے، وزارت برائے محنت کے ایک کارمند نے رائے دی۔
کارمند کا کہنا تھا کہ یکم ستمبر کو صدر روس ولادیمیر پوتن نے حکم دیا کہ کم از کم تنخواہ کو یکم جنوری 2018 سے 85% بڑھایا جانا ہوگا اور یکم جنوری 2019 سے 100%، اس طرح غربت اور عدم مساوات ختم کرنے کی رواہ ہموار ہو سکے گی۔ اس کے برعکس سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ غربت کو اس طرح کم نہیں کی جا سکے گا کیونکہ آمدنی کو اشیائے ضرورت پر خرچ کیا جاتا ہے، جو صحت مند انسان کی اچھی زندگی بسر کرنے کے لیے لازم ہیں۔ حکومت پہلے تنخواہوں کی کٹوتی سے بچت کرتی ہے اور پھر غیر صحت مند لوگوں کے معالجے پر اخراجات کرتی ہے، یوں حکومت کی آمدنی جوں کی توں رہتی ہے۔ اس طرح کے طریقوں سے معیشت کی شرح رک جاتی ہے۔ غریب لوگوں کو تخلیقی کام کرنے کی جانب رغبت نہیں رہتی چنانچہ ہر وہ کام کر لیتے ہیں جس سے کم ہی سہی لیکن آمدنی ہو۔ ایسے لوگوں کو نئی ٹکنالوجی سے دلچسپی نہیں رہتی۔ ایسے لوگ سماجی رعایات اور مدد پانے کے بھی متمنی ہوتے ہیں۔ گذشتہ برس ایسی رعایات اور امداد مستقل بنیادوں پر دینی پڑی ہے۔ خطوں میں 37 لاکھ افراد پر بجٹ سے تقریبا” 29 ارب روبل خرچ کرنے پڑے۔
کام کرنے والوں میں نادار لوگوں کی زیادہ تعداد ثابت کرتی ہے کہ روس میں متوسط طبقہ کمزور ہے، یعنی ملک پوسٹ انڈسٹریل اکانومی تک رسائی نہیں کر پایا ہے۔ لوگ اپنی صلاحیات والے شعبوں سے نکل کر ایسے شعبوں میں جا رہے ہیں جن سے ان کی صلاحیات کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ 2016 میں دس لاکھ نوجوان باصلاحیت کارمند پیداواری میدان سے نکل کر غیر پیداواری خدمات کے شعبوں میں جا چکے ہیں جہاں کم صلاحیتوں کا استعمال کرکے نسبتا” بہتر آمدنی ہو جاتی ہو۔ کم تنخواہوں کی وجہ سے کئی شعبوں میں کام کرنے والوں کا فقدان ہو رہا ہے۔ تجزیہ جاتی بوسٹن کنسلٹنگ گروپ کے مطابق روس میں ڈاکٹر کی تنخواہ ڈرائیور کی تنخواہ سے صرف 20% زیادہ جب کہ امریکہ میں یہ تقابل261% ہے ، جرمنی میں 172% تاحتٰی ترقی پذیر ملک برازیل میں یہ تقابل 174% ہے۔
اس وقت روس میں بیزروزگاری کی شرح تاریخ کی کم ترین شرح ہے مگر اس کے ساتھ ہی تنخواہیں اور معاوضے کم ہوتے جا رہے۔ بلیٹن مرتب کرنے والوں کے مطابق کام کرنے والے لوگوں میں غربت میں کمی نجی شعبے میں ترقی سے ممکن ہو سکے گی۔ اس کے لیے حکومت کو حکمت عملی مرتب کرنی ہوگی
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر