محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرکٹ بڑا دلچسپ کھیل ہے جس میں بعض چیزوں کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ تمام تر تیاری، بھرپور پریکٹس، بے پناہ محنت اور ڈیٹا ریسرچ کے باوجود کوئی دن ایسا آتا ہے جب یہ سب دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے۔
مشہور انگلش کھلاڑی ڈیوڈ گاور نے ایک بار لکھا تھا ،” میرے کیریئر میں کئی بار ایسا ہوا کہ میں خوش خوش بیٹنگ کرنے گیا۔ لارڈز کا گراؤنڈ ، دھوپ نکلی ہوئی، نہایت خوشگوار موسم، لمبی بیٹنگ کے لئے نہایت سازگار۔ کریز پر پہنچا تو سارا دن بیٹنگ کرنے کا پروگرام تھا، پہلے ہی اوور میں ایک اتنا اچھا گیند پڑا کہ آؤٹ ہوگیا اور اگلے دو دن ڈریسنگ روم میں بیٹھا ساتھی کھلاڑیوں کو دھواں دھار اننگ کھیلتے دیکھتا رہا۔
پھر ایسا بھی کئی بار ہوا کہ موسم ناسازگار، پچ گیلی، گیند بہت زیادہ سوئنگ ہو رہا تھا، ٹیم دباؤ میں تھی، بیٹنگ کرنے گیا تو خطرہ تھا کہ جلد آؤٹ ہوجاؤں گا، مگر کئی گھنٹے وکٹ پر ٹھہرنے اور شاندار سنچری کرنے کے بعد واپس آیا۔ اسے لک فیکٹر کہیں یا غیر یقینی صورتحال یا کچھ اور، مگر یہ کرکٹ میں ہوتا رہا ہے۔ بارہا ہوا اور ہوتا رہے گا۔ بدھ کے روز ہونے والے سیمی فائنل میں انگلینڈ ا سکا نشانہ بنا۔
ہم میچز کا تجزیہ کریں تو ظاہر ہے بہت سے نکات سامنے آتے ہیں ۔ جیسے انگلینڈ نیوزی لینڈ کے میچ میں شکست کے حوالے سے تجزیہ کرتے ہوئے انگلش کپتان مورگن کی ایک غلطی سامنے آ رہی ہے کہ اس نے اپنے اچھے آف اسپنر معین علی سے باؤلنگ نہیں کرائی۔
معین علی سے پچھلے چند میچز میں نئی گیند سے پاور پلے میں باؤلنگ کرائی گئی۔ اس میچ میں چونکہ دونوں رائٹ ہینڈڈ بیٹر کھیل رہے تھے اور عام طور سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ رائٹ ہینڈ بلے باز کے لئے آف اسپنر کو کھیلنا زیادہ آسان ہے، آف اسپن کھبے بلے بازوں کو تنگ کرتی ہے۔ اسی لئے مورگن نے معین علی سے باؤلنگ نہیں کرائی مگر جب کانوائے اچھی بیٹنگ کر رہے تھے تب معین کو لانا چاہیے تھا، ممکن ہے وہ جمی نیشم کو بھی روک پاتے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مورگن کو خود بیٹنگ کے لئے کچھ پہلے آنا چاہیے تھا، مورگن بڑے اچھے ہٹر ہیں، وہ اگر بیٹنگ میں کچھ پہلے آتے تو ممکن ہے اسکور میں پندرہ بیس رنز کا اضافہ ہوجاتا ۔کئی اور چیزوں کی نشاندہی بھی کی جا سکتی ہے۔
حقیقت مگر یہ ہے کہ یہ انگلینڈ کا دن نہیں تھا۔ جب کسی ٹیم یا کھلاڑی کا دن نہ ہو تو اس کے اچھے فیصلے بھی غلط ہوجاتے ہیں۔ گگلی پر چھکا لگا جاتا ہے، یارکر فل ٹاس بن جاتی ہے، ریورس سوئپ وکٹ گنوانے کا سبب بنتا ہے ، جب سب چیزیں ٹھیک چل رہی ہوں تو غلطی بھی ثمربار ہوجاتی ہے۔
کرکٹ کے بڑے میچز میں ایسا بہت بار ہوا۔ 1983ورلڈ کپ میں بھارت اور ویسٹ انڈیز کے فائنل میں دونوں ٹیموں کا کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا۔ ویسٹ انڈیز ہر اعتبار سے بہتر ٹیم تھی، انہوں نے انڈینز کو کم اسکور پر آؤٹ کر لیا، ویسٹ انڈین بلے باز فارم میں تھے، مگر بھارتی میڈیم پیسرز کی گیندوں کے سامنے ان سے 183رنز نہیں بن پائے۔ یوں کلائیو لائیڈ مسلسل ورلڈ کپ جیتنے کی ہیٹرک نہیں کر سکے۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ ہم کالج میں تھے جب 1987ورلڈ کپ کا سیمی فائنل لاہور میں ہوا، پاکستان تب فیورٹ تھا جبکہ آسٹریلیا کی نئی ٹیم بن رہی تھی ۔ اس سیمی فائنل میں بعض چیزیں پاکستان کے خلاف گئیں۔ عمران خان نے آخری اوور سلیم جعفر کو دیا جن کی پٹائی ہوگئی ۔ آخری اوور وسیم اکرم کو کرانا چاہیے تھا مگر عمران خان سے حساب غلط ہوگیا۔ بعد میں بیٹنگ کرتے ہوئے بھی ردھم نہ بنا۔
سلیم ملک اس ورلڈ کپ میں بہت اچھا کھیل رہے تھے، وہ اسٹیو وا کی ایک سلو بال پر آؤٹ ہوگئے، جاوید میانداد اور عمران خان کی اچھی پارٹنر شپ بنی تھی کہ عمران خان کو غلط آؤٹ دے دیا گیا، امپائر بھی ڈکی برڈ جیسا مشہور شخص تھا۔
عمران خان واپس چلے گئے ، وکٹیں گرتی گئیں اور پاکستان ہار گیا۔ اسی ورلڈ کپ کے فائنل میں انگلینڈ کے ساتھ بھی ایسا ہوا، گیٹنگ وکٹ گنوا بیٹھے، بل ایتھی ریورس سوئپ کرتے شکار ہوئے اور ورلڈ کپ آسٹریلیا اٹھا کر لے گیا۔
1992 ورلڈ کپ کے بارے میں بتانے کی ضرورت ہی نہیں، اس میں کتنے اگر مگر ہوئے ، ٹیموں کے اچھے اور برے دن آئے۔ بعض غلطیاں نہ ہوئی ہوتیں تو شائد پاکستان ورلڈ کپ میں آگے نہ جاپاتا۔ آسٹریلیا ، ویسٹ انڈیز کے میچ میں بنجمن اگر برائن لارا کو آؤٹ نہ کرا دیتا تو آسٹریلیا ہار جاتا اور پاکستان بھی باہر ہوجاتا۔
چھیانوے ورلڈ کپ کے کوارٹر فائنل میں وقار یونس جس نے آٹھ اوورز میں صرف چوبیس رنز دئیے تھے، آخری دو اوور میں انہیں چالیس رنز پڑ گئے۔ بیٹنگ میں عامر سہیل اور سعید انور نے ماحول بنا دیا تھا، سعید انور آؤٹ ہوئے تو عامر سہیل پرساد کی گیند پر جذباتی ہو کر وکٹ گنوا بیٹھے ، ورلڈ کپ بھی ہاتھ سے پھسل گیا۔1999ورلڈ کپ میں پاکستان ایک بار فیورٹ تھا۔
فائنل میں وسیم اکرم کا ایک غلط فیصلہ ہوا اور گیلی پچ پر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے ٹیم ڈیڑھ سو نہ بنا پائی، میچ بری طرح ہار گئی۔
اس طرح کے بہت سے واقعات بیان ہوسکتے ہیں۔ بعض اوقات چند غیر معمولی گیندیں، کسی بلے باز کی جانب سے مخالف باؤلر کی دھنائی سب کچھ بدل دیتی ہے۔ ون ڈے میں ایسا ہوتا تھا، مگر اب ٹی ٹوئنٹی میں یہ بہت زیادہ ہونے لگا ہے۔
اس پہلے سیمی فائنل ہی کو دیکھ لیں۔ جمی نیشم نے کرس جورڈن کے ایک اوور میں تئیس رنز بنا کر میچ کا پانسہ پلٹ دیا۔ جورڈن انگلش ٹیم کی جانب سے ڈیڈ اوورز میں باؤلنگ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ یہ ان کا دن نہیں تھا، پٹ گئے ، رہی سہی کسر عادل رشید کے آخری اوور اور کرس ووکس نے پوری کر دی۔
ہنگر گیم ایک مشہور فلموں کی سیریز ہے، جینیفر لارنس نے اس میں ہیروئن کا کردار ادا کیا ہے۔ تین فلموں پر مشتمل یہ سیریز سپر ہٹ ثابت ہوئی۔
اس میں ہر سال ایک مقابلہ کرایا جاتا جس میں ریاست کی تمام ڈسٹرکٹس سے دو دو لوگ شامل ہوتے، انہیں جنگل میںچھوڑ دیا جاتا ، ایک دوسرے کو ختم کرکے آخر تک زندہ رہنا شرط تھی۔ جو بچا وہ فاتح قرار پایا۔ ہنگر گیمز کے حوالے سے ایک دعائیہ فقرہ دہرایا جاتا تھا۔
may the odds be ever in your favor
یعنی اتفاقات آپ کے حق میں جائیں۔
ورلڈ کپ کے دو میچز باقی ہیں۔ ہر ٹیم کے حامی یہی دعا کر رہے ہوں گے کہ میچ کے دوران ہونے والے اتفاقات، لمحاتی حادثات ہماری ٹیم کے حق میں جائیں۔ دعا ہماری بھی یہی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر